پنجاب میں 9 اور 11 جنوری کی اہمیت

مزمل سہروردی  جمعرات 5 جنوری 2023
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پنجاب میں آگے کیا ہوگا۔ پنجاب اسمبلی میں نو جنوری کے اجلاس میں کیا ہوگا۔ 11جنوری کو لاہور ہائی کورٹ کی سماعت میں کیا ہوگا۔

پنجاب میں نو جنوری اور گیارہ جنوری کی تاریخیں بہت اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی۔ اس کے بعد انھوں نے اسپیکر پنجاب اسمبلی اور ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف جمع کروائی جانے والی عدم اعتماد کی تحاریک بھی واپس لے لی ہیں۔

ان تحاریک کی واپسی ایک بات تو واضح کرتی ہے کہ پی ڈی ایم بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ووٹ پورے نہیں ہیں۔ اگر ووٹ پورے ہوتے تو یہ عدم اعتماد کی تحاریک واپس لینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔

تینوں عدم اعتماد کی تحاریک کی واپسی نے بظاہر وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کو مضبوط کیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ اعتماد کے ووٹ کی تلوار ابھی بھی پرویز الٰہی کے سر پرلٹکی ہے۔

گورنر کی جانب سے اعتماد کے ووٹ کا کہنے کے بعد ابھی تک وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا ہے۔

اس ضمن میں پنجاب اسمبلی کا اجلاس نو جنوری کو بلایا گیا ہے۔ جب کہ اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر گورنر نے پرویز الٰہی اور ان کی کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔ جس کے خلاف پرویز الٰہی نے لاہور ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے 11جنوری کو اگلی سماعت مقرر کی ہوئی ہے۔ اس لیے 11جنوری کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔

اگلی سماعت پر لاہور ہائی کورٹ کیا کرے گی۔ یہ ایک بڑا سوال بن گیا ہے۔ اسی سوال کے جواب میں پنجاب کے تخت کا مستقبل موجود ہے۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی سماعت سے دو دن قبل پنجاب اسمبلی کا اجلاس کیوں بلایا گیا ہے۔ کیا پرویز الٰہی 9جنوری کو اعتما د کا ووٹ لے لیں گے۔

کیا وہ اعتماد کا ووٹ لے کر 11جنوری کی سماعت میں جائیں گے۔ اگر پرویز الٰہی 9جنوری کو اعتماد کا ووٹ لے لیتے ہیں تو پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم کا پنجاب میں کھیل ختم۔ پھر عمران خان کو پنجاب اسمبلی توڑنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ لیکن اگر پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام ہو جاتے ہیں توپھر ان کی وزارت اعلیٰ چلی جائے گی۔

اس لیے ان کے لیے دونوں صورتحال کوئی زیادہ اچھی نہیں ہیں۔ ان کے لیے بہترین صورتحال یہی ہو سکتی ہے کہ اعتماد کا ووٹ بھی نہ لینا پڑے اور ان کی وزارت اعلیٰ بھی قائم رہے۔فی الحال تحریک انصاف کے ذرایع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ 9جنوری کو اعتماد کا ووٹ لینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

پرویز الٰہی نے تحریک انصاف سے کہا ہے کہ پہلے وہ اپنے ووٹ پورے کر لیں۔ پھر اعتماد کا ووٹ لیا جائے گا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے چند دن قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے تین ارکان کو اعتماد کے ووٹ میں نیوٹرل رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔

اعتماد کے ووٹ کو ناکام کرنے کے لیے فی الحال تین ووٹ کافی ہیں۔ اگر تین ارکان نو جنوری کے اجلاس میں غیر حاضر ہو جاتے ہیں تو اعتماد کا ووٹ نہیں ہو سکے گا۔ یہ بھی کوئی اچھی بات نہیں ہوگی، کیونکہ پھر سارا کھیل لاہور ہائی کورٹ میں چلا جائے گا۔

حکومتی ذرایع کے مطابق دو حکمت عملیاں بنائی گئی ہیں۔ اگر نو جنوری کو اعتمادکا ووٹ نہیں لیا جاتا توپرویز الٰہی اور حکومت پنجاب کی کوشش ہو گی کہ گیارہ جنوری کو التوا لے لیا جائے۔ ایک اور لمبی تاریخ مل جائے۔ اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی کی تجدید کر دی جائے اور ایک نئی تاریخ مل جائے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ 11جنوری کو بنچ بھی ٹوٹ سکتا ہے۔

اور پھر نئے بنچ کے چکر میں تاریخ مل سکتی ہے۔ موجودہ بنچ کے فیصلے پر پہلے ہی کافی تنقید ہوئی ہے۔ پی ڈی ایم کا موقف ہے کہ اعتماد کے ووٹ کی تاریخ نہ دیکر پرویز الٰہی کو بہت بڑی سیاسی رعایت دی گئی۔

انھیں کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ اگر گورنر کا نوٹیفکیشن معطل بھی کرنا تھا تو اعتماد کے ووٹ کی تاریخ ضرور طے کی جانی چاہیے تھی۔ اس لیے اگر نو جنوری کو اعتماد کا ووٹ نہیں ہوتا تو 11جنوری کو کیا ہوگا بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔