تہذیب کے شاعر ‘ نصیر تُرابی

صدام ساگر  جمعـء 6 جنوری 2023

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا اور آخر اس کو مٹی ہی ہونا ہے ، جب کہ انسان اپنی خواہشوں کے لیے اپنی آخرت کو بھول جاتا ہے۔

بقول غالب کے ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘ حالانکہ نصیر تُرابی کے ہاں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ اُنہیں اپنی بے پناہ خواہشوں باوجود ایسے جہاں تک رسائی حاصل تھی جس پر وہ بے گماں سے دکھائی دیتے ہیں۔

عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیر

وہاں بھی آگئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی

نصیر تُرابی 15 جون1945 کو ریاست حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے ، وہ نامور شیعہ ذاکر اور خطیب علامہ رشید تُرابی کے فرزندِ ارجمند تھے۔

ان کے والدِ گرامی نا صرف عالمِ دین تھے بلکہ بہت عمدہ شاعر بھی تھے اُن کا ’’ شاخِ مرجان‘‘ کے نام سے ایک شعری مجموعہ بھی ہے۔

نصیر تُرابی بھی نہ صرف عمدہ شاعر تھے بلکہ نہایت نفیس انسان بھی تھے، جاذب نظر بھی تھے اور محبت پرور بھی۔ خوش لباسی اُن کا وتیرہ تھی لیکن خوش گفتاری بھی قابلِ ستائش تھی۔

زبان و بیان پر اُنہیں خاصہ عبور حاصل تھا۔ جس کی بنیادی وجہ اُن کے والدِ گرامی کی علمی ، ادبی شخصیت اور گھریلو تربیت تھی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان کے شہر کراچی میں سکونت پذیر ہوئے اور ابتدائی تعلیم اسکول ، کالج ، یونیورسٹی سب کراچی سے حاصل کی ، وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ ’’میں کراچی میں ہی پروان چڑھا ہوں۔‘‘انھوں نے اپنے والدِ گرامی کے حکم پر اُستاد زیدی بخاری کی شاگردی اختیار کی اور ان سے تحت للفظ سیکھنے لگے ، جب کہ 1962 سے شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا۔

اُس زمانے میں جدیدیت کی تحریک اپنے زورں پر تھی ۔1968 میں انھوں نے جامعہ کراچی سے تعلقات عامہ میں ایم اے کیا۔ نصیر تُرابی فارسی زبان پر بھی قدرت حاصل رکھتے تھے ، اس حوالے سے ان کے اُستاد آغا سروش تھے۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں رقم طراز ہے کہ’’میرے لیے اعزاز کی بات یہ ہے کہ مجھے میرے سینئرز نے بڑا پرموٹ کیا ، جن میں سراج الظفر ، ناصر کاظمی اور مصطفی زیدی شامل ہیں۔‘‘نصیر تُرابی تہذیب کے شاعر تھے۔

میری نظر میں تہذیب کا شاعر اُس کو کہا جاتا ہے ، جس میں لفظوں کے چناؤ کا سلیقہ ہو، احترام آدمیت اس کا خاصہ ہو، معاشرتی اقدار کی پاسداری کا خیال رکھتا ہو، تہذیب و تمدن کے آداب سے واقف ہو اور یہ تمام تر خوبیاں نصیر تُرابی کی ذات اور شاعری میں بدرجہ اتم موجود تھی۔

ان کا اولین مجموعہ ’’عکس فریادی‘‘ 2000  میں شائع ہُوا ، جس میں سے ان کی ایک غزل کو پی ٹی وی کے مقبول ڈرامہ’’ ہم سفر‘‘ کے لیے جب گایا گیا تو اس پر انھیں بہت زیادہ پذیرائی ملی۔

اس غزل کو معروف گلوکارہ قرۃ العین نے اپنی خوبصورت آواز میں گایا ، جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے یہ غزل سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں کہی تھی ، جب کہ اس مضمون کے دوران قیصر وجدی بتاتے ہیں کہ ’’ کراچی میں مسئلہ یہ ہے کہ زبان پر کام نہیں ہُوا مگر یہ کام نصیر تُرابی نے کیا۔ یقینا ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

وہ اپنے عم عصروں سے مراسم رکھے ہوئے تھے، نئے لکھنے والوں کو اپنے پاس بیٹھانا پسند کرتے اور نوجوان نسل بھی ان سے استفادہ کرتے۔‘‘ ان کی مشہورِ زمانہ غزل سے کچھ اشعار۔

وہ ہم سفر تھا مگر اُس سے ہمنوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

عدواتیں تھیں ، تغافل تھا ، رنجشیں تھی مگر

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی

اس مشہورِ زمانہ غزل کے بعد بھی ان کی جو غزلیں مشہور ہوئی اُن میں ان کی طبع زاد زمین میں ’’ تجھے کیا خبر میرے بے خبر‘‘ جس پر بعد میں سلیم کوثر نے بھی غزل کہی۔

اس حوالے سے نصیر تُرابی انکشاف کرتے ہیں کہ ’’ میں نے پہلی بار یہ غزل سلیم احمد کو سُنائی اور 1977 ء کو ٹی وی کے ایک مشاعرے میں پڑھی جس کی نظامت صبیحہ اختر کر رہی تھی۔‘‘ ان کی یہ غزل’’ دیکھ لیتے ہیں اب اُس بام کو آتے جاتے‘‘ یہ طبع زاد زمین بھی نصیر تُرابی کی تھی جس پر فراز نے بھی غزل کہی ’’ سلسلے توڑ گیا وہ جاتے جاتے ‘‘ اس غزل کو ملکہ نور جہاں نے گایا اور فراز کو امر کر دیا۔

ان کی کتاب شعریات (شعر و شاعری ، ساخت پر مشتمل ہے) ، ’’لاریب ‘‘ ان کا مجموعہ کلام2017  میں شائع ہوا جس کے آغاز میں حمد بھی ہے، نعت بھی ہے اور بعد میں سلام ، منقبت شامل ہیں ، جس پر انھیں اکادمی ادبیات کی جانب سے علامہ اقبال ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی آخری کتاب’’ لغت العلوم‘‘ 2019  میں منظرِ عام پر آئی یہ کتاب 80 یا90 صفحات پر ہے۔ جس کو ہم کتابچہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

بقول اکرم کنجاہی کہ’’اس کی تقریب رونمائی پریس کلب کراچی میں ہوئی جس کی صدارت کا شرف مجھے حاصل ہوا اور میں نے اپنے صدارتی کالمات میں کہا کہ ان کی کتاب ’’شعریات ‘‘ بڑی لاجواب ہے۔ اس کتاب کو میٹرک سے پی ایچ ڈی تک کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔‘‘ نصیر تُرابی نے ایک انشورنس کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور افسر تعلقات عامہ مقرر ہوئے۔ وہ اُردو زبان کے نامور شاعر ہی نہیں تھے بلکہ لسانیات کے ماہر بھی تھے۔

اس حوالے سے جاوید صبا بتاتے ہیں کہ ’’ لسانیات کے حوالے سے نصیر تُرابی بہت اہم آدمی تھے ، غزل کہنے کا ان کا یونیک انداز تھا ،اُنہیں اپنی پبلسٹی کا شوق نہیں تھا ،  ان کے کلام کی خوبی یہ ہے کہ زبان و بیان پر بہت نکھر کر سامنے آتی ہے۔

ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا

دل اُس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا

……

تھے آئینوں میں ہم تو کوئی دیکھتا نہ تھا

آئینہ کیا ہُوائے کہ تماشا سا ہو گیا

نصیر تُرابی مطالعے کے بہت رسیا تھے لیکن محافل کی وہ رونق بھی تھے۔ وہ قصہ گو بھی تھے اور بہت دلچسپ قصہ سناتے۔

ان کی شہرت کے ہندوستان اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں چرچے تھے۔ طویل ادبی سفر کی مسافت طے کرتے ہوئے 10 جنوری 2021 ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی اچانک موت نے نہ صرف اُردو زبان و ادب کو ایک گوہرِ نایاب سے محروم کر دیا بلکہ ادبی محافل کی تہذیبی روایات کو بھی بے حد نقصان پہنچایا۔

بقول اعتبار ساجد ’’ نصیر تُرابی جیسے لوگ ہر روز پیدا نہیں ہوتے ، میں اکثر اوقات جب معروف شاعرہ شہناز نور سے ملنے اور صابر ظفر سے علیک سلیک کرنے محکمہ اطلاعات کے آفس جاتا تو پتہ نہیں کس طرح اُنہیں میری آمد کی اطلاع ہو جاتی اور وہ شہناز نور کو فورا فون کر کے کہتے کہ اعتبار سے میری بات کرواؤ۔ میں نے جب بھی نصیر بھائی سے فون پر بات کی تو یہی ایک فقرہ دہراتے کہ ’’ بس آ جاؤ میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ اب یہی فقرہ میں اُن کی روح سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں کہ نصیر بھائی بس لوٹ آئیں ، ہم آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

زندگی خاک نہ تھی خاک اُڑاتے گزری

تجھ کو کیا کہتے، تیرے پاس جو آتے گزری

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔