چنیوٹ

حارث بٹ  اتوار 8 جنوری 2023
ذکر چنیوٹ شہر کے کچھ تاریخی اور تفریخی مقامات کا ۔ فوٹو : فائل

ذکر چنیوٹ شہر کے کچھ تاریخی اور تفریخی مقامات کا ۔ فوٹو : فائل

اگرچہ محکمۂ موسمیات بار بار یہ خبر دے رہا تھا کہ پنجاب کے میدانی علاقے آج کل دھند کی لپیٹ میں ہیں مگر پھر بھی مجھ پر چنیوٹ جانے کا بھوت سوار تھا۔

کم از کم ڈیڑھ ماہ سے چنیوٹ جانے کا ارادہ تھا مگر چوںکہ میرا رفیق اپنے کچھ کاموں میں مصروف تھا تو دیر ہوتی چلی گئی اور جب ہمارا چنیوٹ جانے کا وقت آیا، اس وقت پنجاب کے میدانی علاقے دھند کی لپیٹ میں آچکے تھے، گوگل میپ سیالکوٹ سے چنیوٹ تک کا کم ازکم وقت ساڑھے چار گھنٹے بتا رہا تھا۔ یہ تو وہ وقت تھا کہ آپ مسلسل سفر کرتے جائیں۔

ہمیں چوںکہ راستے میں دو تین بار رکنا بھی تھا کہ بائیک پر لمبا سفر کرتے ہوئے آپ کو اپنا اور بائیک دونوں کی صحت کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

اس لیے ہمیں چنیوٹ پہنچتے پہنچتے ساڑھے پانچ سے چھے گھنٹے لگ ہی جانے تھے۔ میں تو پہلے ہی گرم دنوں میں سفر کرنے کا قائل ہوں، چنیوٹ کے سفر سے یہ ایمان اور بھی پختہ ہوگیا کہ سرد دنوں میں سفر سے ہر ممکن پرہیز ہی کرنا چاہیے۔

گرم دن ہوتے تو میں زیادہ سے زیادہ چار بجے تک گھر سے ہر صورت نکل پڑتا مگر سردی کی وجہ سے ہمیں گھر سے نکلتے نکلتے چھے بج چکے تھے۔

گرم دنوں کا کیا ہے۔ باریک سا پاجامہ اور ٹی شرٹ پہنی اور ہیلمٹ پہن کر بندہ سفر پر نکل پڑتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں سورج بھی نکل آتا ہے، مگر سرد دنوں میں آپ ایسا نہیں کر سکتے آپ کو اپنا آپ اچھی طرح پیک کرنا پڑتا ہے۔ جیکٹ، تھرمل، دستانے، سب ضروری چیزیں ہیں۔ پھر سب سے بڑا مسئلہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں دھند کا ہے۔

اگر بادل نہ بھی ہوں تو سورج نکلتے نکلتے آٹھ بجا ہی دیتا ہے، اسی لیے آپ تیزرفتاری سے بھی نہیں چل سکتے۔ اپنے آپ کو اچھی طرح پیک کرنے کے باوجود بھی ٹھنڈی ہوا پتا نہیں کہاں سے آپ کے کپڑوں میں داخل ہوجاتی ہے۔

کچھ یہی حال ہمارا اس دن بھی ہوا۔ دن چوںکہ دسمبر کے تھے، پالے کے تھے۔ چھے بجے جو گھر سے باہر نکلے تو شدید دھند نے ہمیں آن پکڑا۔ بائیک کی رفتار انتہائی سست کرنا مجبوری بھی تھی اور عقل مندی بھی۔ ایسا میں گجروں کے شہر گوجرانوالہ نے جہاں ایک گھنٹے کے بعد آنا تھا، وہاں پہنچتے پہنچتے ہمیں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا مگر دھند میں فقط تھوڑی سی کمی آئی تھی۔

گوجرانوالہ سے آگے لاہور جانے کی بجائے ہم حافظ آباد والی سڑک پر مڑ گئے۔ حافظ آباد پہنچتے پہنچتے دھند تقریباً ختم ہو چکی تھی مگر سڑک ایسی خراب تھی کہ سفر کا وہ مزہ نہ آ رہا تھا جو عام طور پر سفر میں آتا ہے۔ سڑک ہمارے ملکی حالات کی طرح کہیں کہیں سے خراب جب کہ بہت سی جگہوں پر شدید خراب تھی۔

ابھی صرف حافظ آباد آیا تھا، یعنی سفر آدھا بھی نہ ہوا تھا مگر سردی اور سڑک کی وجہ سے انرجی لیول کافی کم ہو گیا۔ ایسے میں ایک زبردست ناشتہ تو بنتا ہی تھا۔ ہمارا عام سا ناشتہ نان چنا ہے اور زبردست سے زبردست ناشتہ بھی کیوںکہ یہی وہ بہترین ناشتہ ہے جو آپ کو ہر شہر میں مل جاتا ہے اور اگر نہ بھی ملے تو کسی نہ کسی طریقے سے ڈھونڈ ہی لیتا ہوں۔

ہر شہر کے نان چنوں کا ذائقہ مختلف ہے۔ حافظ آباد میں نان چنوں کا ناشتہ کرنے کے لیے رکے تو یہاں کے نان کو بھی اس کی سڑکوں کی طرح عجب ہی پایا۔ نان کو چنوں میں ڈبویا تو نان لال ہو گیا۔ بالکل خون کی طرح کا لال۔ جسے دیکھ کر میں پہلے تو یقینی طور پر گھبرایا کہ شاید نان کے ساتھ کچھ لگا ہو۔

نان کے اس ٹکڑے کو ایک جانب رکھ کر دوسرا ٹکڑا چنوں میں بھگویا تو وہ بھی لال ہو گیا۔ استفسار کرنے پر معلوم پڑا کہ یہاں کہ لوگ نان میں yeast  یسیٹ ڈالتے ہیں جس کے باعث ناں ٹوٹتا نہیں ورنہ نان ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ بات یہاں زندگی میں پہلی بار دیکھی۔ معلوم نہیں یہ کیسی یسیٹ تھی جو چنوں کے شوربے کے ساتھ ملتے ہی لال ہوجاتی تھی۔

چنے بھی بس ٹھیک ہی تھے ورنہ کھانے کو من نہیں تھا۔ منڈی بہاؤالدین جاتے ہوئے جو نان چنے کھائے تھے، اس جیسے کبھی بھی کہیں نہیں ملے۔ نہ جانے منڈی بہاؤالدین سے پیچھے وہ کونسا شہر تھا، وہ جو بھی تھا مگر اس کے نان چنوں کا ذائقہ آج بھی زبان پر ہے۔

حافظ آباد سے نکلتے نکلتے ہمیں تقریباً ساڑھے دس ہوچکے تھے۔ یہ صرف سرد دنوں کی برکات تھیں جو اتنی دیری ہو رہی تھی، دن اگر گرم ہوتے تو ہم ابھی تک نہ صرف چنیوٹ پہنچ چکے ہوتے بلکہ اس کے ایک دو مقامات کا مطالعاتی جائزہ بھی لے چکے ہوتے۔ میں نے اسی وقت دل ہی دل میں اپنے جنوبی پنجاب کے اس منصوبے کو منسوخ کیا جو میں دسمبر کے آخری ہفتے کے لیے بنائے بیٹھا تھا۔

جون جولائی میں تو جنوبی پنجاب کی جانب سفر کیا جا سکتا ہے مگر دسمبر میں بالکل بھی نہیں کہ سردیوں میں دن بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔ سورج کب چڑھا، کب اترا کوئی خبر نہیں ہوتی۔ ہمیں نہ صرف دیر ہو رہی تھی بلکہ بہت دیر ہو رہی تھی۔ اس میں قصور صرف سرد دنوں کا نہیں تھا، بلکہ ٹوٹی پھوٹی سڑک بھی اس میں برابر کی مجرم تھی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب بارہ سال پہلے میں فیصل آباد میں زیرِتعلیم تھا، تب بھی یہ سڑک بہت خراب تھی۔ فرق صرف یہ آیا تھا کہ اب یہ سڑک خراب سے شدید خراب ہوچکی تھی۔

آگے چل کر کچھ سڑک بہتر ہوئی تو بائیک نے بھی کچھ رفتار پکڑی ورنہ مجھے ڈر تھا کہ ظہر ہمیں کہیں راستے میں ہی نہ ہو جائے. ذرا دیر گزری ہو گی کہ موٹر وے کا پنڈی بھٹیاں انٹر چینج آ گیا۔

موٹر وے پر دوڑتی گاڑیوں کو دیکھ کر سخت حسد محسوس ہوا کہ کیسے فراٹے بھرتی جا رہی تھیں اور یہاں ہم گرد مٹی میں نہاتے ہوئے نہایت سست رفتاری سے جا رہے تھے۔

ہمیں عادت تھی جی ٹی روڈ جیسی دوہری، بہترین اور سیدھی سڑک پر سفر کرنے کی مگر یہاں کچھ نہ کچھ دیر بھی سڑک مختلف سمتوں میں چلی جاتی۔ بھلا ہو ان غیرمسلموں کا جنھوں نے مجھ جیسوں کے واسطے جی پی ایس کی سہولت پیدا کی ہے بصورتِ دیگر ہمارا آدھا دن تو لوگوں سے راستہ پوچھنے میں ہی گزر جاتا۔

موٹر وے کے پنڈی بھٹیاں ٹول پلازہ کو پار کیا تو کچھ آگے جا کر ہمارے جی پی ایس نے ہمیں دائیں جانب مڑنے کا اشارہ دیا۔

ویسے تو ہمیں اس جی پی ایس پر اپنے آپ سے زیادہ یقین تھا مگر عجب بات یہ تھی کہ میں نے ابھی تک کہیں نہیں پڑھا تھا چنیوٹ اتنے کلومیٹر جیسا کہ اکثر شہروں کو جاتے ہوئے ہمیں سڑک پر چھوٹے چھوٹے بورڈ لکھے نظر آتے ہیں شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی تک ہم چنیوٹ جانے والی سڑک پر چڑھے ہی نہ تھے، مگر یہ سڑک مڑتے ہی ہمیں پہلی بار سڑک پر بائیں جانب ”چنیوٹ 40 کلو میٹر ” لکھا نظر آیا۔

یہ بورڈ پڑھتے ہی میں نے سُکھ کا سانس لیا کہ 40 کلومیٹر تو کچھ بھی نہیں مطلب اب چنیوٹ آیا ہی چاہتا ہے۔

جی پی ایس پر نظر ڈالی تو وہ 40 کلومیٹر کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا وقت بتا رہا تھا۔ مجھے پہلی بار جی پی ایس پر کچھ شک ہوا کہ چالیس کلومیٹر کا فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں کیوںکر طے ہونے لگا مگر اس روڈ پر چڑھتے ہی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ جی پی ایس درست کہتا تھا۔

یہ 40 کلومیٹر کا سفر ایک طرف اور ہم جو صبح سے سفر کر رہے تھے وہ ایک طرف۔ سڑک انتہائی واہیات تھی۔ ساری سڑک ٹوٹی ہوئی تھی اور اس کی مرمت کے آثار بھی نہ تھے۔

ویسے تو حافظ آباد سے آگے سارا راستہ ہی خراب تھا مگر یہ 40 کلو میٹر کی سڑک ایسی ظالم تھی کہ ختم ہونے پر بھی نہ آ رہی تھی اور اس نے ہمارے دل، گردوں، پھیپھڑوں سب کو اوپر نیچے دائیں بائیں کردیا تھا۔

گردوغبار ایسا تھا کہ ہمارے سارے کپڑے منوں مٹی تلے گم ہوگئے۔ وقاص جو گاڑی چلا رہا تھا، وہ بھی اس خراب سڑک سے تنگ پڑ چکا تھا۔ غصے میں آ کر اس نے جان بوجھ کر بائیک گڑھوں میں ڈال دی. ہمیں دو تین ایسے جھٹکے لگے کہ گرتے گرتے بچے۔ ہم دونوں نے حسبِ توفیق اگلے پچھلے حکم رانوں کی شان میں زبردست گستاخیاں کیں۔ خدا خدا کر کے یہ چالیس منٹ کٹے اور چنیوٹ پہنچ گئے۔

اس خراب سڑک کو ہم سے اس قدر اُنس ہوگیا تھا کہ اس نے چنیوٹ تک ہمارا ساتھ نہ چھوڑا مبادا ہم راستہ بھول کر کہیں صراطِ مستقیم پر نہ چل پڑیں۔ چنیوٹ پہنچ کر ہم نے ایک ایک تازہ موسمی کا جوس پیا اور چل پڑے اپنی پہلی منزل کی جانب جو کہ عمر حیات محل تھی۔

چنیوٹ شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں عمر حیات محل ہے جسے گلزار محل بھی کہا جاتا ہے، مگر مشہور یہ عمرحیات محل کے نام سے ہی ہے. فقط چودہ مرلے کے اس محل کی تعمیر 1922 میں شروع ہوئی اور یہ 1930 میں جا کر مکمل ہوا۔

چنیوٹ میں ایک محلہ کلکتی تھا جو آج بھی موجود ہیں۔ محلے کے نام کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ یہاں کے لوگ کلکتہ میں کاروبار کرتے تھے۔ وہ یہاں سے لکڑی کا خوب صورت فرنیچر اور مختلف اشیاء تیار کرواتے اور اسے کلکتہ جا کر فروخت کرتے۔ عمر حیات صاحب مال و دولت میں تو خودکفیل تھے اور اولاد اُن کی ایک ہی تھی۔

بیگم فاطمہ حیات سے اُنس اس قدر تھا کہ خاندان والوں کے بے پناہ اسرار کے باوجود دوسری شادی نہ کی۔ یوں عمر حیات کے خاندان میں صرف تین افراد تھے۔ ایک عمر حیات خود، ان کی شریکِ حیات فاطمہ اور ان کا اکلوتا بیٹا گلزار حیات۔

1930 میں جب اس محل کی تعمیر مکمل ہوئی تو محل اپنے آپ میں ایک عجوبہ قرار پایا۔ چنیوٹ شہر کے معروف لکڑی کے کام کے استاد الٰہی بخش نے اس کی تعمیر میں نہ صرف خود حصہ لیا اور سارا کام ان ہی کہ نگرانی میں مکمل ہوا۔ 14 مرلے کا یہ محل پانچ منزلہ تھا جس میں کمرے کے سائز کا ایک تہہ خانہ بھی تھا۔ خوبصورت فرش کے علاوہ، دروازوں اور کھڑکیوں پر ایسے ایسے نقش و نگار ہیں کہ انسانی سوچ دھنگ رہ جاتی ہے۔

لکڑی کا ایسا خوب صورت اور باریک کام ہے کہ باذوق افراد اس لکڑی کی شاعری بھی قرار دیتے ہیں۔ محل ایسی نزاکت سے بنایا گیا تھا کہ سیڑھیوں تک کو خاص چنیوٹی لکڑی سے ہی بنایا گیا۔ محل کی کھڑکیوں اور دروازوں پر رنگ برنگی شیشے لگے ہیں جو خاص اٹلی سے عمرحیات صاحب نے منگوائے تھے، اگر اس محل کو شش محل بھی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ محل کے درمیان میں ایک صحن ہے۔

تمام کمروں کے دروازے صحن کی طرف ہی کھلتے ہیں۔ محل کا ہر کمرہ دوسرے کمرے سے جدا ہے اور ہر کمرے کی نقش و نگاری دیکھنے لائق ہے۔

کسی کمرے کی چھت پر اجرک بنی ہے تو کسی کمرے کی چھت کو سونے اور چاندی کے رنگوں میں رنگا گیا ہے۔ بنانے والوں کے دماغ میں جنت کے سونے چاندی کے محل تھے۔ الماریوں کے فریم بھی سنہری بنائے گئے ہیں۔

نقش و نگار کے لیے مٹی، چونا، دال ماش، گڑ سمیت نہ جانے کن کن اشیاء کو ملا کر ایسا میٹریل بنایا گیا جو جو بھی محفوظ ہے اور اتنی لکڑی کے استعمال کے باوجود آج تک اسے دیمک نہیں لگی۔ عمر حیات صاحب اپنی شریکِ حیات فاطمہ اور اپنی کُل کائنات، اپنی واحد نرینہ اولاد گلزار کے ساتھ کم و بیش ساڑھے چار سال تک یعنی 1930 تا 1935 اسی محل میں رہے اور پھر ان سب کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔

معلوم نہیں کہ عمرحیات محل کو کس کی نظر لگی۔ نظر بھی لگی یا پھر اس محل کی قسمت میں اجڑ جانا ہی تھا۔ ابھی محل کو آباد ہوئے فقط چار ساڑھے چار سال ہی ہوئے تھے کہ موت نے بھری جوانی میں عمر حیات کو آ لیا۔ جوان فاطمہ حیات کے لیے یہ صدمہ برداشت کرنا یقیناً نا ممکن ہوتا اگر ان کے پاس اپنا واحد سہارا گلزار حیات نہ ہوتا۔ فاطمہ حیات نے مشکل سے اپنی عدت کے دن گزارے۔ دونوں ماں بیٹا اب اس محل میں اکیلے تھے۔

فاطمہ حیات نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بیٹے گلزار حیات کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرنے کا اعلان کیا۔ شادی میں قریب کے رشتے داروں کو تو بلایا ہی گیا، ہر خاص و عام کو بھی مدعو کیا گیا۔ گلزارحیات کی شادی کا دعوت نامہ بھی عجب تھا۔ چنیوٹ کی پہاڑیوں پر چڑھ کر گلزار حیات کی شادی کا اعلان کیا گیا۔

ڈھول کی تھاپ پر منادی رقص کرتا جاتا اور ساتھ یہ اعلان کرتا کہ جو بھی گلزار حیات کی شادی کے اعلان کی آواز سنے وہ اپنے آپ کو شادی میں مدعو تصور کرے، جس کسی کے نتھنوں میں شادی کے پکوان کی مہک جائے، وہ بھی اپنے آپ کو شادی میں مدعو سمجھے۔ الغرض فاطمہ حیات کے اس بر وقت احسن اقدام پر محل کی جاتی خوشیاں لوٹ آئیں۔

فاطمہ حیات نے جس دن کو محل کی خوشیوں کی واپسی کا ذریعہ جانا، وہی دن گلزار محل کی مسلسل ویرانی کا باعث بنا۔ شادی کی جس رات کو گلزار حیات نے اپنی زندگی کی سب سے خوب صورت رات جانا، اسی رات کی صبح گلزار محل کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی۔

عمرحیات محل ہر لحاظ سے ایک فن پارہ تھا۔ اسے لکڑی کا تاج محل بھی کہا گیا۔ محل کی پانچ منزلوں میں بیت الخلا ایک کے اوپر ایک کھڑے تھے یعنی ہر ایک دوسرے سے منسلک تھا۔ نظام کچھ یوں تھا کہ نیچے ایک کنواں کھودا گیا تھا اور ہر منزل پر ایک ایک چرخی لگی تھی، جو جہاں ہوتا، وہیں سے پانی استعمال کرلیتا۔ محل میں گرم پانی کا بھی خوب انتظام تھا۔ دیواروں کے اندر ہی پرنالے بنے تھے اور ان کے اندر ہی گیزر لگا تھا۔ پانی گرم کرنے کے لیے کوئلوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔

جب موت سر پر آن پہنچے تو کئی بہانے بن جاتے ہیں۔ اپنی شادی کی اگلی صبح جب گلزارحیات غسل کے واسطے غسل خانے میں گیا تو وہاں پہلے سے ہی گیس بھری تھی۔

ہوا کچھ یوں ہوگا کہ گیزر کے نیچے رکھے ہوئے کوئلے کچے ہوں گے جن سے کاربن مونو آکسائیڈ گیس غسل خانے میں جمع ہوگئی۔ احباب جانتے ہیں کہ یہ ایک زہریلی گیس ہے، جس کی کوئی بو نہیں ہوتی ہے۔ زہریلی اس قدر ہے کہ انسان کا دم گھونٹ دیتی ہے اور چند ہی لمحوں میں انسان دنیائے فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔

شادی والے گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ فاطمہ حیات کے لیے یہی قیامت تھی۔ اس سے بڑھ کر اس کی زندگی میں اور کیا ہوسکتا تھا۔ جس دن کو فاطمہ نے خوشیوں کا دن جانا تھا، وہی دن اس کے لیے بربادی کا پیغام لایا۔ لوگوں نے اس محل کو ہی منحوس قرار دے دیا جو پہلے بھری جوانی میں اپنے مالک حیات کو نگل گیا اور اب ان کے اکلوتے بیٹے گلزار حیات کو۔ عمرحیات جب اس دنیا سے گئے تو انھیں قریبی قبرستان میں دفنایا گیا مگر جب اکلوتے بیٹے کی باری آئی تو فاطمہ حیات نے اپنے جگر گوشے کو محل کے صحن میں ہی دفنانے کا فیصلہ کیا۔

اکیلی فاطمہ شوہر اور بیٹے کے غم میں کب تک زندہ رہتی۔ بیٹے کے انتقال کے بعد فاطمہ حیات بھی ایک سال کے اندر اندر چل بسیں۔ فاطمہ حیات کو ان کی وصیت کے مطابق بیٹے گلزار کے پہلو میں وہی محل کے صحن میں ہی دفن کیا گیا۔ یوں یہ محل اپنے ہی مکینوں کے لئے قبرستان بن گیا۔

بعد میں کچھ عرصہ یہ منحوس محل حالی رہا۔ پھر اسی خاندان کے بڑوں نے محل کو یتیم خانہ بنوا دیا تاکہ مرحومین کے لیے ثواب کا ذریعہ بن سکے۔ جب خاندان کے بڑے بھی نہ رہے تو یتیم خانے پر کوئی توجہ نہ دے سکا۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر ماچھی برادری کے کچھ لوگوں نے محل پر قبضہ کرلیا۔ اسی دوران محل کی اوپر والی منزلیں اور چوبارے مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔

ماچھی برادری کیوں اس محل کا خیال کرتی۔ قدرت کو شاید پھر اس فنِ تعمیر پر کچھ رحم آیا اور ڈاکٹر محمد امجد ثاقب چنیوٹ کے ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے۔ یہ وہی امجد ثاقب ہیں جنھوں نے بعد میں یتیم بچوں کے لیے ایک ادارے ”اخوت” کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر صاحب کے اس جانب توجہ دینے تک پہلی منزل سے اوپر کی تمام منازل تقریباً ختم ہوچکی تھیں۔

ڈاکٹر صاحب نے محل سے ماچھی لوگوں کو باہر نکلوایا اور اس کی بحالی کی جانب توجہ دی مگر یہ توجہ صرف اس ڈاکٹر صاحب کی حد تک ہی رہی۔ آج بھی عمرحیات محل ضلعی انتظامیہ کے پاس ہے مگر اس پر توجہ دینے کے لیے کوئی امجد ثاقب نہیں۔

محل کا بقیہ حصہ مسلسل خراب ہو رہا ہے مگر اس جانب توجہ دینے والا کوئی نہیں۔ عمرحیات محل کے نگراں کے مطابق جب کبھی سال میں ایک دو بار کوئی بیرونِ ملک سے آتا ہے تو محل کی صفائی کروا دی جاتی ہے۔ ورنہ عام دنوں میں محل گرد میں ہی نہایا رہتا ہے۔

عمرحیات محل کے پاس ہی قلعہ رختی ہے۔ مؤرخین کے مطابق قلعہ رختی ہی اصل میں قلعہ چندن یوٹ ہے جسے چندر گپت موریا کی بیوی رانی چندن نے تعمیر کروایا تھا۔ موجودہ قلعہ تقریباً ساڑھے آٹھ سو سال پرانا ہے۔ اسے 1326 میں سلطان محمد تغلق نے تعمیر کروایا تھا۔ قلعہ چونے اور پکی چھوٹی اینٹ سے بنایا گیا تھا۔

قلعے میں خفیہ سرنگیں بھی تھیں جو دریائے چناب کے پاس جاتی تھیں۔ محاصرے کی صورت میں قلعے والے انہی سرنگوں سے خوراک و پانی کی بنیادی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔ قلعے میں جانے کے دو راستے تھے۔ ایک ہاتھیوں کے لیے تھا اور دوسرا پیادوں کے لیے۔ سکندر اعظم بھی چندر گپت موریا کے وقت اسی قلعہ چندر اوٹ میں کچھ عرصہ قیام پذیر رہا تھا۔

سلطان میں تغلق سے یہ قلعہ چنگیز خان کے پاس چلا گیا اور تاتاری قبیلے کا ایک سردار اس کا حاکم بنا۔ تاتاریوں سے یہ قلعہ مغلوں کے پاس آیا۔ سکھ شاہی دور میں سردار کرم سنگھ نے اس قلعے کو مغلوں سے حاصل کیا اور یوں یہ قلعہ رنجیت سنگھ کے پاس رہا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی آنے کے بعد قلعہ رختی سمیت ہر قلعہ پر انگریزوں کا ہی راج رہا۔

آئینِ اکبری میں بھی اس قلعے کا ذکر ملتا ہے۔ آئینِ اکبری کے مطابق قلعے میں تقریباً پانچ سو گھڑ اور ہاتھی سوار موجود ہوتے تھے جب کہ تقریباً پانچ ہزار کی پیادہ فوج اس کے علاوہ تھی۔ قلعہ آج نہ صرف کھنڈر بن چکا ہے بلکہ آس پاس کے لوگوں کا کچرا بھی یہی قلعہ اپنے اندر سماتا ہے۔

دن چھوٹا تھا، اس لیے وقت ضائع کیے بنا شاہی مسجد کی جانب روانہ ہوگئے۔ شاہی تواریخ، تذکروں ہم عصر اور بعد کے مورخین کی تصانیف میں اگرچہ اس مسجد کا تذکرہ نہیں ملتا اور نہ ہی مسجد پر کوئی کتبۂ تاریخ موجود ہے لیکن عام اور مسلسل مقامی اور نواحی روایات کے مطابق یہ مسجد نواب سعد اللہ خان نے تعمیر کروائی۔

سعد اللہ خان نے چنیوٹ میں سنگ سرخ سے ایک عظیم مسجد تعمیر کی۔ مسجد ”سنگ سرخ” سے نہیں بلکہ سنگ ابری سے مشابہ فاختائی رنگ کے مقامی چنیوٹی پتھر سے تعمیر شدہ ہے۔ مسجد کی ساخت اور تزئین میں کچھ ایسے تعمیری اجزاء مثلاً دروازوں کا طرز، سہ رخی سنگی سیڑھیاں محرابچوں اور گنبدوں کی آمیزش، سنگی ستون، وغیرہ قلعہ دہلی، جامع مسجد لال قلعہ دہلی سے ملتے جلتے ہیں۔

اسی چنیوٹی سنگ ابری، چھوٹی اینٹ، سنگ مرمر سے مزین چنیوٹ کی دوسری مغلیہ عمارت ”دربار پیر شاہ برہان” کے بیرونی دروازوں پر تاریخ 1063-1065 ہجری کندہ ہے۔

مسجد کے شمال اور جنوب میں بغلی کمرے ہیں۔ مسجد کا مسقفٰی حصہ سنگی ستونوں پر کھڑا ہے۔ ہر قطار میں 8 ستون ہیں۔ درمیانی قطار کے ستونوں اور سہ قوسی ڈاٹوں پر تین گنبد موجود ہیں۔ مسجد کے جنوب مغربی سمت ایک اونٹ یا بیل سے چلنے والے کنوئیں سے پانی برآمدے کی چھت اور دیوار سے ہوتا ہوا تانبے کے ایک پائپ کے ذریعے اس تالاب میں پہنچایا گیا تھا۔

مسجد کے زیریں حصے میں چاروں طرف حجرے اور دکانیں ہیں۔ مسجد کی چھت پر جانے کے لیے جنوب مغربی پہلی حجرے میں سے سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں۔ اسی طرح مشرقی دروازے کی ڈیوڑھی کے اوپر بھی ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس پر جانے کے لیے مشرقی دروازے کے جنوبی بغل میں ایک چھوٹا دروازہ میں سے سیڑھیاں اس کمرے تک جاتی ہیں۔

شاہی مسجد میں پہنچے تو لوگ ظہر کی چار سنتیں ادا کر رہے تھے۔ ہم چوںکہ مسافر تھے، اس لیے ہمارے واسطے سنتوں کی رعایت تھی۔ میں نے الگ سے دو فرض ادا کیے اور مسجد کی فوٹو گرافی کرنے لگے۔ مسجد لاہور کی بادشاہی مسجد اور وزیر خان مسجد کا آمیزہ معلوم ہوئی مگر مسجد کے پلیز نے مسجدِ نبوی کی یاد دلوائی۔ مسجدِ سے نکلے تو شہر کے بیچوں بیچ پہاڑی پر جانے کے لیے لوگوں سے راستہ پوچھنے لگے۔

اسی پہاڑی کے نیچے ایک پورا محلہ آباد ہے۔ پہاڑی کو کاٹ کر ہی آس پاس گھر بنائے گئے ہیں جب کہ اوپر پہاڑی پر جانے کے لیے سیڑھیاں بھی موجود ہیں۔ انہی سیڑھیوں کو استعمال کرتے ہوئے ہم پہاڑی پر چڑھنے لگے مگر یہ سیڑھیاں بھی صرف وہی تک تھیں جہاں تک گھر بنے ہوئے تھے۔

آگے اپنی مدد آپ کے تحت نہ صرف چڑھنا تھا بلکہ راستہ بھی خود ہی تلاش کرنا تھا۔ پہاڑی زیادہ بلند نہیں تھی۔ مقامی افراد کے مطابق یہی وہی پہاڑی ہے جہاں چندر گپت موریا کی بیوی رانی چندرن ہر سال میلہ منعقد کرواتی تھی۔ یہ ایک مذہبی قسم کا میلہ ہوتا جہاں اجتماعی طور پر پوجا پاٹ کی جاتی تھی۔

چنیوٹ میں ایک ”بڑا مندر” ہے جسے مہاراجا گلاب سنگھ نے 1848 میں تعمیر کروایا تھا۔ مندر کا اصل نام لکشمی نارائن مندر ہے اور اس سے منسلک روڈ کو مندر روڈ کہا جاتا ہے۔

لکشمی نارائن مندر کے وسط میں ایک بڑا چوکور ہال ہے جہاں مورتی پڑی ہوتی تھی جب کہ عمارت کے چاروں اطراف میں گیلری بنی ہوئی ہے۔ مندر کے کُل پانچ مینار ہیں جن میں سے بڑے والا مخروطی شکل میں ہے جب کہ باقی چار چھوٹے مینار ہیں۔ میناروں پر بنے بتوں کو یا تو مکمل طور پر توڑ دیا گیا ہے یا پھر ان کے سر کاٹ دیے گئے ہیں۔ مندر کے ماتھے پر بنے کنول کے پھول پر کسی بھگوان کی تصویر اس کی خوب صورتی میں اضافہ کرتی ہے مگر اس کا بھی اب سر کاٹ دیا گیا ہے۔

لکشمی نارائن مندر اب ایک سرکاری اسکول ہے۔ اس لیے یہاں عام طور پر داخلہ ناممکن ہوتا ہے۔ اتوار کو ویسے ہی سرکاری چھٹی ہے لہٰذا اگر آپ میری طرح شریف اور بیبے بچے ہیں تو صرف دور دور سے ہی مندر کے درشن کر سکتے ہیں۔

چنیوٹ کی تنگ اور گم نام گلیوں میں ایک روشن شیش محل ہے جو بنیادی پر سائیں سُکھ کا مزار ہے۔ سائیں سُکھ کا اصل نام احمد ماہی تھا جب کہ ان کا یوم پیدائش تیرہ رجب 1914 ہے۔ تقسیم سے پہلے آپ لاہور روڈ والی پہاڑی اور پھر ربوہ میں رہے مگر 1950 میں 500 روپے کے عوض یہ مکمل جگہ حاصل کی۔ سائیں سُکھ کی پیدائش کسی اور علاقے کی ہے مگر والدین نے چنیوٹ ہجرت کی اور ابھی تک یہیں ان کا خاندان قیام پذیر ہے۔

سائیں سُکھ نے اپنی زندگی میں ہی اس جگہ پر تعمیرات کا آغاز کیا۔ سائیں صاحب کے گدی نشین کے مطابق سائیں صاحب کو شیشہ گری بہت پسند تھی۔

اس لیے انھوں نے اپنی زندگی میں ہی چنیوٹ کے بہترین شیشہ سازوں کی خدمات حاصل کیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے اس پورے احاطے کی تعمیرات کو جاری رکھا۔ یہاں تک کہ سائیں سُکھ کی وفات کے بعد انھیں یہی پر دفن بھی کیا گیا۔ بعد میں مائی صاحبہ کو بھی اس جگہ دفن کیا گیا۔ ہر چاند کی پندرہ تاریخ کو مزار پر محفلِ سماع منعقد کی جاتی ہے۔

مزار میں شیشے کا کام اس قدر خوب صورت ہے کہ یہاں سے باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔ جی چاہتا ہے کہ انسان انہی شیشوں کو تکتے ہوئے ان میں ایسا کھو جائے کہ وہ اپنے آپ کو بھی تلاش نہ کر سکے۔ مزار سے ہٹ کر اگر آپ اس جگہ کو ایک شیش محل کے طور پر دیکھیں گے تو ایک الگ ہی حُسن آپ کو اپنی جگہ متوجہ کرے گا۔

چنیوٹ شہر میں دریائے چناب کے اندر حضرت شرف الدین المعروف بُو علی قلندر کی چلہ گاہ ہے۔ بُو علی قلندر 1215ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے جب کہ ابتدائی تعلیم جس میں فقہ کی تعلیم بھی شامل تھی، وہ بھی پانی پت سے ہی حاصل کی۔ والد نے عراق سے ہجرت کی تھی۔ بُو علی قلندر دہلی میں بیس سال تک مفتی اعظم کے دفتر سے بھی منسلک رہے۔

بعد میں مسجدِ اخوت اسلام دہلی میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔ آپ دہلی میں ہی قاضی کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ روایت ہے کہ سات سال تک دریائے جمنا میں چلہ کاٹا اور وہیں پہلے حضرت نظام الدین اولیاء اور پھر قطب الدین بختیار کاکی کے مرید بنے۔ دریائے جمنا کے بعد آپ نے دریائے چناب کو اپنی چلہ گاہ بنایا اور دریائے چناب میں ہی موجود ایک پہاڑی پر سات یا بارہ سال تک چلہ کاٹتے رہے۔

1292ء میں آپ کی وفات کرنال کے جنگلوں میں ہوئی۔ تین دنوں کے بعد جب کچھ چرواہوں نے انھیں مردہ حالت میں دیکھا تو کفن دے کر دفن کر دیا۔ بعد میں جب پانی پت میں آپ کے مریدوں کو آپ کی وفات کی خبر ملی تو کرنال سے جسدِخاکی نکال کر پانی پت میں دفن کیا۔ یوں آپ کے دو مزار ہیں۔ ایک کرنال میں اور دوسرا پانی پت میں۔

1980ء تک دریائے چناب کی پہاڑی پر ایک چھوٹے سے کمرے کی صورت میں آپ کی چلہ گاہ قائم رہی۔ موجودہ عمارت کی تعمیر کا آغاز 1980ء میں ہوا۔ موجودہ چلہ گاہ کا کُل رقبہ تین ایکڑ ہے اور اسے دریا سے دس سے پندرہ فٹ بلند بنایا گیا ہے۔

عمارت کا داخلی دروازہ مغلیہ طرز کا ہے۔ چلہ گاہ کے علاوہ اس مقام کی جانب کشش کا باعث یہاں موجود بے پناہ خوب صورت بطخیں بھی ہیں جو سارا دن دریائے چناب کی ریت اور اسی کے پانی میں کھیلتی رہتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔