توانائی بچت پلان پر عملدرآمد ناگزیر

ایڈیٹوریل  جمعرات 5 جنوری 2023
حکومت کی معاونت دراصل ملک کو بحران سے نکالنے میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ فوٹو: فائل

حکومت کی معاونت دراصل ملک کو بحران سے نکالنے میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی کابینہ نے توانائی بچت پلان کے نفاذ کی منظوری دے دی ہے، جو فی الفور نافذ العمل ہوگا جس کے تحت ملک بھر میں تمام شادی ہال رات دس بجے اور مارکیٹیں ساڑھے آٹھ بجے بند ہوجائیں گی۔

ان اوقات کار کی پابندی سے باسٹھ ارب روپے کی بچت ہوگی، بجلی سے چلنے والے غیر موثر، غیر معیاری پنکھے یکم جولائی کے بعد فیکٹریوں میں تیار نہیں کیے جاسکیں گے۔ ملک بھر میں توانائی بچت کے حوالے سے اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ پانی کی بچت کے حوالے سے بھرپور اقدامات کا عندیہ دیا گیا ہے۔

ملک اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین توانائی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کا توانائی بچت پروگرام ایک مستحسن اقدام ہے، اس سلسلہ میں حکومت کی معاونت دراصل ملک کو بحران سے نکالنے میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے لیکن دوسری جانب صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے عمل درآمد سے انکار کر دیا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی حکومت نے توانائی کی بچت کا کوئی منصوبہ بنایا ہو اور اس پر عمل درآمد میں رکاوٹیں نہ آئی ہوں۔

دوسری جانب جنوبی ایشیائی ممالک کی نسبت پاکستان میں بجلی کی قیمتیں زیادہ ہونے کے باوجود یہ شعبہ گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت زیادہ خسارے کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستان اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے باوجود لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہا ہے ۔

موجودہ وقت میں پاکستان کا توانائی کا شعبہ پٹرولیم مصنوعات اور مایع گیس (ایل این جی) کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مسائل کا شکار ہیں، جب کہ بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ ماضی میں بھی موجود رہا ہے۔

توانائی کے شعبے کے بنیادی مسائل میں پانی سے بجلی پیدا کرنے پر تھرمل کو ترجیح دینا اور قابل تجدید ذرایع سے بجلی پیدا نہ کرنا، بجلی کی ترسیل کا پرانا نظام و آلات، ترسیل میں بجلی کا ضایع ہونا ، بجلی کی چوری اور اس شعبے کے اداروں میں کرپشن کی بھر مار ہیں۔

توانائی اور خصوصاً بجلی کے شعبے کے لیے بیرون ملک سے لیے گئے قرضوں کو بھی غیر ذمے داری سے استعمال کیا گیا ، جس کے باعث پاکستان ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے باوجود کئی کئی گھنٹے اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔

اکثر ماہرین کے خیال میں اس وقت پاکستان کو آٹھ ہزار میگاواٹ بجلی کے شارٹ فال کا سامنا ہے ، جسے پورا کرنے کے لیے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے کم استعمال کا سہارا لیا جا رہا ہے ، کیونکہ ملک میں بجلی کی ترسیل کا نظام پرانا ہونے کے باعث 22 ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی صارفین تک پہنچانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، جہاں بلند پہاڑوں کے علاوہ وادیاں اور میدانی علاقے بھی موجود ہیں۔ملک کے شمال میں واقع پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے پانیوں کے جھرنے دریاؤں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور میدانی علاقوں سے گزرتے ہوئے پاکستان کے جنوب میں واقع بحیرہ عرب کی آغوش میں جا گرتے ہیں۔

پاکستان میں پانی کی فراوانی ہے، جو ملک کے شمال میں پہاڑی سلسلوں میں سفر کرتے ہوئے اونچائی سے گرتا چلا جاتا ہے اور یہی وہ مظہر ہے جو اس قدرتی مایع سے بجلی بنانے کے لیے موافق سمجھا جاتا ہے۔

ماہرین کے خیال میں پاکستان کے فیصلہ سازوں نے وافر مقدار میں پانی کی موجودگی اور اس سے بجلی بنانے کی استعداد کے باوجود گیس اور تیل سے برقی توانائی پیدا کرنے کی طرف جا کر ملک کے ساتھ زیادتی کی۔ پاکستان میں پانی سے دو لاکھ میگا واٹ بجلی بنانے کی استعداد موجود ہے، جسے مختلف وجوہات کی بنا پر استعمال نہیں کیا گیا۔

پچھلے چند سالوں میں جب بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں کی وجہ سے شمسی توانائی حاصل کرنے کے لیے عوام میں دلچسپی پیدا ہوئی تو اس سال کے شروع میں حکومت نے فوراً اس پر جی ایس ٹی لگا کر اس کی قیمتوں میں تقریباً تیس سے چالیس فیصد اضافہ کر دیا۔ گو یہ فیصلہ موجودہ حکومت نے نئے بجٹ میں واپس لے لیا تھا مگر شمسی توانائی کی کمپنیوں نے اپنی قیمتوں میں کمی کا اعلان ابھی تک نہیں کیا، بلکہ مختلف حیلوں بہانوں سے ان کمپنیوں نے قیمتوں میں مجموعی طور پر سو فیصد اضافہ کر دیا ہے۔

ہماری توانائی کی پیداوار پر دباؤ کم کرنے کے لیے حکومت کو بڑے گھروں میں لازمی شمسی توانائی لگانے پر زور دینا چاہیے، اگر ضرورت ہو تو اس کے لیے مناسب قانون سازی پر بھی غور کیا جا سکتا ہے ، کیونکہ گھریلو توانائی کا زیادہ استعمال بڑے گھروں میں ہوتا ہے تو ان کا شمسی توانائی استعمال کرنا ہمارے قومی گرڈ پر دباؤ کم کرسکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ گھریلو شمسی توانائی کے یونٹ اضافی توانائی واپڈا کو دے رہے ہوں گے تو واپڈا کسی اضافی خرچ کے بغیر عوام کو سستی توانائی مہیا کر سکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑی کمپنیوں کے دفاتر پر بھی شمسی توانائی کا استعمال لازمی قرار دیا جاسکتا ہے۔ نو تعمیر بلند و بالا عمارتوں کے لیے بھی شمسی توانائی کا حصول لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔

اسی طرح چھوٹے گھروں کے لیے شمسی توانائی حاصل کرنے کے لیے بینکوں سے آسان اقساط اور کم شرح سود پر قرضے دیے جا سکتے ہیں۔

شمسی توانائی کے سستے حصول کے لیے سولر پینلز اور بیٹریوں پر کچھ عرصے کے لیے کسی قسم کے محصولات پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔ہمارے زرمبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر ، تیل کی بہت بڑی درآمد پر خرچ ہو رہے ہیں۔ اس میں کمی لا کر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبا کم کیا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں ہمیں بیٹری پر چلنے والی گاڑیوں کی درآمد بڑھانی چاہیے یا پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو مالی ترغیب دی جائے کہ وہ آیندہ پانچ برسوں کے اندر یا تو ہائبریڈ ٹیکنالوجی والے انجن یا مکمل بیٹری پر چلنے والی گاڑیوں کے انجن کا استعمال کرنا شروع کریں۔ اس سلسلے میں مناسب قانون سازی بھی اس تبدیلی کے عمل میں تیزی لا سکتی ہے۔

یہ تجربہ کئی ترقی یافتہ ممالک میں کامیابی سے چلایا جا چکا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ ان چند اقدامات سے ہم اپنی معیشت کو پیش دو بڑے چیلنجز جن میں توانائی کی پیداوار اور تیل کی بڑھتی ہوئی درآمد شامل ہیں، کامیابی سے مقابلہ کر سکیں گے۔

پاکستان میں کوئلے کے ذخائر کی وجہ سے صوبہ سندھ سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے، اگر درآمدی کوئلے سے بجلی کا ایک یونٹ 35 روپے میں بنتا ہے کہ تو مقامی کوئلے سے یہی یونٹ 13 روپے میں دستیاب ہوگا یعنی فی یونٹ 22 روپے کی بچت ہوگی۔ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ایک ریلوے لائن کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔

اس سے یہ کوئلہ نا صرف کراچی بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں باآسانی پہنچایا جاسکے گا۔ اس ریلوے لائن کے قیام سے تھر کا کوئلہ بجلی بنانے کے علاوہ سیمنٹ اور اسٹیل فیکٹریوں میں بھی استعمال ہوسکے گا۔ تھر کے کوئلے کے ذخائر کو نہ صرف براہِ راست ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ پراسیس کر کے اس کو مختلف ایندھن جیسے کہ کول بیسڈ گیس اور ڈیزل میں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے تھر میں پیٹرو کیمیکلز انڈسٹری قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو تیل و گیس کے شعبے میں تیزی سے گرتے ہوئے مقامی ذخائر کا سامنا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 9 فیصد ذخائر میں کمی ہورہی ہے جب کہ تیل و گیس کی تلاش کا کام اس تیزی سے نہیں ہورہا ہے۔ پاکستان کے سیسمک ایریا کا رقبہ 8 لاکھ 27 ہزار مربع کلومیٹر ہے جس میں سے اب تک صرف 20 فیصد میں تیل و گیس کی تلاش کا کام ہوا ہے۔

تیل و گیس کے مقامی وسائل کو بڑھانے کے لیے حکومت کو ان ذخائر کی تلاش کے زیادہ سے زیادہ منصوبے شروع کرنا ہوں گے۔ ملک میں تیل و گیس کے ذخائر کی قلت نہیں ہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ تیل و گیس کی تلاش کے حوالے سے کنوؤں کی کھدائی کا عمل تیز کیا جائے۔ درحقیقت ملک کو در پیش سنگین معاشی صورتحال کے تناظر میں ہمیں اپنی عادتوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ صبح کے وقت مارکیٹیں کھلنے سے پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ڈے لائٹ میں کاروبار کو ممکن بنایا جاسکے گا۔

امریکا اور مغرب کے دیگر ممالک اگر ڈے لائٹ میں کاروبار کر کے ترقی کر سکتے ہیں تو یہ راستہ ہمارے لیے بھی بند نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو انرجی بحران کا حقیقی حل بھی تلاش کرنا چاہیے۔

مہنگی تھرمل بجلی کو خدا حافظ کہتے ہوئے ، پانی ، سورج کی روشنی اور ہوا سے سستی بجلی بنائی جائے اور تمام دفاتر ، گھروں اور ٹیوب ویلز کو واپڈا سے الگ کر کے سولر پر منتقل کیا جائے تو نہ صرف بجلی سستی ملے گی ، مہنگائی کم ہوگی بلکہ صنعتوں کو وافر اور سستی بجلی دستیاب ہو گی اور ملک کا تجارتی خسارہ بھی کم ہو گا اور کفالت کے ہدف کو حاصل کیا جا سکے گا، توانائی کے شعبے میں بحران کا خاتمہ بجلی چوری اور لائن لاسز کم کر کے بھی کسی حد تک ممکن ہے مدنظر رکھا جائے کہ نئے پنکھے ہوں یا لائٹس کی تبدیلی ان سے بچت ضرور ہوگی لیکن اس سے قبل ان کی خریداری اور تبدیلی کے لیے بھاری رقم کی ضرورت بھی پڑے گی۔

ضروری ہے کہ بجلی اور گیس کے شعبوں میں طلب کے مقابلے میں کم رسد پر قابو پانے کے لیے پیداوار میں اضافے کی ساتھ بجلی اور گیس کا ضیاع روکا جائے۔

توانائی کے بغیر ترقی ناممکن ہے، لہٰذا حکومت کو ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس میں توانائی کے وہ ذرایع استعمال کیے جائیں جو لوگوں کی صحت کو نقصان نہ پہنچائیں ، کم قیمت ہوں ، کاربن کا اخراج بھی نہ کریں اور سی پیک جیسے عظیم منصوبوں کے ذریعے لمبے عرصے تک ملک اور قوم کی بقا اور خوشحالی کا باعث بنے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔