ہم اور ہماری اقدار

شکیل فاروقی  جمعـء 6 جنوری 2023
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

قارئین کو نیا سال مبارک ہو۔ حسبِ معمول اِس مرتبہ بھی وہی ہوا جو ہر سال ہوا کرتا ہے۔ شب کے بارہ بجے جوں ہی گھڑی کی بڑی سُوئی نے اکیس کا ہندسہ کراس کیا اور نئے سال کا آغاز ہوا تو وہی طوفانِ بدتمیزی برپا ہوگیا جو ہمیشہ ہوتا ہے۔

فائرنگ، پٹاخوں کی آوازوں کی گونج سے در و دیوار لرز اٹھے اور یوں لگتا تھا جیسے قیامت صغرا برپا ہوگئی ہو۔ چھوٹے بڑے سبھی اِس جنون کی کیفیت میں ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش میں مصروف تھے۔

یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا۔ عجب گھر پھونک تماشہ تھا اِن حالات میں جبکہ چپاتی کی قیمت پندرہ روپے تک پہنچ گئی ہے اور غریب غربا کو روٹیوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور سیلاب زدگان کے تن پر کپڑے تک موجود نہیں۔ پاکستانی قوم کا یہ حال نہایت افسوسناک تھا۔

اگر یہی خطیر رقم سیلاب زدگان کی امداد کے لیے استعمال کی جاتی تو کتنا اچھا ہوتا مگر اِس کا کیا کیا جائے کہ ایک بھیڑ چال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہوگا۔ صرف پاکستانی قوم ہی کیا کم و بیش ہر مسلم ملک کا ایک جیسا حال ہے۔

ایک مرتبہ اتفاق سے ہم اِس موقع پر خلیج کی ریاست دبئی میں موجود تھے تو ہم نے وہاں کی بلکہ دنیا کی سب سے بلند و بالا عمارت برج خلیفہ پر جو منظر دیکھا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ دنیا جہان کے لوگ اِس منظر کو دیکھنے کے لیے وہاں پہنچے ہوئے تھے۔تمام ہوٹل فُل تھے اور تِل دھرنے کی بھی گنجائش موجود نہیں تھی۔ بقولِ غالبؔ:

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے

بات کڑوی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم مغرب کے نقال بنے ہوئے ہیں اور اپنی اوقات بھول چکے ہیں۔ ہم اوروں کی دیکھا دیکھی مغرب زدگی کا شکار ہیں۔ ہم ماں کو اماں اور باپ کو ابا کہنے سے کَتراتے ہیں اور امی کو مَوم اور ابو کو ڈیڈ کہتے ہوئے اِتراتے ہیں جبکہ ڈیڈ کے لغوی معنی مُردہ کے ہیں۔ ہم نے زندہ باپ کو جیتے جی ہی مُردہ سمجھ لیا ہے۔

ہمیں اپنی قومی زبان اردو کو چھوڑ کر گِٹ پِٹ کرنے میں زیادہ فخر محسوس ہوتا ہے۔ ہم اپنی روایت اور ثقافت سے بغاوت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ ہم اپنے طور طریقوں میں مغرب کے غلام بنے ہوئے ہیں۔

ہماری روزمرہ کی زبان میں اپنی مادری یا قومی زبان میں اپنے الفاظ کے بجائے انگلش کے الفاظ زیادہ استعمال ہوتے ہیں اور ہماری قومی زبان اُردِش ہوچکی ہے۔

سچ پوچھئے تو ہماری حالت یہ ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔اکبر الہ ٰ آبادی نے ہماری حالت کا نقشہ خوب کھینچا ہے۔ اُن کا یہ شعر حسبِ حال ہے:

ہوئے اِس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا

کَٹی عمر ہوٹلوں میں مَرے اسپتال جاکر

چہرے اور سر کا پردہ جو پہلے ہماری خواتین کا طُرہ امتیاز ہوا کرتی تھی کب کا دم توڑ چکی ہے۔ پہلے برقعہ غائب ہوا اور پھر اِس کے بعد رفتہ رفتہ نوبت دوپٹہ تک آگئی جو سَر سے سِرک کر صرف گردن تک محدود ہوگیا۔ اُس کے بعد دوپٹہ سِرے سے ہی غائب ہوگیا جیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔ بقولِ اکبر الٰہ آبادی:

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گَڑ گیا

پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مَردوں کے پڑ گیا

یہ سب کچھ اُس ملک میں ہورہا ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اور جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے۔ مادر پِدر آزادی کے اِس ماحول میں اگر کوئی ہمارے اِس نقطہ ِ نظر سے اتفاق نہ کرے تو یہ باعثِ حیرت نہ ہوگا کیونکہ اختلافِ رائے ہر انسان کا جمہوری اور بنیادی حق ہے۔

بات کہاں سے نکلی تھی اور کہاں تک پہنچ گئی، اِسی لیے تو کسی شاعر نے کہا ہے:

بات نکلی تو بہت دور تلک جائے گی

کالم کا آغاز سالِ نو کے تذکرہ سے ہوا تھا،  جسے میں سمجھتا ہوں یہ مسلمانوں کا سال نہیں ہے۔ ملت ِ اسلامیہ کا سال تو سن ہجری ہے جو یکم محرم سے شروع ہوتا ہے لیکن اِس کا کیا کیجیے کہ اپنی رَوش کو چھوڑ کر اغیار کی راہ اختیار کرلی ہے اور اندھی تقلید میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ علامہ اقبال نے اِس نازک بات کو کس عمدگی کے ساتھ اِس شعر کے سانچہ میں ڈھالا ہے:

یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ہم نے اپنی اقدار کو چھوڑ کر غیروں کی اقدار کو اپنا لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم عروج کے بجائے پستی اور زوال کا شکار ہیں۔ہم جب تک حکمِ ربی اور ہدایات رسول کریمﷺ کے پابند رہے تب تک پوری دنیا پر ہمارا غلبہ رہا اور جونہی ہم نے اپنا راستہ تبدیل کیا ہمارا کمال زوال بنتا چلا گیا اور ہم ذلیل و خوار ہونے لگے۔

آپ ذرا دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ہم جہاں بھی ہیں ذلت و خواری ہمارا مقدر بنی ہوئی ہے۔ ہم نے اگر صدقِ دل سے محسن ِ انسانیت کی سچے دل سے پیروی کی ہوتی تو ہمارا یہ حشر نہ ہوتا کیونکہ باری تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔