توانائی بچت… ایک اہم قدم

عبد الحمید  جمعـء 6 جنوری 2023
gfhlb169@gmail.com

[email protected]

نئے عیسوی سال 2023کے آغاز پر ایک بہت ہی اچھا فیصلہ ہوا۔ 2جنوری کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں توانائی بچت پلان کی منظوری دی گئی۔ یہ پلان فوری طور پر نافذالعمل ہوگا۔ اس پلان کے روبعمل ہونے کے بعد تمام مارکیٹیں رات ساڑھے 8بجے اور شادی ہال رات دس بجے بند ہو جائیں گے۔

اس مثبت تبدیلی سے 62 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ بجلی سے چلنے والے غیر معیاری پنکھے یکم جولائی سے فیکٹریوں میں تیار نہیں ہو سکیں گے۔ اس پلان کی منظوری سے ملک بھر میں توانائی بچت کے حوالے سے اصلاحات کی جارہی ہیں۔

اس پلان میں شاید کئی کمزوریاں ہوں گی جن کو وقت کے ساتھ ساتھ دور کیا جا سکتا ہے لیکن یہ صحیح سمت میں اُٹھایا گیا ایک بہت ضروری اہم قدم ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی صوبائی پی ٹی آئی حکومتوں نے اس پلان کو مسترد کر دیا ہے۔

یہ ان کا جمہوری حق ہے لیکن یہ انتہائی افسوسناک طرزِ عمل ہے کہ ہم ملک کی بہتری کا سوچنے کے بجائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہیں۔ بہر حال امید کی جا سکتی ہے کہ بالآخر ملک کی بہتری سب سے مقدم ٹھہرے گی ۔

ہر بہتری کے لیے قربانی درکار ہوتی ہے۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ ایک طالب علم کا دل کرتا ہے کہ وہ کھیلے کودے لیکن وہ کھیل کود اور دوسرے دل پسند مشاغل سے منہ موڑ کر،اپنے آرام کو تج کر،راتوں کو جاگ کر پڑھتا ہے تاکہ اچھی تعلیم حاصل کر کے ایک شاندار مستقبل کی امید رکھے۔

ہر آدمی بہت مشکل سے کماتا ہے لیکن گھر بنانے کے لیے وہ اپنے خون پسینے سے کمائی گئی کمائی خرچ کر کے پلاٹ خریدتا ہے اور گھر بناتا ہے۔آپ وقت کی قربانی دے کر اور مشقت اُٹھا کر اپنے بدن کو مضبوط بناتے ہیں۔بستر میں پڑے پڑے مضبوط جسم بھی ناکارہ بن جاتا ہے۔

صحت کو بہتر رکھنے کے لیے لذت بھرے کھانوں کی جگہ مفید غذا کا انتخاب کرتے ہیں۔ٹی وی پر آپ کا پسندیدہ پروگرام لگا ہوا ہے لیکن اس کو دیکھنے کی قربانی دے کر وہی وقت اپنے کاروبار کو دیتے ہیں تو ایسی ہی چھوٹی چھوٹی قربانیوں سے کاروبار پھلتا پھولتا ہے۔

پاکستان کو اس وقت بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے البتہ ہر گزرتے دن کے ساتھ توانائی کا بحران شدید تر ہوتا جاتا ہے۔توانائی اور خاص کر سستی توانائی کی موجودگی مضبوط معیشت کے لیے لازم و ملزوم ہے۔

توانائی کے بحران کی وجہ سے شہروں کے ساتھ دیہاتوں میں چودہ سے اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔جب تک کوئی سہولت میسر نہ ہو، انسان اس کے بغیر اطمینان سے زندگی گزار لیتا ہے لیکن جب ایک دفعہ کوئی بھی سہولت میسر آجائے تو پھر وہ زندگی کا حصہ بن جاتی ہے اور اس کی غیر موجودگی بہت ستاتی ہے۔

صنعت و حرفت کے لیے سستی توانائی کا مہیا ہونا ضروری ہے۔ توانائی ہو گی تو کارخانے چلیں گے، پروڈکشن ہو گی، اندرونی اور بیرونی آرڈرز تکمیل پا سکیں گے۔ توانائی سستی ہو گی تو پاکستان کا مال بیرونی منڈیوں میں مقابلہ کر کے قیمتی زرِ مبادلہ کمائے گا۔ہم پاکستانی بہت سست،کاہل اور لاپروا ہو چکے ہیں۔

ظہر سے پہلے جسم توانائی سے بھر پور ہوتا ہے۔ ہم یہ وقت کاروبار اور کام کاج میں لگانے کے بجائے ضایع کر دیتے ہیں۔پاکستان کے بڑے اور میگا شہروں میں کاروبار 11بجے کے بعد شروع ہوتا ہے بلکہ زیادہ تر لوگ ظہر کے قریب اپنا کام شروع کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سستی،کاہلی اور نکما پن ورثے میں ملا ہے اور ہم آگے ہی آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔

بہادر شاہ ظفر کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ بادشاہ کی آنکھ کھلتے کھلتے دوپہر ہو جاتی تھی اور موصوف کئی قسم کا ،کئی قسطوں میں ناشتہ کرتے کرتے سہ پہر ہو جاتی تھی۔مغل بادشاہ اور اس کے درباریوں،منصب داروں اور نوابین کا مقابلہ انگریزوں سے تھا جو صبح سات بجے اپنے فرائضِ منصبی انجام دینا شروع کر دیتے تھے۔گیارہ بجے کے قریب تھوڑی دیر کے لیے ٹی بریک کی جاتی تھی اور پھر کام میں جُت جاتے تھے۔

بارہ بجے آدھے گھنٹے کا لنچ ٹائم تھا، پھر ڈھائی تین بجے تک بھرپور کام کرتے اور آرام کے لیے چلے جاتے تھے، پھر بعد سہ پہر تازہ دم ہو کر کھیل کے میدان میں اتر جاتے تھے، مغرب کے بعد ڈنر کرلیا جاتا تھااور آٹھ بجے سونے کے لیے بیڈ روم میں چلے تھے ۔

ہماری تینوں افواج کی بنیاد انگریز نے رکھی تھی اس لیے افواجِ پاکستان کے سپاہیوں سے لے کر سروسز چیفس تک سبھی صبح ساڑھے سات بجے اپنے کام پر موجود ہوتے ہیں۔یونٹوں میں تو کاروبارِ زندگی اس سے بھی پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ ساڑھے سات بجے پریڈ ختم کر کے ہر کوئی اپنے کام میں مشغول ہو جاتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ افواجِ پاکستان کو چھوڑ کر باقی سارا پاکستان صبح کے خوبصورت لمحات میں سُستی اور کاہلی کا شکار ہوتا ہے۔دن کے وہ اوقات جن میں سورج کی روشنی اپنے جوبن پر ہوتی ہے ہم اس روشنی کا استعمال کرنے کے بجائے ضایع کر دیتے ہیں، ہمارا دن خاصی دیر سے شروع ہوتا ہے اور سورج غروب ہونے کے بعد مصنوعی روشنیوں میں ہم کاروبار کرنا پسند کرتے ہیں جس سے بہت توانائی ضایع ہوتی ہے۔

اپنی ملازمت کے دوران متعدد بار پاکستان سے باہر سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔یورپ میں جو سردی پڑتی ہے اس کا ہم پاکستان میں تصور بھی نہیں کر سکتے۔

اس شدید سردی کے عالم میں بھی تمام کاروباری مراکز،تمام مارکیٹیں صبح سات بجے کھل جاتی ہیں اور شاید ہی کوئی دکان شام چھ بجے کے بعد کھلی نظر آئے۔گرمیوں میں تو عجیب منظر ہوتا ہے۔یورپ کے اکثر مقامات پر سورج دس بجے شام کے ارد گرد غروب ہوتا ہے لیکن تمام دکانیں شام پانچ بجے سے سات بجے کے درمیان مکمل طور پر بند ہو چکی ہوتی ہیں،سارے یورپ میں ناشتہ صبح سات بجے تک ،دوپہر کا کھانا بارہ بجے اور شام کا ڈنر سات بجے تک ہو چکا ہوتا ہے۔

ہم ویسے تو ماڈرن کہلانے اور بننے کے لیے یورپ اور امریکا کی نقالی فرضِ عین سمجھتے ہیں لیکن دن کا آغاز جلدی کرنے اور رات کو کاروبارِ زندگی جلدی بند کرتے ہوئے ہمیں وحشت ہوتی ہے بلکہ دیر سے اُٹھنا اور رات دیر گئے تک جاگنا ماڈرن ہونے کی نشانی بنا لی ہے۔

ہم اپنی سستی اور کاہلی کے سبب ہمیشہ حکومت پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ رات دیر تک مارکیٹیں،دکانیں،شادی ہالز اور ریسٹورنٹس کھلے رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ہم اپنی سستی کی وجہ سے توانائی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔

بائیس کروڑ کا ملک اگر شام سے پہلے کاروبار زندگی ختم کر کے توانائی بچائے تو خیال کریں کہ کتنی توانائی بچے گی اور اس بچی ہوئی توانائی کو کہاں کہاں بہتر استعمال میں لایا جا سکے گا۔اگر اسی توانائی کو صنعت و حرفت کی طرف منتقل کیا جائے تو ہمارے کارخانے اپنا ہر آرڈر وقت پر مکمل کر پائیں گے۔

ہماری پروڈکشن آسمان کو چھوئے گی ،ہماری دکانیں،ہمارے اسکول،ہمارے دفاتر سورج کی روشنی استعمال کرتے ہوئے بہت قیمتی توانائی کو صنعت و حرفت کی طرف منتقل کرنے دیں توملک کی کایا پلٹ جائے گی۔

اس کے لیے حکومت کو اچھے فیصلے ترجیحی بنیادوں پر کرنے ہوں گے،چاہے اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔یہ صحیح ہے کہ سیاست دانوں کے لیے غیر پاپولر فیصلے کرنا بہت مشکل ہے لیکن یہ ملک اب ہر ایک سے قربانی مانگتا ہے۔

سیاست دانوں کو اچھے،ضروری اہم اور مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ سیکیورٹی اداروں کو اچھے حکومتی فیصلوں کا بھرپور ساتھ دینا ہو گا،عدلیہ کو بھی اپنی ذمہ وارہ نبھانی ہو گی اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے عوام کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے قربانی دینی ہو گی۔اچھے فیصلوں کو اپنانا ہو گا۔

مشکلات بہت ہیں اور پہاڑوں کی طرح ہیں لیکن کوئی بھی مشکل ایسی نہیں ہوتی جسے سر نہ کیا جا سکے۔آئیئے ہم سب ذات اور سیاست سے اوپر اُٹھ کر ایک جاندارقوم ہونے کا ثبوت دیں۔اِن شاء اﷲ کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔