وہ بھی ’کم بخت‘ ترا چاہنے والا نکلا …

رفیع اللہ میاں  ہفتہ 5 اپريل 2014

کراچی سے نئے عہد ساز ادبی جریدے اجرا کو شایع کرنے والے ادارے بیونڈ ٹائم پبلی کیشن نے ’نظیرکی غزلیں‘کے عنوان سے ایک خوب صورت انتخاب شایع کیا ہے۔ اس میں سید ایاز محمود نے نظیر اکبر آبادی کی منتخب غزلیں پیش کی ہیں۔ کتاب پڑھنے کے بعد نظیر کی غزلوں کا ایک ایسا جہان نظروں کے سامنے گردش کرنے لگتا ہے جس میں نکتہ آفرینی کا ایک الگ ہی لطف ہوتا ہے اور حیران کردینے والے الگ ہی نظائرملتے ہیں۔

نظیر کو ہم ان کی نظموں کے حوالے سے جانتے ہیں۔ کیوں کہ نظیر کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا، اس کا پس منظر نظم پر مبنی تھا۔ ایسی نظم جو عوام سے جڑی تھی۔ جس کی زبان، جس کا لہجہ، جس کے مضامین، جس کا محاورہ اور جس کی نفسیاتی داخلیت مل کر ایک ایسے اسلوب کو جنم دے رہے تھے جو عوامی سطح پر کلام کرنے کی انوکھی صلاحیت سے مالامال تھا۔ لیکن ہمارا موضوع تو نظیر کی غزلیں ہیں۔ ان غزلوں کے انتخاب نے نظیرکے مزید مطالعے پر اکسایا تو حیرت کے نئے در وا ہوئے۔ کچھ نئی باتیں پردۂ ذہن پر نمودار ہوئیں جس نے نظیر سے متعلق برسوں سے چلے آرہے چند مروجہ بیانات کو مشکوک بنادیا۔ یوں نظیر کی غزل سے متعلق نئی باتیں، نئے زاویے نمایاں ہوئے اور یہی اس کالم کی بنیاد بنے۔

نظیر کی نظموں کے جس مشہورومعروف لہجے سے ہم آشنا ہیں، وہ ہمیں ان کی غزلوں میں نہیں ملتا۔ ہمیں یہاں ایک الگ لہجے کے شاعرکا سامنا ہے۔ حیرت ہے کہ نظیر نے اپنے ٹکسالی طرزنگارش کو بدل کر معنویت سے بھرپور اسلوب کیسے اپنالیا ‘ وہ بھی بغیر دقت۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ اور تراکیب تو ایسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں جیسے ہاتھ باندھے نظیر کے درِسخن پر کھڑے ہوں۔ سید ایاز محمود ان کی غزلوں میں ایسی تہ داری کو دریافت کرتے ہیں جس سے اغماز نہیں برتا جاسکتا۔ لیکن تہ داری سے کہیں زیادہ جو خصوصیت ہمیں حیران کرتی ہے وہ ہے خیال آفرینی ۔ ایسے ایسے موتی پڑے ہیں جنھیں دیکھ کر اظہار حیرت کیے بنا زبان کو قرار نہیں آتا۔ کہیں کہے گی یہ تو میر ہے، کہیں کہے گی یہ تو غالب ہے۔ بلاشبہ نظیر نے یہاں بھی ایک نظیر چھوڑی ہے:نہ دل میں صبر نہ اب دیدہ پرآب میں خواب ٭شتاب آ کہ ہمیں آوے اس عذاب میں خواب۔ہو پریشانی سے جس کی مجھے سو جمعیت ٭کس طرح جائوں میں اس زلفِ پریشاں سے نکل۔اس کی فرقت میں ہمیں چرخ ستم گار نے آہ ٭ یہ رلایا، یہ رلایا ہے کہ جی جانے ہے

نظیر کا شعری رویہ ایک ایسا لاابالی شعری رویہ ہے جسے کبھی منضبط ہونے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی‘ جسے کبھی تعلّی کا سہارا درکار نہیں ہوتا‘ جو کبھی فنا ہوجانے کے خدشات سے بے چین نہیں ہوتا۔ اس قسم کے شعری رویے کے لیے ذہنی ورزش بھی درکار نہیں ہوتی اس لیے شعر سازی اس کے بس کی بات ہی نہیں۔ شعر سازی کا ہنر آتا تو یقینا تہ داری کا عنصر بھی نکھر پاتا۔ چناں چہ وہ ہمیں اپنے شعری وفور سے سرشار کرنے کا فریضہ بخوبی ادا کرتے ہیں۔

یہ نظیر کی ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ غزل میں نہ صرف خیال آفرینی اور سلیقہ رکھتے ہیں بلکہ رچائو کی ایسی کیفیت پیدا کرنے پر قدرت رکھتے ہیں جو قاری کے داخلی ماحول میں ازبس رنگِ مسرت بھر دیتی ہے۔ نظیر کے ہاں مرصّع الفاظ و تراکیب تو ہیں لیکن تصنّع نہیں۔ جیسے مالا ٹوٹ جائے اور موتی یکے بعد دیگرے فرش پر گرکر بکھرتے جائیں۔وہ تجمل وہ تموّل وہ تفوّق ، وہ غرور وہ تحشّم وہ تنعّم وہ تعیش وہ شباب۔چشمک و آن و اشارات و ادا و سرکشی ، طنز و تعریض وکنایت، غمزہ و ناز و عتاب۔کفوں میں، انگلیوں میں، لعل لب میں، چشم میگوں میں حنا آفت، ستم فندق، مسی جادو، فسوں کاجل۔بدن میں جامہ زرکش، سراپا جس پہ زیب آور کڑے، بندے، چھڑے، چھلے، انگوٹھی، نورتن ہیکل۔کلام کی یہ دل کشی اور رعنائی دیکھا چاہیے۔ وہ اپنے شعری وفور سے ایسی نکتہ آفرینی پیدا کرتے ہیں جسے پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ فقط نظموں کا شاعر ہے۔ یہ تو ان کی تخلیقی فطرت کا خاصہ تھا‘ وہ کہیں کا بھی رخ کرتے، یہ فطرت ہمدم و ہم ساز ہوتی۔ اور یہ نکتہ بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ان کی تخلیقی فطرت کی جولانی انھیں ایسی زمینوں کی بھی سیر کراتی رہی جہاں اگنے والے گل بوٹے پوری انفرادیت سے سر اٹھاتے۔

مولانا محمد حسین کہتے ہیں کہ اگر ایسے ہی چند شعر منتخب کیے جائیں تو نظیر سے ناواقف انھیں میر کا ہم پلہ تصور کریں گے۔ ٹھیک ہے، نظیر، میر کا ہم پلہ شاعر نہیں تھے‘ اسے ثابت کرنا بھی گویا ایسے ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا۔ کہ نظیر نے بہرحال عوام کی صحبت ہی میں رہنا منظور کیا ۔ وہ شاعری بھی وہی کرتے تھے جو ان کے مخاطبین کے لیے نہایت موزوں تھی۔ اسی لیے وہ نظم کی طرف آئے اور معرکتہ الآرا نظمیں تخلیق کرکے ایک ایسے دور میں وہ کام کیا جو کسی نے نہیں کیا تھا۔ نظیر نے اردو نظم کو نئی جولانی عطا کی۔ اگر ان کی طبع کی روانی غزل کی نرم گیں سرزمین میں اسی طرح بہتی جس طرح نظموں کی سنگ لاخ زمین پر انھوں نے ان مٹ نقوش چھوڑے، تو یقینا میر کے پہلو بہ پہلو کھڑے دکھائی دیتے۔ ایسے میں انھیں کوئی رد کرنے کی جرأ ت نہ کرپاتا۔ اور اس بات کی دلیل ان کی غزلوں کے وہ اشعار ہیں جنھیں پڑھ کر قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ وہ سادگی ہے کہ پڑھنے والا مسرت سے اچھل اچھل پڑتا ہے۔ ان کی گل و بلبل‘ کاکل و عارض اور وصل و فراق پرمبنی مسرت آگیں شاعری یہی کرتی ہے، یعنی حیرت زدہ!

خدا کی شان جنھیں بات بھی نہ آتی ہے٭ وہ اب کریں ہیں سوال و جواب آنکھوں میں۔بات کچھ کہتا ہے اور نکلے ہے منہ سے کچھ نظیر ٭ یہ نشہ تجھ کو ہوا کس کی نگاہ مست کا۔یہ ناتواں ہوں کہ آیا جو یار ملنے کو٭ تو صورت اس کی اٹھاکر پلک نہ دیکھ سکا۔ناز اٹھانے میں جفائیں تو اٹھائیں لیکن ٭ لطف بھی ایسا اٹھایا ہے کہ جی جانے ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ نظیر کی غزلوں میں بھی ان کی نظموں کا رنگ پایا جاتا ہے۔ اس بیان میں تھوڑی سی ٹیڑھ ہے۔ وہ شوخی و ظرافت اور لفظیات کی وہ سج دھج جو غزلوں میں پائی جاتی ہے، حقیقتاً نظیر کا ٹکسالی انداز ہے جو پہلے غزلوں میں نمودار ہوا‘ اور بعد ازاں نظموں میں عروج کو پہنچا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے فارسی کی شعری روایت سے سروکار نہیں رکھا۔ سوقیانہ شاعری کی طرح اسے بھی ایک جرم کے طور پر مذکور کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ان کی اس فارسی آمیز شاعری کو ہم کس خانے میں رکھیں۔ یہ امر ممکن ہے کہ انھوں نے بعد میں غزل کے ساتھ ساتھ اس زبان و بیان کو جو عموماً غزل کے لیے ضروری خیال کیا جاتا تھا، شعوری طور پر ترک کردیا ہو۔ لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ نظیر نے فارسی کی شعری روایت سے سروکار نہیں رکھا۔طرفہ فسوں سرشت ہے، چشم کرشمہ سنج یار لیتی ہے اک نگاہ میں صبر بھی اور قرار بھی۔اس لطف سے جز موئے قلم مانی تقدیر کیا تاب جو کھینچے تری تصویر کوئی اور۔

اور آخر میں ان کا یہ مشہور و معروف شعر دیکھیں :

تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے

وہ بھی اے شوخ ترا چاہنے والا نکلا

جو آج عوامی تحریف کے بعد کچھ اس طرح ہوا ہے: وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا۔ آخر عوام ہی تو انھیں بے طرح چاہتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔