عالمی امداد کم ہوگئی مگر پانی کم نہ ہوا، وزیراعظم کا سیلاب متاثرین کیلیے برطانوی اخبار میں مضمون

ویب ڈیسک  ہفتہ 7 جنوری 2023
فوٹو فائل

فوٹو فائل

 اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کے مسائل اجاگر کرنے کے لیے برطانوی اخبار میں مضمون لکھا جس میں انہوں نے مشکل میں گھرے پاکستانیوں کی آواز بلند کی۔

دی گارڈین میں لکھے گئے مضمون میں شہباز شریف نے لکھا کہ سیلاب پر دنیا کی توجہ اور امداد کم ہوگئی مگر پانی کم نہ ہوا، سندھ اور بلوچستان کے بڑے حصے میں تاحال پانی موجود ہے جبکہ  جولائی میں ان علاقوں میں دوبارہ سیلاب آسکتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ سیلاب میں مزید 90 لاکھ پاکستانیوں کو انتہائی غربت میں دھکیل دیا۔

شہباز شریف نے لکھا کہ گزشتہ موسم گرما میں پاکستان میں آنے والی تباہ کن بارشوں اور سیلاب نے 1,700 افراد کی جانیں لیں، سوئٹزرلینڈ کے رقبے جتنا حصہ پانی میں ڈوب گیا اور 3 کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہوئے، یہ تعداد یورپی ممالک میں بسنے والے لوگوں سے زیادہ ہے۔

’پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کے شکار افراد کی تعداد دگنی ہو کر 14 ملین تک پہنچ گئی جبکہ مزید 9 ملین غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، سیلاب زدہ علاقے اب بھی مستقل جھیلوں کی طرح نظر آرہے ہیں‘۔

انہوں نے لکھا کہ ’یہ پانی اتنا ہے کہ اگر کسی طاقت ور پمپ کے ذریعے اس کو نکالنے کی کوشش کی جائے تب بھی ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا جبکہ جولائی میں دوبارہ مون سون کا موسم شروع ہوجائے گا جس میں بارشیں ہوں گی اور پھر یہ علاقے دوبارہ سیلاب کی نظر ہوسکتے ہیں پاکستان صرف سیلاب سے ہی نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہوا ہے، اس سے پہلے موسم بہار 2022 میں ہیٹ ویو آیا جس سے خوش سالی اور فصلوں کو نقصان پہنچا، بعد میں ان ہی علاقوں میں سیلاب آیا اور یہ پانی میں ڈوب گئے‘۔

وزیر اعظم نے مضمون میں لکھا کہ پاکستانیوں نے اس آفت کے بعد مثالی کردار ادا کیا جبکہ حکومت نے بیس لاکھ سے زائد متاثرہ گھرانوں میں رقم کی تقسیم کے لیے اقدامات کیے، ہم کم وسائل کے بعد ڈیڑے ارب ڈالر امداد ہی جمع کرسکے جو کہ متاثرین اور نقصانات کے ازالے کے لیے ناکافی ہے۔

شہباز شریف نے اس مضمون میں عالمی برداری اور دوست ممالک سمیت تمام اُن ملکوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے سیلاب متاثرین کے لیے امداد بھیجی اور ڈبلیو ایچ او کی طرف سے صورت حال کو صحت کی ایمرجنسی قرار دیا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ ہمارے میڈیکل کیمپوں کے وسیع نیٹ ورک اور بروقت اقدامات کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض نہیں پھوٹے جبکہ ہم شہروں اور دیہاتوں کے درمیان تباہ شدہ مواصلاتی نیٹ ورک کو بہت جلد بحال کرنے میں کامیاب رہے۔

وزیراعظم نے لکھا کہ ’اس کے باوجود 20 لاکھ سے زیادہ گھر، 14,000 کلومیٹر سڑکیں اور 23,000 اسکول اور کلینک تباہ ہو چکے۔ عالمی بینک اور یورپی یونین کے تعاون سے کیے گئے آفات کے بعد کی ضرورتوں کیلیے (PDNA) نے اندازہ لگایا ہے کہ سیلاب سے ہونے والا نقصان  30 بلین ڈالرز سے تجاوز کرگئے جو پاکستان کی مجموعی جی ڈی پی کا 10واں حصہ ہے۔

شہباز شریف نے اس مضمون میں جینیوا میں 9 جنوری کو ہونے والی موسمیاتی کانفرنس کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ کانفرنس کی مشترکہ میزبانی پاکستان اور سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کررہے ہیں جبکہ عالمی رہنما، بین الاقوامی ترقی اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کے نمائندے، اور پاکستان کے دوست ممالک حمایت اور یکجہتی کا اظہار کریں گے۔

’ہم کانفرنس میں سیلاب کے بعد کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے ایک جامع روڈ میپ بھی پیش کریں گے، جسے ورلڈ بینک، اقوام متحدہ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور یورپی یونین کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ بحالی اور تعمیر نو کا فریم ورک (یا 4RF) بنیادی طور پر دو حصوں پر مبنی ہے۔ پہلا حصہ بحالی اور تعمیر نو کے فوری چیلنجز سے نمٹنے سے متعلق ہے، جس کے لیے تین سال کی مدت میں کم از کم 16.3 بلین ڈالرفنڈنگ کی ضرورت ہے‘۔

’دوسرا حصہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کے طویل المدتی وژن کا خاکہ پیش کرنا ہے۔ اس کے لیے 10 سال کی مدت میں ہمیں 13.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ جس کے ذریعے بہتر مواصلاتی انفراسٹرکچر اور آبپاشی کے زیادہ مضبوط نظام کی تعمیر، اور مستقبل کی قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے موثر ابتدائی انتباہی نظام کو ڈیزائن کیا جائے گا جو پاکستان کے لیے لازمی ہے‘۔

انہوں نے لکھا کہ ’میں اس بات سے آگاہ ہوں کہ جنیوا کانفرنس ایک طویل اور مشکل سفر کا آغاز ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ لاکھوں متاثرین کو یقین دلائے گا۔ جو پہلے ہی اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں کہ انہیں فراموش نہیں کیا گیا ہے اورعالمی برادری ان کی زندگیوں کی تعمیر نو میں مدد کررہی ہے۔

یہ ہمیں یہ بھی یاد دلائے گا کہ ہم سب تیزی سے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہورہے ہیں جس کے نزدیک سرحدیں معنی نہیں رکھتیں، ہم ان پر دو طرفہ تعلقات بہتر بنا کر ہی قابو پاسکتے ہیں، لہٰذا، یہ میری مخلصانہ امید ہے کہ جنیوا میں ہمارا اجتماع ہماری مشترکہ انسانیت اور سخاوت کے جذبے کی علامت کا ذریعہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔