آزاد میڈیا کا خواب شرمندہ تعبیر کیوں نہیں ہوسکتا!

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 6 جنوری 2023
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

آزاد میڈیا کی بات پوری دنیا میں کی جاتی ہے اور عموماً مختلف ریاستیں یہ دعویٰ بھی کرتی نظر آتی ہیں کہ ان کے ہاں مکمل طور پر میڈیا کو آزادی حاصل ہے۔ اس کے باوجود یہ شکایات ہر جگہ ہے کہ میڈیا کو مکمل آزادی حاصل نہیں ہے۔

اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ’’آزاد میڈیا‘‘ واقعی وجود میں آسکتا ہے یعنی ایک ایسا میڈیا کہ جس پر سب متفق ہوں؟ اس کا جواب نفی میں ہے کبھی بھی ایسا ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کی پہلی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میڈیا کی بنیاد آزادی کے اس نظریے پر مبنی ہوتی ہے جو نظریہ کسی قوم یا گروہ کے زندگی گزارنے سے متعلق ہوتا ہے۔

مثلاً مغرب کے نظریہ حیات میں آزادی کا نظریہ ملکی قوانین اور نظم و ضبط میں مذہب کو اس وقت تک آزادی دیتا ہے کہ جب تک اس کا ٹکراؤ نظریہ آزادی سے نہیں ہوتا لیکن جب نظریہ آزادی پر بات آجائے تو مذہب کی ہدایات کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔

کسی بھی ریاست کی جانب سے ’’ قومی مفادات‘‘ کے نام پر میڈیا کی آزادی پر کچھ پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کی پابندیاں صرف پاکستان میں ہیں یعنی پاکستانی میڈیا آزاد نہیں ہے مگر یہ تمام ممالک کرتے ہیں، بھارت کشمیر میں کر رہا ہے۔

امریکا اپنی دہشت گردی کے خلاف تمام جنگوں میں کرچکا ہے حتیٰ کہ وہ اتحادی فوجوں کے تابوت کی ایک تصویر تک شائع نہیں کرنے دیتا۔

یوں میڈیا مندرجہ بالا دو لحاظ سے تو قطعی آزاد نہیں ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے ، لیکن ہم وقتی طور پر ریاستی اور نظریاتی معاملات میڈیا کی آزادی سے ہٹا دیں تو ایسی صورت میں کیا پھر بھی میڈیا واقعی ’’ آزاد ‘‘ کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب بھی نفی میں نظر آتا ہے۔ آئیے ! اس ضمن میں ’’ میڈیا تھیوریز ‘‘ یعنی اس کے کام کے معیار سے متعلق نظریات کا جائزہ لیتے ہیں۔

میڈیا سے متعلق ’’ گیٹ کیپنگ ‘‘ نظریہ کا مطلب ہے کہ میڈیا پر آنے والی بہت سی اطلاعات (یا مواد) میں سے کچھ کو روک لینا اور کچھ کو آگے بڑھا دینا۔ یعنی یہ میڈیا میں کام کرنے والوں پر منحصر ہے۔

ایک نظریہ ’’ ایجنڈا سیٹنگ ‘‘ کا ہے جس کے مطابق میڈیا پر کچھ اطلاعات یا خبری مواد کو نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے اور کچھ کو غیر نمایاں کر کے یا بہت ہی کم کر کے جس کے نتیجے میں لوگ صرف اس معاملے کو اہم سمجھتے ہیں جس کو میڈیا نمایاں اور اہم بنا کر پیش کرتا ہے اور لوگ اس معاملے کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس کو میڈیا نظر انداز کردے۔

بالکل ایسی ہی بات ’’ کلٹیویشن تھیوری ‘‘ میں پیش کی گئی ہے۔ اس میں جارج گربنر نے کہا کہ میڈیا (خاص کر ٹی وی) پر جرائم وغیرہ سے متعلق جو مواد پیش کیا جاتا ہے وہ حقیقی زندگی کی شرح سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

اسی طرح یہاں سے جو پروگرام نشر ہوتے ہیں وہ حقیقی دنیا سے بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں ، مگر دیکھنے والے اسے ہی حقیقی دنیا سمجھ بیٹھتے ہیں۔

اس تناظر میں پاکستانی میڈیا پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ کسی ایک پارٹی کے سیاسی جلسے یا ریلی کے بارے میں ایک میڈیا ہاؤس لوگوں کو آگاہ کر رہا ہے کہ یہ جلسہ اس قدر ناکام ہے کہ گویا اس جماعت کے اپنے کارکنان بھی گھروں سے نہ نکلے جب کہ دوسرا میڈیا ہاؤس اپنی خبروں میں اس کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا عوامی اجتماع قرار دے رہا ہے۔

مخروط خاموشی کے نظریے کے مطابق جس رائے کو زیادہ تعداد میں لوگ درست سمجھ لیں وہ رائے رفتہ رفتہ حاوی ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کی مخالف رائے کمزور ہوتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ لوگ اس کمزور رائے پر مکمل خاموشی اختیارکر لیتے ہیں، گویا اکثریت کی رائے کے سامنے ان کی ہمت نہیں ہوتی کہ مخالف رائے کا اظہار کر سکیں۔

اس نظریہ کا ماخذ ایک تجربہ بیان کیا جاتا ہے۔ اس تجربے کے مطابق ایک کلاس روم میں لوگوں کو آگے پیچھے کرسیاں رکھ کر ایک سیدھی قطار میں بٹھا دیا گیا۔ آگے بیٹھے ہوئے بیشتر لوگوں کو پہلے سے یہ ہدایت دے دی گئی تھی کہ جو سوال کیا جائے اس کا الٹ جواب دینا ہے۔ پیچھے بیٹھے لوگوں کو یہ ہدایت نہیں کی گئی۔

اس کے بعد سامنے بورڈ پر ایک بڑی اور ایک چھوٹی لکیر بنا دی گئی۔ سب سے آگئے بیٹھے ہوئے شخص سے سوال شروع کرتے ہوئے ترتیب سے آخری شخص تک ایک ہی سوال کیا گیا کہ دونوں لکیروں میں بڑی لکیر کون سی ہے؟ آگئے بیٹھے ہوئے لوگوں نے پہلے سے دی گئی ہدایت کے تحت الٹا یعنی غلط جواب دیا چنانچہ جب آگے بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں نے غلط جواب دیا تو بعد میں پیچھے بیٹھے ہوئے لوگ اپنا اعتماد کھو بیٹھے اور سوچنے لگے کہ آگے کے اتنے سارے لوگوں نے جو کہا ہے وہی صحیح ہوگا چنانچہ بعد میں بیٹھے لوگوں نے بھی غلط اور الٹ جواب دیدیا حالانکہ انھیں نظر آرہا تھا کہ کون سی لکیر چھوٹی اورکون سی بڑی ہے۔

لینن کا کہنا تھا کہ جن ملکوں میں چھاپے خانے اورکاغذ کے ذخیرے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہیں وہاں آزادی صحافت کا مطلب صرف سرمایہ داروں کو اپنے نظام کے حق میں پروپیگنڈے کی آزادی ہے۔ مارشل میکلوہنی اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ’’ میڈیا جس نظر سے دنیا کو دکھانا چاہتا ہے، لوگ اسی نظر سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔‘‘

کارل مارکس کا کہنا ہے کہ میڈیا اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے مگر حقیقت میں میڈیا سیاسی، سماجی، اور معاشرتی مشتملات میں سرمایہ دارانہ طبقے کے زیر اثر ہے۔ میڈیا اسی سوچ کو بڑھاتا ہے جس سے استحصالی نظام کو تقویت ملتی ہے۔

اسی طرح سے نوم چومسکی کا بھی کہنا ہے کہ معاشرے کے طاقتور لوگوں کی مرضی سے ہی طے کیا جاتا ہے کہ میڈیا پر معاشرے کے لوگوں کو غور و فکر کے لیے کیا کیا موضوعات دیے جائیں۔ یوں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’ آزاد میڈیا ‘‘ محض ایک خواب ہے جو ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور نہ ہی اس کی کوئی امید ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔