بلوچستان کی سیاست

محمد سعید آرائیں  جمعرات 5 جنوری 2023
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

آبادی میں سب سے کم اور رقبے میں ملک کے سب سے بڑے مگر پس ماندہ بلوچستان کی سیاست قبائلی طرز کی ہے جہاں سیاستدانوں سے زیادہ قبائلی سردار ہیں اور یہی لوگ اپنے صوبے کی سیاست میں نمایاں اور موثر کردار ادا کرتے ہیں جب کہ غیر قبائلی سیاستدان برائے نام ہیں اور پورا بلوچستان اپنے اپنے قبیلوں کی طاقت کے باعث الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور جس کی ووٹ کی طاقت زیادہ ہوتی ہے وہ منتخب ہو جاتا ہے اور انتخابات میں سرداروں کا مقابلہ سرداروں سے ہوتا ہے۔

بلوچستان کی سیاست بھی ان ہی سرداروں کی مرہون منت ہے اور کچھ سرداروں نے اپنی اپنی پارٹیاں بنا رکھی ہیں اور بعض سردار سیاسی جماعتوں کی سیاست تو کرتے ہیں مگر انھیں سیاسی پارٹیوں کی کم مگر سیاسی پارٹیوں کو ان کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور سرداروں کے سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنے سے ان کے علاقوں کی سیاست بدل جاتی ہے اور وہاں لگے سیاسی پارٹیوں کے پرچم بھی تبدیل ہو جاتے ہیں کیونکہ وہاں کے لوگ کسی بھی پارٹی کے نظریے و منشور سے متاثر نہیں ہوتے وہ اپنے سرداروں سے متاثر ہوتے ہیں۔

گزشتہ نصف صدی سے صوبے کی علاقائی پارٹیوں کے ساتھ مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی ، جے یو آئی اور پی ٹی آئی صوبے کی سیاست میں نمایاں ہیں۔

1970 کے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی نے زیادہ نشستیں لے کر صوبے میں مل کر حکومت بنائی تھی اور سردار عطااللہ مینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور غوث بخش بزنجو گورنر بنائے گئے تھے اور یہ دونوں قومی پارٹیاں تھیں جن کی قیادت خان ولی خان اور مولانا مفتی محمود کے پاس تھی۔

اس کے علاوہ کوئی اور پارٹی سیاست میں نمایاں نہیں تھی حالانکہ قائد اعظم کے دور میں مسلم لیگ اہم پارٹی تھی جس میں بڑے بڑے سردار شامل تھے اور یہ سردار مارشل لا ادوار میں حکومتی اشاروں پر پارٹیاں بدلتے رہتے تھے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے جس کی واضح مثال 5 سال قبل مسلم لیگ (ن) کی رئیسانی حکومت ختم کرا کر راتوں رات بلوچستان عوامی پارٹی کا قیام اور ان کی حکومت بن جانا تھا۔

بلوچستان کے انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ آزاد امیدوار بھی منتخب ہوتے تھے اور جس پارٹی کی حکومت وہاں بنوانا ہوتی تھی۔

اسی میں آزاد امیدوار شامل ہو جاتے اور وزیر بن جاتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سقوط ڈھاکا کے بعد ملک کے وزیر اعظم بنے تو انھوں نے سیاسی مجبوری کے باعث بلوچستان اور سرحد میں نیپ اور جے یو آئی کی حکومتیں برداشت کی تھیں اورکچھ عرصے بعد نیپ کے وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کو گورنر راج کے ذریعے ہٹا کر نواب اکبر بگٹی کو گورنر بنا دیا تھا۔

جس پر وزیر اعلیٰ سرحد مولانا مفتی محمود بھی احتجاجاً مستعفی ہوگئے تھے اور نیب پر پابندی کے بعد غوث بخش بزنجو، عبدالصمد اچکزئی اور سردار عطا اللہ مینگل نے اپنی پارٹیاں بنا لی تھیں جو اب بھی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی اپنے دو دھڑوں میں موجود ہیں جن کی قیادت اب بھی دو بلوچ رہنما ڈاکٹر عبدالمالک اور اختر مینگل کر رہے ہیں اور دونوں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔

بلوچستان دو لسانی صوبہ رہا ہے اور تقریباً ہر حکومت میں وزیر اعلیٰ بلوچ اور گورنر پشتون رہے ہیں اور بلوچستان بھی بلوچ اور پشتون بیلٹ پر مشتمل ہے جہاں یہی دونوں منتخب ہوتے ہیں۔ بھٹو دور میں بلوچستان میں آپریشن کیا گیا تھا جس کے منفی نتائج نکلے اور وہاں کے سیاسی رہنما پہاڑوں پر اور افغانستان چلے گئے تھے اور ولی خان سمیت این اے پی کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے غداری کے مقدمات ان پر قائم ہوئے تھے جو بعد میں جنرل ضیا الحق نے رہا اور کیس ختم کیے جس کے بعد دو لسانی سیاست کو عروج ملا۔ نواب اکبر بگٹی نے اپنی پارٹی بنائی اور یہ علاقائی پارٹیاں ہی مل کر صوبے میں حکومتیں بناتی رہیں اور بلوچستان سے قومی پارٹیوں کا وجود متاثر ہوا۔ نیپ ، اے این پی بن گئی۔

جے یو آئی دو دھڑوں میں اور مسلم لیگ بھی گروپوں میں تقسیم ہے۔ پی ٹی آئی کے سات صوبائی ارکان بھی تقسیم ہیں البتہ پیپلز پارٹی میں کوئی گروپ نہیں۔ پی پی کا ایک سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی نے جے یو آئی میں شمولیت کی ہے اور (ن) لیگ کا وزیر اعلیٰ جنرل قادر بلوچ سمیت پی پی میں آ چکے ہیں اور دو سابق وزرائے اعلیٰ عبدالمالک بلوچ اور اختر مینگل بی این پی کے دو گروپوں کے سربراہ ہیں اور رہنما آئے دن پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں قومی سیاست بہت کم ہے۔

بلوچستان کی سیاست میں بھی دوسرے صوبوں کی طرح سیاست، کرپشن اور اقربا پروری لازم و ملزوم رہی ہے اور من مانیاں اور بالاتروں کی چاپلوسی قبائلی سیاستدانوں کی عادت رہی ہے جس کے بغیر وہ رہ نہیں سکتے۔ قبائلی سیاستدان اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلانے اور اپنی قوم اور ووٹروں کو تعلیم سے محروم رکھنے میں بھی مشہور ہیں۔

کوئٹہ اور چند شہر ہی اچھے تعلیمی اداروں کا مرکز ہیں جہاں طلبا کی بھی غیر قانونی لسانی طلبا تنظیمیں ہیں مگر وہاں بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں جیسی صورت حال کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ بلوچستان میں تعلیمی پس ماندگی کے سبب غیر قبائلی سیاستدان بھی صرف بڑے شہروں تک محدود اور کم ہیں جو سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لیے سیاسی صورت حال مستحکم نہیں ہے اور ایک اسمبلی کے ہوتے ہوئے حکومتیں بدل جاتی ہیں اور وفاداریوں کی تبدیلی میں سیاسی و مالی مفادات کو ترجیح حاصل رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔