الجھن

عثمان دموہی  جمعـء 6 جنوری 2023
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

اس میں شک نہیں کہ پاکستان اب دہشت گردی کی گرفت سے باہر آگیا ہے جب ہی تو ملک میں اب پہلے جیسی ہیجانی کیفیت نہیں ہے۔

اب ڈر و خوف کا ماحول ختم ہو چکا ہے ملک میں کاروبار زندگی معمول کے مطابق چل رہا ہے اب تو سترہ سال کی رکاوٹ کے بعد بیرونی کرکٹ ٹیمیں بھی پاکستان میں میچ کھیل رہی ہیں یہ سب تو ہے مگر ٹی ٹی پی کئی سال کے وقفے کے بعد اب پھر منظر عام پر آگئی ہے۔

اس کے دہشت گرد خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کرچکے ہیں جنھیں ختم کرنے کے لیے ہمارے فوجی جوان سینہ سپر ہوگئے ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ دہشت گرد ہمارے ہی شہری ہیں جو افغان طالبان کی سپورٹ کے لیے میدان میں آئے تھے ان کا اصل مقصد امریکی اور نیٹو افواج کا مقابلہ کرنا تھا جو افغانستان پر قبضہ جما چکی تھیں اور وہاں انھوں نے غیر قانونی طور پر اپنی مرضی کی حکومت قائم کردی تھی۔

جو افغانوں کے مفادات کے خلاف اور امریکی مفادات کے لیے کام کر رہی تھی۔ پاکستانی طالبان پاکستان کے خلاف بھی برسر پیکار ہوگئے تھے لیکن یہ ان کی غلطی تھی کیونکہ ان کا اصل ہدف افغانستان پر غیر ملکی قابضین ہی ہونا چاہیے تھے چونکہ پاکستان اپنی خوشی سے امریکا کے لیے کام نہیں کر رہا تھا بلکہ اسے باقاعدہ دھمکی دی گئی تھی کہ وہ امریکی مفاد میں کام کرے ورنہ اسے پتھر کے دور میں بھیج دیا جائے گا۔

پھر بھی پاکستانی حکومت درپردہ طالبان کے حق میں تھی کیونکہ ان کے ملک پر غیروں نے قبضہ کرلیا تھا اور وہ اپنے ملک کو غیروں سے آزاد کرانے کے لیے امریکی و نیٹو افواج سے برسر پیکار تھے۔

افغانستان میں امریکی و نیٹو فوجوں کی واپسی اور افغان طالبان کے اپنے ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اب حکومت پاکستان نے افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کو عام شہریوں کی طرح پاکستان واپس آنے کے لیے مدد طلب کی تھی۔

افغان طالبان انھیں اس کے لیے راضی نہ کر پائے۔ پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان طالبان دراصل ٹی ٹی پی کے احسانوں تلے دبے ہوئے ہیں کیونکہ انھوں نے بھی غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکالنے میں ان کی مدد کی تھی۔

چنانچہ پاکستانی درخواست پر طالبان حکومت نے بھرپور توجہ نہیں دی لیکن انھیں سوچنا چاہیے کہ حکومت پاکستان نے انھیں اپنے وطن کا اقتدار دلانے میں نہ صرف امریکی حکومت کی ناراضگی مول لی بلکہ ٹی ٹی پی کے ہاتھوں پورا ملک دہشت گردی کا نشانہ بنا جس سے ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں اور کئی ارب ڈالر کا مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ عمران حکومت نے کابل پر طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی دعوت دی۔

یہ دور کافی عرصے تک چلتا رہا مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ ٹی ٹی پی امن پر مائل ہونے کے بجائے اپنی شرائط پر اڑی رہی۔ اس طویل مذاکراتی دور میں ٹی ٹی پی خود کو منظم کرتی رہی اور پاکستان میں اس نے پھر سے نئی پناہ گاہیں بنالیں۔

عمران حکومت شاید اس سے غافل رہی جس کا نتیجہ اب موجودہ حکومت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی سے عمران خان کے تعلقات ہمیشہ سے دوستانہ رہے ہیں وہ جب حکومت میں نہیں تھے تب بھی وہ ان کی ہمدردی میں بیان دیتے تھے اور پچھلی حکومتوں کو ان سے مذاکرات کرنے اور درگزر کرنے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔

ٹی ٹی پی والوں کے دلوں میں بھی شاید ان کے لیے نرم گوشہ موجود تھا جب ہی جب تک وہ حکومت کرتے رہے ٹی ٹی پی نے ملک میں کوئی بھی دہشت گردانہ حملہ نہیں کیا لیکن اب وہ تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

اب تو انھوں نے بلوچستان کے بھارت کی شے پر دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے والوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ موجودہ پاکستانی حکومت افغان حکومت سے کئی بار ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکنے کی درخواست کرچکی ہے مگر اس کا کوئی بھی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ طالبان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ٹی ٹی پی نے نیٹو افواج سے مقابلہ کرنے میں ان کی بھرپور مدد کی ہے اور کئی افغان علاقوں میں انھوں نے نیٹو افواج سے مقابلہ کیا ہے۔

اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ افغان طالبان بس ایک حد تک ہی ٹی ٹی پی کو پاکستان میں دہشت گردی سے باز آنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں مگر وہ مکمل طور پر ان سے رشتہ نہیں توڑ سکتے اس لیے کہ وہ ان کے احسان مند ہیں اور پھر چونکہ ان کی حکومت ابھی مستحکم نہیں ہوئی ہے اسے بیرونی خطرات کے علاوہ اندرونی طور پر بھی بعض گروپس کی جانب سے خطرات موجود ہیں چنانچہ انھیں مستقبل میں بھی ان کی مدد درکار ہوسکتی ہے۔

اب ایسے حالات میں پاکستانی حکومت کیا کرے اور کس طرح ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب وہ پہلے پاکستان میں بھرپور دہشت گردی کر رہے تھے تو انھیں امریکا نے اپنے ڈرون حملوں کے ذریعے کسی حد تک کنٹرول کر رکھا تھا امریکی ڈرون حملوں میں ان کے کئی بڑے رہنما ہلاک ہوگئے تھے۔

چنانچہ وہ امریکا سے ضرور خوف زدہ تھے مگر پاکستان میں اپنی کارروائیاں کھل کر مقابلہ کرتے تھے۔ اب اس وقت امریکا نے پھر پاکستان کو ٹی ٹی پی کے حملوں کو روکنے کے لیے مدد کی پیش کش کی ہے لیکن اب حالات بہت بدل چکے ہیں افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے، اگر پاکستان نے ٹی ٹی پی کے خلاف امریکی مدد حاصل کی تو افغان حکومت پاکستان سے تعلقات توڑ سکتی ہے اور یوں پاکستان نے افغان طالبان کی جو درپردہ تن تنہا مدد کی اور جس سے انھیں کابل میں اقتدار حاصل ہوا تھا وہ پاکستان کی تمام نیکی بدی میں بدل سکتی ہے۔

پاکستان افغان طالبان کے اندر پاکستان مخالف گروپس سے بھی واقف ہے وہی ہیں جو ٹی ٹی پی کی ہمت افزائی کر رہے ہیں، ان کا بھارت سے پہلے بھی تعلق رہا ہے اور اگر پاکستان سے طالبان کے تعلقات میں کشیدگی آتی ہے تو یہ گروپس طالبان کو بھارت کے قریب بھی کرسکتے ہیں۔

بھارت تو چاہتا ہی یہ ہے کہ وہ کسی طرح طالبان سے رشتہ قائم کر لے تاکہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے پھر سے راستہ ہموار کر سکے۔

اب تو لگتا ہے افغان حکومت میں بھی بھارت کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوا ہے اور ایسا ممکن بھی ہے کیونکہ حامد کرزئی جیسے بھارت نواز وہاں اب بھی موجود ہیں۔ خاص طور پر حامد کرزئی کے طالبان سے خوش گوار تعلقات قائم ہیں۔

بہرحال اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کے سلسلے میں پاکستان کی بات نہیں مانتے ہیں اور ان کا مسئلہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہی قرار دیتے رہتے ہیں تو پھر پاکستان کے ساتھ ساتھ ان کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی کیونکہ انھیں ابھی تک کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے اور شاید آگے بھی انھیں کوئی تسلیم نہ کرے کیونکہ وہ اب بھی پہلے والی پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں جس سے ان کی انتہا پسندی اور عوام دشمنی کا برملا اظہار ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔