بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟

رئیس فاطمہ  جمعـء 6 جنوری 2023
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کیا اس ملک سے کسی کو محبت ہے؟ تو میں کہوں گی، ہرگز نہیں۔ جن سر پھروں کو محبت ہے وہ اس ملک کی معاشی، سماجی اور اخلاقی صورت حال پر سر پکڑ کر روتے ہیں اور کچھ کر نہیں سکتے۔ ملک گیس اور بجلی کے بحران کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔

چھوٹے بڑے بازاروں میں صبح کے وقت یہ نظارہ عام ہے کہ دکانوں کی صفائی کرنے کے بعد کچرا سڑکوں پہ پھینک دیا جاتا ہے۔ گویا سڑک ہماری نہیں حکومت کی ہے۔

البتہ دکان ہماری ہے اور حکومت کی بات کیجیے تو کسی بازار میں کسی گلی میں کوئی ڈسٹ بن یا کچرا کنڈی نہیں، جہاں کچرا ڈالا جا سکے۔ ملک بجلی اور گیس کے شدید بحران کا شکار ہے۔

متعلقہ محکمے کے وزیر کا کہنا ہے کہ اگلے سال گیس ختم ہو جائے گی، یعنی ہم دوبارہ کوئلے اور لکڑی پر آ جائیں گے، گیس کا سلنڈر یا مٹی کے تیل کا چولہا رکھنا ایک عیاشی ہوگی۔

یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وطن کی کسی کو پرواہ نہیں، حب الوطنی کا تو نام بھی نہ لیجیے، بیرون ملک لوگ ڈالر ہنڈی کے ذریعے بھیجتے ہیں کہ بینکوں کے مقابلے میں دس روپے زیادہ ملتے ہیں۔

اب حکومت نے پابندی لگائی ہے کہ ہنڈی کے ذریعے پیسے نہیں بھیجے جا سکتے، لیکن کیا اس میں کامیابی ہوگی؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ ہنڈی کا کاروبار بہت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی بیرون ملک کوئی ساکھ ہے نہ ملک کے اندر۔ بیرون ملک ہماری پہچان تھری پیس سوٹ اور کشکول ہے۔ صورت حال یوں ہی رہی تو وہ نوبت آ جائے گی کہ ’’ دے جا خدا کے نام پر۔‘‘

بجلی اور گیس کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے ، اگر حکومت سنجیدہ ہو ، لیکن یہاں حکومتی احکامات کو ہوا میں اچھال دیا جاتا ہے۔ حکومت کو اپنے تازہ ترین اعلان کے عین مطابق عملدرآمد کرواتے ہوئے ساڑھے آٹھ بجے مکمل بازار بند ہونے چاہئیں۔

اس کام کے لیے علیحدہ ٹیم بنائی جائے جو مارکیٹیں بند کرا دے۔ اس اعلان پر تاجر برادری ہڑتال کی دھمکی دے گی، احتجاج کرے گی، یہی ان کا حربہ ہے ، نجی چینل والے تاجروں کے پاس پہنچ جائیں گے جو یہ ثابت کریں گے کہ اس اعلان سے ان کا کاروبار تباہ ہو رہا ہے، لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈٹ جائے، جو احکام نہ مانے انھیں ایک بار تنبیہ کرے اور دوسرے دن ان کی دکان پر تالا ڈال دے۔

ہماری قوم صرف ڈنڈے کی زبان سمجھتی ہے، اسی لیے مارشل لا میں لوگ تیر کی طرح سیدھے ہو جاتے ہیں۔ تاجر برادری سب سے پہلے یہ کہے گی کہ ’’گاہک شام کو آتا ہے‘‘ لیکن انھیں یہ باور کرانا چاہیے کہ کچھ ملک کا بھی سوچیں۔ گاہک اس لیے دوپہر میں آتا ہے کہ مارکیٹیں دوپہر کے بعد کھلتی ہیں۔

بارہ بجے تک دکانوں کے شٹر گرے رہتے ہیں، اگر تاجر صبح 9 بجے دکانیں کھول لیں گے تو لوگ بھی جلدی خریداری کے لیے آئیں گے، گاہک بے چارہ کیا کرے جب مارکیٹیں ہی دو بجے دوپہر تک کھلتی ہیں۔ اب یہ تاجروں کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ صبح کتنے بجے دکانیں کھولیں گے۔ البتہ رات ساڑھے آٹھ بجے بند کرنا لازمی ہوگا۔

انڈیا میں صبح دس بجے سے شام سات بجے تک کاروبار ہوتا ہے۔ اس کے بعد پولیس آ جاتی ہے اور اگر کوئی بھی دکان کھلی نظر آئے تو فوراً جرمانہ کر دیا جاتا ہے۔ 2010 میں جرمانہ دو سو روپے تھا، جو ہمارے پانچ سو روپے کے برابر تھا۔

ہم جب انڈیا دوسری بار گئے تو چاندنی چوک پر کچھ ساڑھیاں پسند آئیں، وقت تھا پونے سات کا، آدھا شٹر گر چکا تھا، ہم نے کچھ اور ساڑھیاں دکھانے کو کہا تو اس نے جھٹ سے پانچ چھ ساڑھیاں ہمیں تھما دیں، شٹر بند کیا اور ہمیں وہاں سے دور کھڑا کر دیا اور بولا ’’اگر میں سات بجے کے بعد دکان بند کرتا تو جرمانہ ہو جاتا ، آپ یہ ساڑھیاں دیکھ لیں، پسند آئیں تو لے لیں ورنہ صبح آ جائیے دکان دس بجے کھل جائے گی۔‘‘

ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہاں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے، ہر جگہ ایک مافیا ہے جس نے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ وزارتیں تقسیم کرتے وقت اہلیت نہیں دیکھی جاتی بلکہ تعلقات اور ’’بہت کچھ‘‘ دیکھا جاتا ہے۔ تیز دوڑنے والے گھوڑوں کو حکومت کی باگیں تھما دی جاتی ہیں اور یہ تیز دوڑنے والے گھوڑے ان ’’مافیاز‘‘ سے ساز باز کر لیتے ہیں۔

اسی لیے حکومت کا کوئی بھی اقدام قابل عمل نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں سورج کی روشنی کی کوئی کمی نہیں۔ دیر تک سورج چمکتا رہتا ہے۔

کاروبار دن کی روشنی میں کیا جائے، اس کے علاوہ تاجر برادری اور دیگر چھوٹے کاروباری لوگوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ بہت زیادہ لائٹ استعمال نہ کریں، ہر دکان میں جہاں ضرورت ہو وہاں دو انرجی سیور کی اجازت ہو، جو پابندی نہ کرے اس پر جرمانہ۔ اس ملک میں چوری کی بجلی اس دھڑلے سے استعمال ہو رہی ہے کہ کچھ حد نہیں، مارکیٹوں والے کنڈے کی بجلی استعمال کرتے ہیں۔

کے الیکٹرک کے لوگ کنڈا بھی لگاتے ہیں اور میٹر بھی سلو کر دیتے ہیں۔ ایک گھر میں اے سی بھی ہے، فریج بھی ہے، پنکھے بھی ہیں، واشنگ مشین بھی ہے اور بل آتا ہے چھ سو روپے ۔ بھلا کیسے؟ جناب! وہ ایسے کہ بجلی کمپنی کا آدمی ہر ماہ بھتہ لے جاتا ہے۔ بڑے بڑے ٹیوب ویل بڑے بڑے گھروں میں کمپنیوں میں ہر جگہ یہی کہانی ہے۔

ایک کمپنی سے بجلی والوں نے 75 ہزار مانگے۔ انھوں نے کہا کہ یہ تو بہت زیادہ ہیں تو اس نے میرے سامنے فون پر کہا کہ ’’ آپ کا بل اب تین چار ہزار سے زیادہ نہیں آئے گا، اگر میں نے 75 ہزار لیے ہیں تو آپ کا میٹر بالکل ہلکا کر دیا ہے ورنہ آپ کا بل پندرہ ہزار سے کم کا نہ آتا۔ میں نے کہا نا کہ اس ملک سے کسی کو محبت نہیں ہے۔

سب اپنی جیبیں بھرنا جانتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت ایم این اے، ایم پی اے اور بیورو کریسی کے دباؤ میں رہتی ہے۔ اس لیے وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتی جس سے عوام کو فائدہ ہو۔ ملک میں ڈالر اب ناپید ہونے والا ہے، اناج سے لے کر ڈالر تک افغانستان جا رہا ہے، پی پی اور (ن) لیگ کی باریوں سے عوام جھنجھلا گئے تھے۔

مقتدرہ جب عمران خان کو لائی تو لوگوں نے خیر مقدم کیا لیکن پتا چلا کہ یہ بھی دیوانے کا خواب تھا، تحریک انصاف نے تو اپنے نام کے ساتھ بھی انصاف نہیں کیا۔ انھیں شادیاں کرنے اور طلاقیں دینے کا شوق تھا۔

وہ ادھر مصروف ہوئے ادھر وزیروں کو کھل کر کھیلنے کا موقعہ ملا، کوئی گندم اسمگل کر رہا ہے، کوئی چینی کی ذخیرہ اندوزی کر رہا ہے اور اگر آپ نے کھل کر ان کے کارنامے بیان کرنے شروع کر دیے تو دن بھر آپ کا فون بجتا رہے گا، گالیاں بھی سننی پڑیں گی اور بکواس بھی۔

ایک اور بات کی طرف حکومت کو توجہ دینی چاہیے وہ یہ کہ ہر جگہ تجاوزات کی بھرمار ہے۔ پارک ختم کرکے بلڈنگیں کھڑی کردی گئی ہیں، سبزہ ختم ہو رہا ہے، درخت کاٹے جا رہے ہیں، ماحول میں آلودگی بڑھ رہی ہے۔

دوسروں کے پلاٹوں پر قبضہ کرکے فلیٹ بنا لیے جاتے ہیں اور راتوں رات لنڈا بازار سے پرانے کپڑے لا کر گیلریوں میں لٹکا دیے جاتے ہیں، کچھ لوگ کرائے پر بھی مل جاتے ہیں جو ان گھروں میں بسا دیے جاتے ہیں اور یہ سب متعلقہ حکام کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔

ہے کوئی مائی کا لال جو ان تجاوزات کا کاروبار کرنے والوں کے کان پکڑ سکے۔ پراپرٹی مافیا کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں، یہ کسی کا نہ تو حکم مانتے ہیں نہ ان کے کوئی نکیل ڈال سکتا ہے۔ بجلی ہے نہیں اور بیس بیس منزلہ بلڈنگیں بن رہی ہیں۔ شہر ہر طرف سے پھیلتے جا رہے ہیں، کراچی حیدرآباد سے ملنے جا رہا ہے، جس طرف نکلو فلیٹوں کا جنگل آباد ہے۔

ملک کے ہر شہر، قصبے اور دیہاتوں سے لوگ کراچی آ رہے ہیں، جگہ کم پڑ رہی ہے، کرائے بڑھ رہے ہیں لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا ہے۔ شہر بے ہنگم طریقے سے بڑھ رہے ہیں۔

ایسی صورت حال میں کیا یہ ضروری نہیں کہ بجلی اور گیس کے بحران پر قابو پانے کے لیے کچھ مخلص لوگوں کو لے کر پلاننگ کی جائے۔ سب سے پہلے تو گیس کو صرف گھریلو صارفین تک محدود کردیا جائے، انٹرسٹی بسوں اور ایک شہر سے دوسرے شہر جانے والی بسوں کے لیے گیس کا استعمال ممنوع قرار دیا جائے۔

رات دس بجے کے بعد تمام شادی ہالوں کو بند کر دیا جائے، شادی ہالوں کے باہر غیر ضروری لائٹنگ کو ختم کروایا جائے۔ تمام دکانیں رات آٹھ بجے بند ہونی چاہئیں صرف ہوٹل اور میڈیکل اسٹورز کو رات گیارہ بجے تک کھولنے کی اجازت ہونی چاہیے، لیکن ان اقدامات پر عمل کون کروائے گا؟ یعنی بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔