گزرے سال کا محاسبہ اور نئے سال کی تیاری

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  جمعـء 6 جنوری 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

ہمیں سال کے اختتام پر، نیز وقتاً فوقتاً یہ محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہمارے نامۂ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں۔

کیا ہم نے امسال اپنے نامۂ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لیے دنیا و آخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامۂ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا و آخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟

ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ امسال ﷲ کی اطاعت میں بڑھوتری ہوئی یا کمی آئی؟ ہماری نمازیں، روزے اور صدقات وغیرہ صحیح طریقہ سے ادا ہوئے یا نہیں؟ ہماری نمازیں خشوع و خضوع کے ساتھ ادا ہوئیں یا پھر وہی طریقہ باقی رہا جو بچپن سے جاری ہے؟ روزوں کی وجہ سے ہمارے اندر ﷲ کا خوف پیدا ہُوا یا صرف صبح سے شام تک بھوکا رہنا ؟

ہم نے یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھا یا نہیں؟ ہمارے معاملات میں تبدیلی آئی یا نہیں؟ ہمارے اخلاق نبی اکرمﷺ کے اخلاق کا نمونہ بنے یا نہیں؟ جو علم ہم نے حاصل کیا تھا وہ دوسروں کو پہنچایا یا نہیں؟ ہم نے اپنے بچوں کی لافانی زندگی میں کام یابی کے لیے کچھ اقدامات بھی کیے یا صرف ان کی دنیاوی تعلیم اور ان کو دنیاوی سہولیات فراہم کرنے کی ہی فکر کرتے رہے؟ ہم نے امسال انسانوں کو ایذائیں پہنچائیں یا ان کی راحت رسانی کے انتظام کیے؟

ہم نے یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کی یا صرف تماشا دیکھتے رہے؟ ہم نے قرآن کریم کے ہمارے اوپر جو حقوق ہیں وہ ادا کیے یا نہیں؟ ہم نے ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی یا نافرمانی؟ ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے یا نہیں؟ ہم نے والدین، پڑوسی اور رشتے داروں کے حقوق ادا کیے یا نہیں۔۔۔۔ ؟

جس طرح مختلف ممالک، کمپنیاں اور انجمنیں سال کے اختتام پر اپنے دفاتر میں حساب لگاتے ہیں کہ کتنا نقصان ہُوا یا فائدہ؟ اور پھر فائدے یا نقصان کے اسباب پر غور و خوض کرتے ہیں۔ نیز خسارے کے اسباب سے بچنے اور فائدے کے اسباب کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے کی پلاننگ کرتے ہیں۔

اسی طرح ہمیں سال کے اختتام پر نیز وقتاً فوقتاً اپنی ذات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ کس طرح ہم دونوں جہاں میں کام یابی و کا م رانی حاصل کرنے والے بنیں؟ کس طرح ہمارا اور ہماری اولاد کا خاتمہ ایمان پر ہو؟ کس طرح ہماری اخروی زندگی کی پہلی منزل یعنی قبر جنّت کا باغیچہ بنے؟ جب ہماری اولاد، ہمارے دوست و احباب اور دیگر متعلقین ہمیں دفن کرکے قبرستان کے اندھیرے میں چھوڑ کر آجائیں گے، تو کس طرح ہم قبر میں منکر نکیر کے سوالات کا جواب دیں گے؟

کس طرح ہم پل صراط سے بجلی کی طرح گزریں گے؟ قیامت کے دن ہمارا نامۂ اعمال کس طرح دائیں ہاتھ میں ملے گا ؟ کس طرح حوض کوثر سے نبی اکرم ﷺ کے دست مبارک سے کوثر کا پانی پینے کو ملے گا، جس کے بعد پھر کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی؟ جہنّم کے عذاب سے بچ کر کس طرح بغیر حساب و کتاب کے ہمیں جنّت الفردوس میں مقام ملے گا ؟ آخرت کی کام یابی و کام رانی ہی اصل نفع ہے جس کے لیے ہمیں ہر سال، ہر ماہ، ہر ہفتہ بلکہ ہر روز اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔

ہم نئے سال کی آمد پر عزم مصمّم کریں کہ زندگی کے جتنے ایام باقی بچے ہیں ان شاء ﷲ اپنے خالق حقیقی کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ابھی ہم بہ قید حیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری جان نکالنے کے لیے کب آجائے، معلوم نہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔

بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے۔ غربت آنے سے قبل مال سے۔ بیماری سے قبل صحت سے۔‘‘ (مستدرک الحاکم و مصنف بن ابی شیبہ) اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کسی انسان کا قدم ﷲ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ مذکورہ سوالات کا جواب دیدے، مفہوم: زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایا؟ یعنی حصول ِ مال کے اسباب حلال تھے یا حرام۔ مال کہاں خرچ کیا؟ یعنی مال سے متعلق ﷲ اور بندوں کے حقوق ادا کیے یا نہیں۔ علم پر کتنا عمل کیا ؟ (ترمذی) غرض یہ کہ ہمیں اپنی زندگی کا حساب اپنے خالق و مالک و رازق کو دینا ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔

ابھی وقت ہے۔ موت کسی بھی وقت اچانک ہمیں دبوچ لے گی، ہمیں توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہیے۔ ﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’اے مومنو! تم سب ﷲ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم کام یاب ہوجاؤ۔‘‘ (سورۃ النور) اسی طرح ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے، مفہوم: ’’کہہ دو کہ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، یعنی گناہ کررکھے ہیں، ﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو ﷲ سارے کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔

یقیناً وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘ (سورۃ الزمر) یقیناً نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہی دنیاوی زندگی‘ اخروی زندگی کی تیاری کے لیے پہلا اور آخری موقع ہے، ﷲ تعالی فرماتا ہے، مفہوم: ’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت آکھڑی ہوگی تو وہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار! مجھے واپس بھیج دیجیے تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں، اس میں جاکر نیک اعمال کروں۔

ہرگز نہیں، یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے، اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ ہے جب تک کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں۔‘‘ (سورۃ المؤمنون)

لہٰذا نماز و روزے کی پابندی کے ساتھ زکوٰۃ کے فرض ہونے پر اس کی ادائی کریں۔ قرآن کی تلاوت کا اہتمام کریں۔ صرف حلال روزی پر اکتفا کریں خواہ بہ ظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔ بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کی فکر و کوشش کریں۔ احکام الٰہی پر عمل کرنے کے ساتھ جن امور سے ﷲ تعالیٰ نے منع کیا ہے ان سے باز آئیں۔

ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے اپنے آپ کو اور بچوں کو دور رکھیں۔ حتی الامکان نبی اکرم ﷺ کی ہر سنّت کو اپنی زندگی میں داخل کرنے کی کوشش کریں اور جن سنّتوں پر عمل کرنا مشکل ہو ان کو بھی اچھی اور محبت بھری نگاہ سے دیکھیں اور عمل نہ کرنے پر ندامت اور افسوس کریں۔ اپنے معاملات کو صاف ستھرا بنائیں۔ اپنے اخلاق کو ایسا بنائیں کہ غیر مسلم حضرات ہمارے اخلاق سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوں۔

نئے سال کی مناسبت سے دنیا میں مختلف مقامات پر Happy New Year کے نام سے متعدد پروگرام کیے جاتے ہیں اور ان میں بے تحاشا رقم خرچ کی جاتی ہے، حالاں کہ اس رقم سے لوگوں کی فلاح و بہبود کے بڑے کام کیے جاسکتے ہیں، انسانی حقوق کی ٹھیکے دار بننے والی دنیا کی مختلف تنظیمیں بھی اس موقع پر چشم پوشی سے کام لیتی ہیں۔

مگر ظاہر ہے کہ ان پروگراموں کو منعقد کرنے والے نہ ہماری بات مان سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اس وقت ہمارے مخاطب ہیں۔ لیکن ہم مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ یہ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد ہے۔

پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شریعت اسلامیہ میں کوئی مخصوص عمل اس موقع پر مطلوب نہیں ہے اور قیامت تک آنے والے انس و جن کے نبی حضور اکرم ﷺ ، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، مفسرین، محدثین اور فقہاء سے نئے سال کی آمد پر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس طرح کے مواقع کے لیے ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہماری راہ نمائی فرمائی ہے، مفہوم: (رحمن کے بندے وہ ہیں) ’’جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے ہیں، یعنی جہاں ناحق اور ناجائز کام ہورہے ہوں، ﷲ تعالیٰ کے نیک بندے اُن میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔

اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ یعنی لغو و بے ہُودہ کام میں شریک نہیں ہوتے ہیں، بلکہ بُرے کام کو بُرا سمجھتے ہوئے وقار کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الفرقان)

عصر حاضر کے علمائے کرام کا بھی یہی موقف ہے کہ یہ صرف غیروں کا طریقہ ہے، لہٰذا ہمیں ان تقریبات میں شرکت سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔

اور اگر کوئی شخص Happy New Year کہہ کر ہمیں مبارک باد پیش کرے تو مختلف دعائیہ کلمات اس کے جواب میں پیش کردیں، مثال کے طور پر ﷲ تعالیٰ پوری دنیا میں امن و سکون قائم فرمائے، ﷲ تعالیٰ کم زوروں اور مظلوموں کی مدد فرمائے۔ ﷲ تعالیٰ مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے، ﷲ تعالیٰ ہم سب کی زندگی میں خوشیاں لائے۔

ﷲ تعالیٰ 2023 کو اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کا سال بنائے۔ نیز سال گزرنے پر زندگی کے محاسبہ کا پیغام بھی دیا جاسکتا ہے۔ ہم اس موقع پر آئندہ اچھے کام کرنے کے عہد کرنے کا پیغام بھی ارسال کرسکتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہم خود Happy New Year کہہ کر پہل نہ کریں بلکہ اس موقع پر حاصل شدہ پیغام پر خود داعی بن کر مختلف انداز سے مثبت جواب پیش فرمائیں۔

نئے سال کے موقع پر عموماً دنیا میں سردی کی لہر ہوتی ہے، سردی کے موسم میں دو خاص عبادتیں کرکے ہم ﷲ تعالیٰ کا قُرب حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک عبادت وہ ہے جس کا تعلق صرف اور صرف ﷲ کی ذات سے ہے اور وہ رات کے آخری حصہ میں نماز تہجد کی ادائی ہے۔ جیسا کہ سردی کے موسم کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ سردی کا موسم مؤمن کے لیے موسم بہار ہے، رات لمبی ہوتی ہے اس لیے وہ تہجد کی نماز پڑھتا ہے۔

دن چھوٹا ہونے کی وجہ سے روزہ رکھتا ہے۔ یقیناً سردی میں رات لمبی ہونے کی وجہ سے تہجد کی چند رکعت نماز پڑھنا ہمارے لیے آسان ہے۔ قرآن کریم میں فرض نماز کے بعد جس نماز کا ذکر تاکید کے ساتھ بارہا کیا گیا ہے وہ تہجد کی نماز ہی ہے جو تمام نوافل میں سب سے افضل نماز ہے۔

سردی کے موسم میں دوسرا اہم کام جو ہمیں کرنا چاہیے وہ ﷲ کے بندوں کی خدمت ہے اور اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم غربا و مساکین و یتیم و بیواؤں و ضرورت مندوں کو سردی سے بچنے کے لیے لحاف، کمبل اور گرم کپڑے تقسیم کریں۔

محسن انسانیت ﷺ کے ارشادات کتب احادیث میں موجود ہیں، مفہوم: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنّت میں اس طرح ہوں گے جیسے دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔‘‘ (بخاری) ’’مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا ﷲ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔‘‘ ( بخاری، مسلم)

’’جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائے گا، ﷲ تعالیٰ اس کو جنّت کا سبز لباس پہنائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا، اﷲ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، ﷲ تعالیٰ اس کو جنّت کی ایسی شراب پلائے گا، جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔‘‘ ( ابوداؤد، ترمذی)

غرض یہ کہ ہم سال کے اختتام پر اپنی ذات کا محاسبہ کرکے اچھے اعمال کی قبولیت کے لیے ﷲ تعالیٰ سے دعا کریں، جو فرائض کی ادائی میں کوتاہی ہوئی یا گناہ ہوئے۔

ان پر ﷲ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور نئے سال کی ابتداء پر پختہ ارادہ کریں کہ زندگی کے باقی ماندہ ایام میں اپنے خالق حقیقی کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے اور منکرات سے بچ کر ﷲ کے احکام کو اپنے نبی کریم ﷺ کے طریقہ کے مطابق بجا لائیں گے اور اپنی ذات سے ﷲ کی کسی مخلوق کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔ ان شاء ﷲ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔