جب میں نے لکھنا سیکھا تھا

محمد علی عمران خان  اتوار 8 جنوری 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 (حصہ دوم)

’’جب میں نے لکھنا سیکھا تھا‘‘ کے زیرعنوان اس مضمون کا پہلا حصہ روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں شایع ہوچکا ہے، جس میں اردو کے کئی معروف اور ممتاز شعرا کا پہلا شعر دیا گیا تھا۔ ایکسپریس کے با ذوق قارئین کی زبردست پزیرائی اور حوصلہ افزائی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسی سلسلے کا دوسرا اور آخری حصہ ان کی ضیافت طبع کے پیش ہے۔

حفیظؔ جالندھری: کراچی سے شائع ہونے والے ادبی جریدے افکار کے حفیظ ؔجالندھری نمبر میںپاکستان کے قومی ترانے کے خالق اور ’’شاہنامہ اسلام‘‘ کے شاعر ابوالاثر حفیظ جاؔلندھری کی شعر گوئی کی ابتدا کے حوالے سے تحریر ہے کہ انہوں نے اپنا پہلا شعر اس وقت کہا جب وہ پرائمری اسکول میں زیرتعلیم تھے جو درج ذیل تھا

؎محمدؐ کی کشتی میں ہوں گا سوار

تو لگ جائے گا میرا بیڑا بھی پار

یہی شعر آگے چل کر ’’شاہنامہ اسلام‘‘ جیسی منظومات کا پیش خیمہ ثابت ہوا جبکہ ۱۹۱۱ میں چھٹی جماعت میں پہلی غزل لکھی جس کا مطلع تھا:

؎خواب میں دل دار کی تصویر ہم نے دیکھ لی

رات کو جاگی ہوئی تقدیر ہم نے دیکھ لی

جگن ناتھ آزادؔ:  اردو کے نام ور شاعر تلوک چند محروم ؔکے صاحب زادے اپنے دور کے مقبول عام سخن ور جگن ناتھ آزاد ؔ کو شعرگوئی کی صلاحیت بطور ورثہ منتقل ہوئی۔ مشاہیر ادب سے انٹرویوز پر مبنی ڈاکٹر حمیرا جلیلی کی کتاب ’’گفتگو‘‘ میں جگن ناتھ آزادؔ نے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا، ’’پانچ سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ ایک پہاڑی علاقے کی سیر کو گیا، جہاں پہاڑیوں پر بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے مکا ں دھند میں لپٹے ہوئے عجب سماں پیش کر رہے تھے اور اس کیفیت سے متاثر ہو کر والد صاحب نے ایک مصرعہ موزوں کیا:

؎ پہاڑوں کے اوپر بنے ہیں مکاں

اور مجھ سے خواہش کی کہ میں اس پر گرہ لگاؤں

میں نے کہا:

؎عجب ان کی صورت عجب ان کی شاں

اس پر والد نے ٹوکتے ہوئے کہا کہا، ’’صورت‘‘ کی جگہ ’’شوکت‘‘ کہو ، اور یوں یہ شعر مزید باکمال ہوگیا اور یہی میری شاعری کی ابتدا بھی ٹھہرا۔

کیفیؔ اعظمی:  اردو شاعری کی ترقی پسند تحریک میں فیضؔ اور مخدومؔ محی الدین کے بعد تیسرا نمایاں اور اہم ترین نام سید اطہر حسین رضوی المعروف کیفیؔ اعظمی کا شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا ایک اور بڑا حوالہ ہندوستان کی فلمی صنعت کا کام یاب گیت نگار ہونا بھی ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’محرر‘‘ کے دیباچے ’’میں اور میرا شعری سرمایہ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں،’’اپنی زندگی کی پہلی غزل میں نے گیارہ برس کی عمر لکھی تھی، جس نے میری مستقبل کی راہوں کو متعین کیا۔‘‘ مذکورہ غزل کے اشعار پیش خدمت ہیں:

؎اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے

ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے

جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک

یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے

اک تم کہ تم کو فکرِنشیب و فراز ہے

اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے

مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ

جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

احمد فرازؔ :حقیقی نام سید احمد شاہ، پہلے پہل قلمی نام احمدؔ شاہ کوہاٹی، پھر اپنے والد سید محمد شاہ برق ؔ کی نسبت سے ’’ شرر ؔبرقی اور بعد ازآں فیض احمد فیض کے مشورے سے احمد فرازؔ کے تخلص سے اردو شاعری کی دنیا میں دہائیوں تک راج کرنے والے فراز صاحب سے کون صاحب ذوق آشنا نہ ہو گا! جن کے قلم سے نکلنے والا ہر شعر آج بھی ادبی افق پر پوری رعنائیوں کے ساتھ ان کے نام کو جگمگا رہا ہے ۔ ان کے فن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے یادوں سے بھرپور روزنامہ ایکسپریس کے ادارتی صفحے پر شایع ہونیوالے ایک کالم میں ایم اسلم کھوکھر نے لکھا کہ فراز ؔصاحب نے اپنی شاعری کی شروعات اس خوب صورت مطلع سے کی:

؎رک جائیے کہ رات بڑی مختصر سی ہے

سن جائیے کہ بات بڑی مختصر سی ہے

حبیب جالبؔ:انقلاب پسند عوامی شاعر حبیب جالبؔ اپنی آپ بیتی ’’جالب بیتی‘‘ میں لکھتے ہیں،’’میں ساتویں جماعت میں دِلّی کے ایک اسکول میں زیرتعلیم تھا۔ جب ساتویں جماعت کے سالانہ امتحانات آئے تو اردو کے پرچے میں الفاظ کے جملے بنانے والے سوال میں ایک لفظ دیا گیا ’’وقتِ سحر‘‘ اور اسے جملے میں استعمال کرنے کا کہا گیا۔ جملہ تو مجھ سے نہ بن سکا مگر ایک شعر ہوگیا:

؎وعدہ کیا تھا آئیں گے امشب ضرور وہ

وعدہ شکن کو دیکھتے ’وقت سحر‘ ہوا

اسی شعر نے مجھے سخن ور ہونے کا احساس دلایا اور پھر شعروشاعری کا یہ سلسلہ باقاعدہ چل نکلا۔‘‘

جونؔ ایلیا: سادہ مگر تراشی اور چمکائی ہوئی زبان میں زندگی کے گنجلک فلسفوں کو نہایت آسانی سے باتوں ہی باتوں میں بیان کرنے والے منفرد لب و لہجے کے حامل، چھوٹی بحر کے بڑے شاعر سید حسین اصغر المعروف جونؔ ایلیا سے کون واقف نہیں! عصرحاضر کے نوجوان شعراء شعوری یا لاشعوری طور پر جون ؔایلیا کے طرزسخن سے کہیں جزوی اور کہیں مکمل متاثر نطر آتے ہیں اور یہی ایک باکمال شاعر کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنے عہد کے بعد آنے والے دور میں بھی زندہ و جاوید رہتا ہے۔ جون ؔصاحب کے چاہنے والوں کے لیے یہ بات دل چسپی کی حامل ہوگی کہ ا پنی شعر گوئی کی ابتدا سے متعلق جون صاحب اپنے شعری مجموعہ ’’شاید‘‘ کے دیباچے بعنوان ’’نیازمندانہ‘‘ میں لکھتے ہیں،’’میں نے آٹھ سال کی عمر میں ہی اپنی زندگی کا یہ پہلا شعر کہا:

؎چاہ میں اسکی طمانچے کھائے ہیں

دیکھ لو سرخی میرے رخسار کی

شکیلؔ بدایونی:ہندوستان کی فلمی صنعت میں سو سے زائد اردو فلموں کے کام یاب اور معروف گیت نگار اور مقبول عام شاعر شکیلؔ بدایونی اپنی آپ بیتی ’’میری زندگی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میں جب سن شعور کو پہنچا اور پہلے پہل غزل گوئی شروع کی تو باقاعدہ کوئی ایک مکمل غزل ترتیب تو نہ دے سکا پھر بھی دو اشعار موزوں کرنے میں کام یابی حاصل ہوئی:

؎کہاں سے لاؤں زباں عرض مدعا کے لیے

ذرا تو مان لو کہنا مرا خدا کے لیے

؎بُھلا دو دل سے شکیلؔ اب جوابِ خط کا خیال

امید ِ واپسیٔ نامہ بر نہیں ہوتی

حفیظ ؔہوشیار پوری:

؎محبت کرنی والے کم نہ ہوں گے

تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

اس زبان زدعام شعر کے خالق اور اردو ادب میں اپنی تاریخ گوئی کے حوالے سے ناسخ ؔثانی کہلائے جانے والے، ترقی پسند اردو غزل کے خوب صورت شاعر حفیظؔ ہوشیار پوری کی شخصیت و فن پر تحریر شدہ کتاب میں ان کی شاعرانہ ا زندگی کی ابتدا سے متعلق ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ لکھتی ہیں،’’حفیظ ہوشیارپوری نے ۱۰ یا ۱۱ برس سے ہی فارسی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی شعر کہنا شروع کیا۔ وہ اسلامیہ ہائی اسکول ہوشیارپور میں جماعت دہم کے طالب علم تھے جب انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر کہا:

؎پھر نہ دینا مجھے الزامِ محبت دیکھو

تم چلے جاؤ تمھیں دیکھ کے پیار آتا ہے

ناصرؔ کاظمی:جدید اردو غزل کی توانا آواز اور میرؔ ثانی کہلائے جانے والے ناصرؔ کاظمی کی داستان حیات اور ان کے کلام کے فنی و فکری تجزیات پر مشتمل ناہید قاسمی کی کتاب میں ناصر کاظمی اپنے تخلیقی عمل کی ابتدا کے بارے بتاتے ہیں،’’ہمارے گھر کی فضا شعر و ادب سے معمور تھی۔ گھر میں میرانیسؔ، سعدی ؔاور فردوسی ؔپڑھے اور پڑھائے جاتے تھے، سو خودبخود طبیعت شاعری کے لیے موزوں ہونے لگی تھی۔ اور میری یادداشت اگر میرا ساتھ دے تو درج ذیل شعر میرا پہلا شعری تجربہ تھا:

؎قبول ہے جنہیں غم بھی تری خوشی کے لیے

وہ جی رہے ہیں حقیقت میں زندگی کے لیے

شوکت ؔ تھانوی:مشہور مزاح نگار اور شاعر شوکت ؔ تھانوی اپنی آپ بیتی یادوں کا ’’شیش محل‘‘ میں رقم طراز ہیں،’’میرے اسکول کے دنوں میں میرے استاد ماسٹر بخشش احمد کو جب میرے شعر گوئی کے ذوق کی خبر ملی تو انہوں نے میری شعری صلاحیتوں کا امتحان لینے کے لیے مجھے ایک مصرعہ دیا اور اس پر گرہ لگانے کا کہا:

؎سب چاند ستارے ماند ہوئے خورشید کا نور ظہور ہوا

شوکت ؔنے اس پر دوسرا مصرع لگا کر مطلع مکمل کیا:

؎سب چاند ستارے ماند ہوئے خورشید کا نور ظہور ہوا

غم ناک سیاہی رات کی تھی اب اس کا اندھیرا دور ہوا

راحتؔ اندوری:اپنے منفرد کلام اور طرزادائی سے مشہور ہونے والے شیخ راحت اللہ قریشی المعروف راحت اندوری کی حیات اور شاعری پہ ہری پرکاش سریواستو کی جانب سے پی ایچ ڈی سطح پہ تحریر کیے جانے والے ایک مقالے میں راحت ؔاندوری اپنے ابتدائی کلام کے حوالے سے مقالہ نگار کو بتاتے ہیں کہ ’’میں تیرہ یا چودہ برس کی عمر میں اپنے شہر کی بزم ادب لائبریری  میں منعقدہ ایک شعری نشست میں بطور سامع شریک تھا۔ دوران مشاعرہ ایک صاحب جو میرے آشنا تھے اور جانتے تھے کہ میں شعر کہتا ہوں، انہوں نے مجھے بھی شعرگوئی کی دعوت دی، وہاں میں نے اپنی کہی گئی پہلی غزل پڑھی جس کا مطلع میری شعری زندگی کا پہلا شعر بھی ہے، جو کچھ اس طرح ہے:

؎مقابل آئینہ اور تیری گلکاریاں جیسے

سپاہی کر رہا ہو جنگ کی تیاریاں جیسے

جمیل الدین عالیؔ:اکادمی ادبیات کی سرپرستی میں پاکستانی ادب کے معمار سیریز کے تحت جمیل الدین عالی کی شخصیت و فن پر بیگم رعنا اقبال کی تحریر شدہ کتاب میں اپنی شاعری کی ابتدا سے متعلق عالیؔ صاحب بتاتے ہیں،’’میں نے تقریباً چودہ برس کی عمر میں کوچۂ سخنوری میں قدم رکھا، جس کے بار ے میں جب میرے بڑے بھائی کو پتہ چلا تو یہ طے ہوا کہ اگر شاعر بننا ہی ہے تو کیوں نہ باقاعدہ کسی استاد کی شاگردی اختیار کی جائے جس کے لیے داغ ؔکے داماد اور شاگرد نواب سائل ؔدہلوی کا نام منتخب کیا گیا۔ جب نواب سائلؔ کے روبرو حاضر ہوئے اور عرض مدعا کیا تو نواب صاحب آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے عالی کے طرف متوجہ ہوئے اور کہا ’’ہاں صاحبزادے کچھ ارشاد ہو؟؟‘‘ جس پر عالی جی نے اپنا پہلا شعر بصورت مطلع پیش کیا:

؎تری دوری کے سبب دل بھی خفا ہوتا ہے

مدتوں کا میرا ساتھی یہ جدا ہوتا ہے

اس پر نواب صاحب نے اصلاحی انداز میں فرمایا،’’عزیزم !! میں زبان پہلے دیکھتا ہوں خیال بعد میں، تم اسے یوں کردو:

؎تری دوری کے سبب دل بھی خفا ہوتا ہے

جو کلیجے کا تھا ساتھی وہ جدا ہوتا ہے‘‘

رفعتؔ سروش:آل انڈیا ریڈیو کی نشریات میں پہلی مرتبہ منظوم اردو ڈرامے متعارف کروانے والے شاعر، محقق، تنقید نگار اور نثرنگار رفعتؔ سروش جو کہ پڑوسی ملک ہندوستان کے جانے پہچانے قلم کار گزرے ہیں، انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کے بچپن کا عرصہ زیادہ تر میرٹھ میں گزرا، جہاں بارہ سال کی عمر میں وہ پہلی دفعہ شعرگوئی کے لطیف تجربے سے آشنا ہوئے اور درج ذیل پہلا شعر کہا:

؎اگر گُل دکھاتا ہے آثار نکہت

تو کرتا ہے گل چیں تشدد نمائی

جب کہ اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’’نقوش رفتہ‘‘ میں لکھتے ہیں،’’میں ایم بی انگلش اسکول دہلی میں زیرتعلیم تھا کہ پتا چلا کہ ظہیرعالم کے دیوان خانے میں میں مشاعرہ ہونے والا ہے، مصرع طرح تھا:

؎تہہ و بالا کیے کیا کیا زمین و آسماں میں نے

میں نے بھی اس طرح پر اپنی پہلی غزل لکھی جس کا مطلع تھا:

؎نہ دیکھا آج تک دنیا میںکوئی شادماں میں نے

جہاں پہنچا وہیں پایا نیا اک آسماں میں نے

زبان حال سے یہ کہہ رہا ہے برگ افتادہ   بڑھائی تھی کسی دن زیب صحن گلستاں میں نے

ضیاء ؔالحق قاسمی: معروف اردو مزاح نگار عطا الحق قاسمی کے بڑے بھائی اور مشہور مزاح گو شاعر ضیاء ؔالحق قاسمی اپنی پہلی شعری واردات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اپنے نثری مجموعے بعنوان ’’مجھے یاد آیا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ساون کے موسم میں پوری رات زورشور سے موسلا دھار بارش جاری رہی جو صبح جا کر تھمی۔ برسات کی اس رات میں میں نے اپنی زندگی کا پہلا قطعہ کہا جو شعری تخلیق کا میرا پہلا تجربہ تھا:

؎جس دن سے میری ان سے ملاقات ہوئی ہے

اس یاد کی پہلی ہی یہ برسات ہوئی ہے

تاصبح شب وصل رہے گی یہی رم جھم

موسم کے فرشتوں سے میری بات ہوئی ہے

زبیرؔ رضوی:ہندوستان سے تعلق رکھنے والے آل انڈیا ریڈیو کے معروف براڈکاسٹر، نثرنگار، نظم گو شاعر اور ادیب زبیرؔ رضوی اپنی آپ بیتی ’’گردش پا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میں نے پہلی بار جب شاعری شروع کی تو میرا رجحان آزاد نظم کی بجائے پابند شاعری کی جانب زیادہ تھا۔ اسی دور کی ابتدائی شاعری میں میں نے پہلے دو اشعار لکھے:

؎شب وصال کے جب ان سے تذکرے آئے

تو دور جا کے نگاہوں سے میری شرمائے

گلوں کو چومنا چاہوں تو ٹوک دیتے ہیں

بہت عزیز ہیں کانٹوں کو اپنے ہمسائے

عمران احسنؔ: ادبی خانوادے سے تعلق ہونے کی حیثیت سے راقم الحروف بھی عمران احسن ؔکے تخلص سے شعروشاعری سے شغل رکھتا ہے۔ ہماری شعر گوئی کی ابتدا بھی دل چسپی سے خالی نہیں۔ ان دنوں ہم کالج میں زیرتعلیم تھے اور خوشونت سنگھ کے ناول ’’دِلّی‘‘ پڑھنے کے بعد خواجہ حسن نظامی کی کتاب ’’بیگمات کے آنسو ‘‘ زیرمطالعہ تھی۔ دِلّی کے بار بار اجڑنے اور پھر بسنے کے حالات نے طبیعت پر ایسا اثر کیا کہ بے ساختہ دو مصرعے ترتیب دیے جو کہ ہماری سخن وری کا پیش خیمہ ثابت ہوئے:

؎ دلی نہیں کہ پھر سے یہ بس جائے گی حضور

دل کو اجاڑئیے گا ذرا دیکھ بھال کے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔