جعلی اشرافیہ

راؤ منظر حیات  ہفتہ 7 جنوری 2023
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

راہول گاندھی کی عمر 52 برس ہے۔ ہندوستان کے سب سے مضبوط سیاسی گھرانے کا فرد ہونے کی بدولت اوئل عمری ہی سے ہر ایک کی نظروں میں تھا۔ دادی وزیراعظم ‘ والد وزیراعظم اور پھر حد درجہ فعال کانگریس پارٹی۔ ان تمام عناصر نے اس شخص کی سوچ پر عجیب و غریب طریقے سے اثر کیا۔ ایک تو یہ سوچا کہ موروثی سیاست کو ختم ہونا چاہیے۔

چنانچہ آج تک اس نے شادی نہیں کی ۔ دوسرا‘ فیصلہ کیا کہ وہ انڈیا کے کمزور طبقوں کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ لہٰذا غریب اور مظلوم لوگوں کی دا د رسی کا فیصلہ کرلیا۔ اس میں ہندوستان کے مسلمان سرفہرست تھے۔ نریندر مودی اور حواریوں نے راہول گاندھی کی سیاسی زندگی عذاب بنا دی۔ ہر لحاظ سے مذاق اڑایا گیا۔

کپڑوں سے لے کر غیر ملکی والدہ کا بھی ٹھٹھا اڑایا گیا۔ نریندر مودی کے حد درجہ تعصب نے راہول گاندھی کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ مگر اس کا رد عمل حیران کن تھا۔ فیصلہ کیا کہ پورے ملک کا پیدل دورہ کرے گا۔ فقید المثال عوامی رابطہ شروع کرے گا۔

اس فیصلہ کا بھی نریند مودی نے بہت مذاق اڑایا۔ کہا کہ راہول ایک نرم و نازک انسان ہے۔ وہ تو ایک دن بھی پیدل نہیں چل سکتا۔ مگر ہندوستان کے متعصب ترین وزیراعظم کی ساری باتیں ڈھیر ہو گئیں۔ ستمبر 2022 سے راہول نے مادھاونا شہر سے اپنی پیدل یاترہ کا آغاز کیا۔

اس کو بھارت جو دویاترہ کا نام دیا گیا۔آج کی تاریخ تک راہول تین ہزار دو سو اٹھارہ کلومیٹر پیدل چل چکا ہے۔ پہلے ایک دو دن ا س کے ساتھ بہت کم لوگ تھے۔

پھر آہستہ آہستہ ہر طبقہ فکر کے افراد اس میں شامل ہو گئے۔ عام لوگ‘ سیاست دان‘ فلمی ستارے‘ معذور افراد بلکہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کے ساتھ نکل پڑے۔ یہ عوامی رابطہ کا مؤثر ترین طریقہ تھا۔ مارچ آج بھی جاری ہے۔

راہول کے پیروں میں چھالے پڑ چکے ہیں۔ مگر وہ کہتا ہے کہ اس کی تکلیف کا تعلق عام لوگوں کے مصائب جاننے کا بہترین طریقہ ہے۔ نریندر مودی کے خلاف آج تک کانگریس کا سب سے مضبوط ترین ردعمل ہے۔ ساتھ ساتھ عام لوگوں کی تکلیف جاننے کا سب سے بہترین طریقہ۔ راستے میں راہول چھوٹے چھوٹے بچوں کو کندھے پر بٹھا لیتا ہے۔

ہر ایک سے ہاتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے۔ بزرگ لوگوں کے ساتھ کندھے سے کندھے جوڑ کر چلتا ہے۔

اس یاترہ نے کم از کم ہندوستان کے سرمایہ دارانہ سیاسی نظام کو مکمل طور پر برہنہ کر دیا ہے۔ اس یاترہ کا اصل مقصد انڈیا کے سیکولر سیاسی خاندان کے مستقبل کو عام لوگوں کے ساتھ جوڑنا ہے۔ ان کی طرح رہنا ہے۔ انھی کی طرح سفر کرنا ہے اور انھیں کی طرح ‘ ان کے غم کو محسوس کرنا ہے۔

اپنے ملک میں سیاسی سربراہان کی طرف دیکھتا ہوں تو عجیب سی کیفیت ہوتی ہے۔ کہ یہ لوگ ہمارے مستقبل کو سنواریں گے؟ ان کا عوام اور عام مسائل سے کسی قسم کا رابطہ یا واسطہ نہیں ہے۔

عام لوگوں کو تو رہنے دیجیے وہ تو خیر صرف سانس لیتے ہوئے پلاسٹک کے شناختی کارڈ ہیں۔ ملک کے متوسط بلکہ صاحب حیثیت طبقہ کا بھی ہمارے سیاسی لیڈروں سے کوئی عملی تعلق نہیں ہے۔ ان گنت مثالیں ہیں۔ زرداری صاحب یا ان کے صاحبزادے سفر کے لیے ہمیشہ قیمتی ترین پرائیویٹ جیٹ استعمال کرتے ہیں۔ یہی حال آل شریف کا ہے۔

خان صاحب بھی سفر کرنے کے لیے حکومتی ہیلی کاپٹر یا جیٹ استعمال کرتے ہیں۔ سوچ کر بتایئے کہ عوام کا کتنے فیصد طبقہ‘ پرائیویٹ جہازوں میں سفر کرنے کا خواب دیکھ سکتا ہے۔ اتنی آسودہ حال بلکہ پرتعیش آمدورفت ان کے وہم و گمان تک میں نہیں آ سکتی۔

جو سیاست دان‘ عام جہاز میں سفر کرنا پسند نہیں فرماتے‘ ان کا عام انسان سے عملی رابطہ کیا خاک ہو گا۔ صاحبان ! صرف ایک مذاق ہے جو ہم سات دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ اب تو یہ مزاح ‘ قومی آزار کا باعث بن چکا ہے۔

اور ہاں! کسی سیاسی جماعت کے اہم ترین رکن کی بھی یہ ہمت نہیں کہ اپنے پارٹی سربراہ کی خدمت میں عرض کر سکے کہ حضور آپ کا عوام سے کیا تعلق ہے؟ حقیقی عوام کی آپ تک رسائی کتنی ہے؟ جناب‘ کوئی بھی اپنے سیاسی سربراہ سے کچھ نہیں پوچھ سکتا۔ ہاں۔ خوشامد‘ میراث پن میں اکثریت ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔

سفر کو بھی رہنے دیجیے ۔ ان کے کپڑے‘ گھڑیاں‘ جوتے‘ ٹائیاں اور دیگر زیب تن اشیاء ملاحظہ فرمائیے۔ لاکھوں روپے کے برانڈڈ سوٹ‘ محیر العقول قیمتی جوتے اور گھڑیاں ان کا ذاتی شعار ہے۔ یہ عام آدمی سے متضاد طریقے سے جیتے ہیں۔ خودبتایئے۔

مارکس اینڈ اسپینسر سے کم تو ظالم ‘ کسی سوٹ کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ ہاں صرف خان صاحب ہیں جو کپڑوں کی حد تک سادگی پر عمل کر رہے ہیں۔ مگر ان کا باقی رہن سہن ہرگز ہرگز سادہ نہیں ہے۔ کھانے پینے کی طرف آئیے۔

عام آدمی کی دسترس سے تو خیر اب برائلر مرغی بھی نکل چکی ہے۔ مگر یہ تمام لوگ organic اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ دیسی مرغی کے علاوہ کسی شے کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ قیمتی ترین Sea Food ان کے زیر استعمال ہر وقت رہتی ہے۔

کھانا بھی آرگینک زیتون کے تیل میں پکتا ہے۔ مجھے سمجھائیے کہ جب ہمارے مقتدر طبقے کا رہن سہن‘ لباس اور سفر تک عوام سے مختلف بلکہ متضاد ہے۔ تو پھر ان کے شعور کی سطح عوامی تکالیف کے بارے میں کیا ہو گی۔ دراصل ان کی اکثریت ہمارا مذاق اڑاتی ہے۔

عوام کی غلطی یہ ہے کہ ان پر اپنے مصائب کو کم کرنے کے لیے بے جا تکیہ کرتے ہیں۔ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ غلط امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ اور پھر تھوڑے سے عرصے میں زندہ باد‘ مردہ باد کے نعرے لگا لگا کر بے دم ہو جاتے ہیں۔

لوگوں کی اکثریت کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے تمام مسائل اشرافیہ کی وجہ سے ہیں۔ یہ صرف اور صرف تھوڑا سا سچ ہے۔

اشرافیہ تو ہر ملک اور سوسائٹی میں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ کیا برصغیر میں کوئی ایسا دور تھا جس میں اشرافیہ کا وجود نہ ہو۔ مگر اصل اشرافیہ اور جعلی اشرافیہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ملک کے ابتدائی سالوں میں بہت سی ایسی مثالیں ہیں۔

جن میں حقیقی اشرافیہ نے اپنے ذاتی وسائل سے ملک کی بھرپور خدمت کی ہے۔ پاکستان کے شروع میں مالی وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرکاری ملازمین کی تمام تنخواہیں‘ نواب آف بہاولپور کی جانب سے ادا کی جاتی تھیں۔ راجہ صاحب آف محمود آباد‘ درحقیقت‘ بہت رئیس آدمی تھے۔ ان کے قلعے آج بھی ہندوستان میں موجود ہیں۔ مگر سب کچھ چھوڑ کر راجہ صاحب مالی بدحالی کی صورت میں ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔

ایک جگہ تو یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اپنا کھانا بھی خود بنانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ کیونکہ ملازم رکھنے کی مالی استطاعت بھی کم ہو گئی تھی۔ اسی طرح ‘ لیاقت علی خان بذات خود کرنال کے نواب تھے۔ جب لندن تعلیم حاصل کرنے گئے تو والدین نے ذاتی خدمت گار‘ ساتھ بھجوائے تھے۔ مگر پاکستان میں آ کر ان کی خوشحالی میں بہت کمی آ چکی تھی۔

سمجھیں ہماری اصل اشرافیہ نے ملکی وسائل پر بوجھ بننا کبھی بھی گوارا نہیں کیا۔ بلکہ انھوںنے ملک کو نوازنے کی کوشش ہی کی ہے۔ سیاسی اکابرین تو ایک طرف‘ مقامی سطح کے ضلعی سیاست دان بھی اپنی گرہ سے کام سے آنے والوں کا انتظام کرتے تھے۔

یہ لوگ بسوں میں سفر کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے۔ مگر یہ تمام معاملات 1985 کے بعد مکمل طور پر تبدیل ہو گئے ۔ جنرل ضیاء الحق نے ایک جعلی اشرافیہ کو پروان چڑھایا ۔ جس کا مقصد ہی ریاستی وسائل پر قبضہ کر کے عیش و عشرت کرنا تھا۔ یہ اشرافیہ آج بھی پورے پاکستان پر حکومت کر رہی ہے۔ کسی اہم ترین مقتدر شخص کو پرکھ لیجیے۔

اس کا یا اس کے خاندان کا جادوئی عروج‘ جنرل ضیاء کی حکمرانی سے منسلک ہو گا۔ اس اشرافیہ نے اب تمام ملکی وسائل پر نہ صرف قبضہ کر لیا ہے بلکہ اپنے اتنے حواری بھی پیدا کر لیے ہیں جو بذات خود اب حقیقی منفی نظام بن چکے ہیں۔

اور ہر سیاسی رہنما کو ان کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ایک لحاظ سے تمام ملکی سیاست دان انھی کے مرہون منت ہو چکے ہیں۔ اس ابتری کو موجودہ معروضی حالات میں ختم کرنا ناممکن ہے۔

آنے والے دنوں میں ہمارا ملک کس مزید خرابہ میں جاتا ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ غریب اب بربادی کی انتہا تک پہنچ جائے گا۔

کسی قسم کا سیاسی چورن ان کے مصائب کوکم نہیں کر سکتا۔ دراصل ہمارے پورے نظام میں بہت کم ایسے معتبر لوگ موجود ہیں جن کا ہاتھ لوگوں کی نبض پر ہو۔ جو غریب اور عام آدمی کے درد کو اصل میں محسوس کر سکیں۔

جعلی اشرافیہ تو بہر حال کوئی نیک کام نہیں کر سکتی۔ ہاں‘ یہ کوئی نہ کوئی معاملہ گھڑ کر اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹا ضرور سکتی ہے۔ اس کے پیروں میں راہول گاندھی جتنے چھالے بھی نہیں ہیں۔

جن سے انھیں چلنے میں تکلیف ہو اور غریب کا درد محسوس ہو پائے۔ سندھ میں وزیر خارجہ نے جس طرح بھوکے ننگے بچوں کو تصویر میں استعمال کیا ہے۔ وہ صرف ایک عکس ہے کہ یہ غریب ہمارے جیسے نہیں ہیں۔ مگر اس جعلی اشرافیہ کو ختم کرنے کا کوئی کارگر نسخہ فی الحال تو موجود نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔