دہشت گردی کا عفریت کچل دیا جائے

ایڈیٹوریل  ہفتہ 7 جنوری 2023
سیکیورٹی فورسز نے جنوبی وزیرستان کے ضلع وانا میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا جس میں گیارہ دہشت گرد مارگئے (فوٹو فائل)

سیکیورٹی فورسز نے جنوبی وزیرستان کے ضلع وانا میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا جس میں گیارہ دہشت گرد مارگئے (فوٹو فائل)

سیکیورٹی فورسز نے جنوبی وزیرستان کے ضلع وانا میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا جس میں گیارہ دہشت گرد مارگئے، ہلاک دہشت گردوں سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا ہے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ عوام یا ریاست کے خلاف دہشت گردی میں ملوث افراد اور تنظیم کے ساتھ بات چیت یا مذاکرات نہیں ہونگے، چند روز قبل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔

دہشت گردی سے جان چھڑانا ہر پاکستانی کا خواب ہے اور حکومت بلاشبہ اس عفریت کو کنٹرول کرنے کے معاملے میں خلوص نیت سے کوششیں کر رہی ہے۔

بلاشبہ آج پوری قوم دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے وہ اس عفریت کے خاتمے کے لیے جس طرح مصروفِ جہاد ہے، قوم اسے قدر کی نظر سے دیکھتی ہے اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش میں وہ اپنی بہادر افواج کی پشت پر ہے۔

ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اچانک اضافہ اس وقت ہونا شروع ہوا ہے، جب افغانستان نے اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے والی دہشت گرد کالعدم تنظیم کو مبینہ طور پر چھوٹ دینا شروع کی حالانکہ پہلے اسی افغان حکومت نے ہی پاکستانی حکام کے ساتھ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا اور فریقین کے درمیان مفاہمت و مصالحت کی کوشش کی، لیکن کالعدم تنظیم کی طرف سے بعض ایسی شرائط عائد کرنے پرکہ جو کسی طرح بھی قومی سلامتی کے اداروں کے لیے قابل قبول نہیں تھیں، چنانچہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے۔

خیبر پختون خوا کے بہت سے علاقے تو مسلسل اس عذاب کو جھیل رہے ہیں اور وہاں پر دہشت گردوں نے بعض علاقوں پر ماضی میں قبضہ کرلیا تھا ، یعنی ریاست کے اندر ریاست قائم کر لی تھی۔

ایک تکلیف دہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ دہشت گرد گروہ اپنے مکروہ مقاصد اور مذموم عزائم کو اپنے تئیں اسلام کے تصورِ جہاد سے نتھی کرتے ہیں اور اسی سوچ کے ساتھ شریعت اسلامیہ کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔

حالانکہ اسلام امن کا دین ہے وہ کسی قسم کی دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا، حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ آفاقی صداقتوں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ معاشرے سے اس تنگ نظری و انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

گزشتہ دنوں ایک بیان میں وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی ایکشن پلان کا حوالہ بھی دیا ہے۔ یہ پلان 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردی حملہ کے بعد تیار کیا گیا تھا اور اسے اکیسویں آئینی ترمیم کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اس قومی ایکشن پلان کے دو اہم ترین پہلو تھے۔

(اول) قومی و صوبائی سطح پر تمام انٹیلی جنس معلومات میں ہم آہنگی پیدا کرنا تاکہ دہشت گردوں کی گرفت کرتے ہوئے کسی قسم کے ٹکراؤ کی صورت حال پیدا نہ ہو۔

(دوئم) دینی مدارس کے نصاب میں دوررس اصلاحات تاکہ کسی مخصوص فرقے کی سوچ نفرت و تقسیم اور فرقہ واریت کے فروغ کا سبب نہ بنے بلکہ قومی ہم آہنگی و ہم خیالی کا وسیع تر ماحول پیدا کیا جا سکے۔

اس دوران ملک پر چوتھا وزیر اعظم حکومت کر رہا ہے ، لیکن نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے بارے میں کوئی حوصلہ افزا رپورٹ دیکھنے میں نہیں آئی۔ قومی ایکشن پلان مذہبی منافرت ختم کرنے اور بین الانسانی معاملات میں عناد و تقسیم کے بجائے مفاہمت و بھائی چارے کا ماحول پیدا کرنے کی بات کرتا ہے۔

اس پلان میں خاص طور سے مدارس کا ذکر اس لیے کیا گیا تھا کیونکہ امریکا کی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے دوران یہ نوٹس کیا گیا تھا کہ فرقہ وارانہ تقسیم و دشمنی کی وجہ سے انتہا پسندوں کو طاقتور ہونے کا موقع ملا ۔

اگر ملک کی معروضی صورت حال پر غور کیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ مدارس اور دینی نصاب میں جو حالات تبدیل کرنے کا عزم کیا گیا تھا ، وہ تو اب مدارس و مساجد سے بڑھ کر معاشرے کے ہر طبقے میں سرایت کرچکے ہیں۔

ملک کی تمام درس گاہیں، یونیورسٹیاں اور قومی مکالمہ میں مفاہمت کے بجائے نفرت، ہم آہنگی کے بجائے دشمنی، عناد اور ضد کا عنصر غالب آ چکا ہے۔

سیاسی بیان بازی کو کفر و باطل کا میدان بنا لیا گیا ہے اور ملک کا شاید ہی کوئی گھر، گلی، محلہ یا طبقہ ایسا ہو جو اس تقسیم اور نفرت کا شکار نہ ہو چکا ہو۔ سوچنا چاہیے کہ اس نفرت کو سمیٹے بغیر وہ اجتماعی سوچ کیسے پیدا ہوگی جسے وزیر اعظم عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے اہم قرار دیتے ہیں۔

سو اس تمام صورتحال کے تناظر میں پاکستانی قوم خصوصاً قومی قیادت کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین کو اپنے کردار و عمل کا جائزہ لینا ہوگا کہ ان کے رویوں سے ملک و قوم کو کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے۔

ایسے حالات میں کہ جب ہمارا ازلی دشمن موقع کی تاک میں بیٹھا ہے وہ ہمارے اندرونی حالات، اہل سیاست میں جاری چپقلش پر پوری نظر رکھے ہوئے ہے ، وہ خدا نخواستہ ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا ہرگز موقع ضایع نہیں جانے دے گا۔ اس لیے ان حالات میں ہماری سیاسی قیادتوں کو دور اندیشی، متانت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

ملک میں انتہا پسندی اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم آہنگی، تعاون اور باہمی افہام و تفہیم کا ماحول موجود ہو ، جس میں کم از کم قومی سلامتی کے معاملہ پر فریقین اپنے تمام تر سیاسی، نظریاتی اور شخصی اختلافات سے قطع نظر مل کر مقابلہ کرنے کے لے دل و جان سے تیار ہوں، لیکن جب دہشت گردی کا ایک افسوسناک واقعہ رونما ہونے کے بعد سیاسی مخالفین پر اس کا الزام عائد کرنے کی کوشش کی جائے اور وسیع المدت اور قابل عمل پہلوؤں کو نظر انداز کیا جائے تو عوام کیسے ایسی قیادت سے یہ امید لگائیں گے کہ ان کی رہنمائی اور قیادت میں ملک اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

سیاسی صورت حال پیچیدہ اور تشویشناک ہے تاہم ملک کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو یہ غور کرنا ہے کہ کیا اس سیاسی دنگل کے دوران کوئی ایسا پلیٹ فارم بھی باقی رہنے دیا گیا ہے جہاں سے قومی سلامتی، عوام کے جان و مال کے تحفظ اور ملکی دفاع کے معاملہ پر اتفاق رائے کا مظاہرہ ہو سکے؟

پوری دنیا میں سیاسی اختلافات موجود ہوتے ہیں اور لیڈر ایک دوسرے کے لتے لیتے ہیں لیکن بعض امور پر وہ مل بیٹھ کر معاملات طے کرنے اور قومی مفاد کی حفاظت کو یقینی بھی بناتے ہیں۔

پاکستان کی مسلح افواج نے ملک میں دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے ماضی قریب میں جو آپریشن کیے اور ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت جو اقدامات اٹھائے ان کے نتیجے میں ملک میں بہت حد تک دہشت گردی کی کارروائیاں رک گئی تھیں اور ملک میں امن و امان قائم ہو گیا تھا اور اہلِ پاکستان نے سکھ کا سانس لیا تھا۔

مسلح افواج کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے پایاں جانی و مالی قربانیاں دی اور اپنی ترجیحات میں اس نے قومی سلامتی کے حامل ان اقدامات کو مقدم رکھ کر قومی فریضہ احسن طریقے سے انجام دینے کی سعی مشکور کی۔ جس سے اندرونِ ملک ہی نہیں، بیرون ملک بھی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کا نہ صرف اعتراف کیا گیا بلکہ اس کی تحسین بھی کی گئی لیکن اب پھر دہشت گردی نے پر پرزے نکالنا شروع کر دیے ہیں۔

سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ خیبر پی کے میں بعض علاقوں خصوصاً سوات میں کالعدم تحریک طالبان کے پھر سے منظم ہونے کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں۔

ان شاء اللہ فوج اور پاکستانی قوم کی مربوط اور منظم کوششوں کے نتیجے میں ہی دہشت گردی کا ملک سے قلع قمع ممکن ہوسکے اور ملک میں ایک بار پھر امن کا پھریرا لہرائے گا، لیکن اس مقصد کے لیے قومی سیاسی قیادتوں کو بھی قومی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک دشمن عناصر تک یہ پیغام پوری قوت اور شدت کے ساتھ پہنچانا ہوگا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں پوری قوم ایک ہے۔

قومی سطح پر پیدا ہونے والی تقسیم ختم کیے بغیر یہ سوچ لینا کہ دہشت گردی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا ، خام خیالی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ جہاں تک اس معاملہ کی اسٹرٹیجک سطح کا تعلق ہے تو اس کے لیے پاکستان کو خارجہ تعلقات اور قومی سلامتی کے تمام پہلوؤں کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا۔

گزشتہ چار دہائیوں کے دوران کی جانے والی تمام غلطیوں کا اعتراف کر کے معاشرے کے تمام طبقوں اور اسٹیک ہولڈرز کے اشتراک سے کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی جسے عالمی برادری کی تائید بھی حاصل ہو اور اس پر عمل کرنے سے ملکی وقار میں بھی اضافہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔