سرمچاروں کے لیے فضا ہموار؟

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 5 جنوری 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پر امن مظاہرین کو ریاستی طاقت سے کچلنے کے سنگین نتائج نکلتے ہیں، مگر اسلام آباد اور کوئٹہ کی حکومتوں نے گوادر کے عوام کی مزاحمتی تحریک کے خلاف پولیس کی طاقت کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ گوادر میں روزگار اور عزتِ نفس کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرنے والے مظاہرین کو گرفتارکیا جا رہا ہے۔

پولیس رات گئے گھروں میں داخل ہوکر گرفتاریاں کررہی ہے۔ گوادر کوحق دو تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء اﷲ لانگو نے کہا ہے کہ حکومت امن و امان کے مسئلہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کی سرکوبی کی جائے گی۔

اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کے مطابق بلوچستان کی حکومت نے گوادر کے عوام کے مطالبات حل کرنے کے بجائے جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ سے رابطہ کیا ہے تاکہ وہ اپنے صوبائی رہنما کو احتجاجی تحریک ختم کرنے اور حکومت سے مفاہمت پر آمادہ کریں۔

گوادر کی احتجاجی تحریک سے بلوچستان کا ایک اور ساحلی شہر پسنی بھی متاثر ہوا ہے۔ عوامی احتجاج کی بناء پر گوادر اور پسنی کا کراچی اور کوئٹہ سے رابطہ منقطع ہوا ہے۔

گوادر کو چین سے ملانے والی قومی شاہراہ پر ٹریفک معطل ہے۔ عوام کے احتجاج کی بناء پر گوادر کی بندرگاہ سے سامان کی آمدورفت بھی بند ہوگئی ہے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء اﷲ لانگو اور وزیر داخلہ کے مشیر لالہ رشید گزشتہ ہفتہ گوادر گئے تھے۔ انھوں نے حق دو تحریک کے رہنماؤں سے مذاکرات بھی کیے مگر تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن نے وزیر داخلہ ضیاء اﷲ لانگو اور لالہ رشید سے ملاقات کرنے سے اجتناب کیا تھا۔

مولانا ہدایت الرحمن کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی حکومت کے عہدیداروں سے کئی دفعہ مذاکرات ہوئے اور وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے بھی بنیادی مسائل کے حل کا وعدہ کیا مگر عملی طور پر کوئی پیش قدمی نہ ہوئی اور گوادر، پسنی اور دیگر ساحلی علاقوں کے مکین مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔

گوادر بلوچستان کا پسماندہ شہر ہے۔ اس صدی کے آغاز کے ساتھ چین کی حکومت نے دیگر ممالک سے تجارت اور ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں ایک نیا نظریہ پیش کیا۔ چین کے مرد آہن Xiginping نے ون بیلٹ ون روڈ کی تعمیر اور اقتصادی راہداری کی تعمیر کے منصوبوں پر ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک سے مذاکرات کیے۔

پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت 2008میں قائم ہوئی۔ آصف علی زرداری صدر اور مخدوم یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کے عہدوں پر براجمان ہوئے۔ چین نے اپنے صوبہ سنکیانگ سے لے کر بلوچستان کی ساحلی بندرگاہ گوادر تک سڑک کی تعمیر اور اقتصادی راہ داری کے قیام کے لیے حکومت پاکستان سے مذاکرات کیے۔

نواز شریف 2013ء میں برسر اقتدار آئے اور چین پاکستان اقتصادی راہ داری (China-Pakistan Economic Corridor (CPEC))کے معاہدہ پر اتفاق ہوا۔ اس اقتصادی منصوبہ کے مکمل ہونے سے چین کی پاکستان کے علاوہ گلف اور دیگر عرب ممالک کے علاوہ افریقی ممالک سے تجارت میں حائل رکاوٹیں دور ہونگی اور اس معاہدہ کے تحت پاکستان کے مختلف علاقوں میں چین صنعتی کارخانے قائم کرے گا اور بجلی گھروں کی تعمیر میں مدد دے گا۔ چین نے گوادر کو ایک جدید بندرگاہ میں تبدیل کرنا تھا۔

اس معاہدہ کے تحت چین کا گوادر کی بندرگاہ میں حصہ 91 فیصد اور پاکستان کا 9فیصد طے پایا۔ اس اقتصادی منصوبہ سے چین کو 2020 تک 62 بلین ڈالر کی بچت ہونی تھی۔ نواز شریف حکومت کے اقتصادی امور کے وزیر احسن اقبال جو اس معاہدہ کی تیاری میں شریک رہے تھے مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ یہ اقتصادی راہ داری گیم چینجر ہوگی مگر حکومت نے اس منصوبہ پر عملدرآمد کے وقت بلوچستان کے حقوق کے بارے میں کوئی غور و فکر نہیں کیا۔

بلوچستان، نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد سے مسلسل بدامنی کا شکار ہے۔ ایک طرف سرمچاروں کی سرگرمیاں زور پکڑ گئیں تو دوسری طرف حکومتی اقدامات نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن کر دیا تھا۔ اس صدی کے پہلے عشرہ میں بلوچستان میں دیگر صوبوں سے آباد ہونے والے شہریوں کے قتل کا ایک سلسلہ جاری رہا۔ نامعلوم افراد نے اساتذہ، صحافیوں، وکلائ، سرکاری افسروں، خواتین اور وکلا کی ٹارگٹ کلنگ کی۔

دوسری طرف سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے اور کچھ کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دہشت گردی کو روکنے اور امن و امان قائم کرنے کے لیے بلوچستان میں ہر چار پانچ میل پر سیکیورٹی چیک پوسٹ قائم ہوئی جس سے عام آدمی کی آمدورفت بھی مشکلات کا شکار ہوئی۔ گوادر شہر بھی بدامنی کا شکار ہوا۔ دہشت گردوں نے اپنے خفیہ مفادات کے حصول کے لیے چینی باشندوں اور تنصیبات پر حملے کیے۔ غیر ملکی ٹرالر کو بحیرہ عرب میں ماہی گیری کی اجازت دیدی گئی۔

یہ ہیوی غیر ملکی ٹرالر جو الیکٹرونک مال اور جدید سرد خانوں کی سہولتوں سے لیس ہیں بحیرہ عرب میں بلوچستان کے ساحل پر مچھلیوں کا آزادی سے شکار کرتے ہیں۔ گوادر اور اطراف کے علاقوں کے 90 فیصد مکینوں کا روزگار ماہی گیری کے شعبہ سے وابستہ ہے۔ گوادر کے حکام نے مقامی ماہی گیروں پر پابندی لگا دی کہ پورے مہینہ سمندر میں شکار نہیں کرسکتے۔ اس پابندی کے مہلک اثرات برآمد ہوئے۔ غریب ماہی گیر فاقوں میں مبتلا ہوئے۔

مکران ڈویژن کی معیشت کا انحصار ایران سے تجارت پر ہے۔ حکام نے ایران سے تجارت پر مختلف نوعیت کی قدغن لگادی۔ ترقی پسند اور قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں نے گوادر کے عوام کے روزگار پر پابندیوں کے خلاف احتجاج شروع کیا تو اس احتجاج کو کچل دیا گیا۔

مولانا ہدایت الرحمن گوادر میں پیدا ہوئے ۔ ان کا خاندان صدیوں سے ماہی گیری کے پیشہ سے وابستہ ہے۔

جماعت اسلامی کے رہنما مسلمانوں کے مجموعی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں ۔ مولانا ہدایت الرحمن نے یہ بیانیہ اختیار کیا کہ ان کا خاندان صدیوں سے ماہی گیری کرتا ہے اور بحیرہ عرب میں ہر لہر کے پیدا ہونے اور اس کے اثرات کے بارے میں جانتا ہے مگر اب یہ ماہی گیر سمندر میں نہیں جاسکتے۔

کوہاٹ اور جہلم سے آنے والے اہلکار مقامی لوگوں سے ان کی شناخت دریافت کرتے ہیں۔ گوادر میں آبادی کا ایک حصہ ذکری فرقہ سے تعلق رکھتا ہے مگر مولانا ہدایت الرحمن نے مذہبی تفریق پیدا کرنے کے بجائے گوادر کے تمام غریبوں کے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھائی۔ پھر حکومت نے اپنی پالیسی میں کچھ تبدیلی کی۔ مولانا ہدایت الرحمن کو اپنی مہم چلانے کی آزادی ملی ، یوں حق دو تحریک میں مردوں کے علاوہ خواتین بھی شامل ہوگئیں۔

حق دو تحریک نے گزشتہ سال کئی مہینوں تک دھرنا دیا۔ اس وقت عمران خان حکومت پر فائز تھے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے عہدیداروں نے مذاکرات کیے اور معاہدہ ہوا مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے معاہدہ پر عملدرآمد نہ کیا۔ مولانا ہدایت الرحمن کے نمایندے گوادر کے بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ مولانا ہدایت الرحمن نے پھر حق دو تحریک شروع کی۔ حکومت اس دفعہ طاقت سے اس تحریک کو کچل رہی ہے۔

دوسری طرف جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کے ذریعہ مولانا ہدایت الرحمن کو راہِ راست پر لانے کی بھی کوشش ہورہی ہے مگر پالیس سازوںکو اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ مولانا ہدایت الرحمن نے ریاست کے دباؤ پر تحریک ختم کردی یا اس کو کچل دیا گیا تو پھر سرمچاروں کے لیے فضا ہموار ہوجائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔