- عمران خان کا چیف جسٹس کو خط ، پی ٹی آئی کو انصاف دینے کا مطالبہ
- پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی، شوہر کو تین ماہ قید کا حکم
- پشاور میں معمولی تکرار پر ایلیٹ فورس کا سب انسپکٹر قتل
- پنجاب میں 52 غیر رجسٹرڈ شیلٹر ہومز موجود، یتیم بچوں کا مستقبل سوالیہ نشان
- مودی کی انتخابی مہم کو دھچکا، ایلون مسک کا دورہ بھارت ملتوی
- بلوچستان کابینہ نے سرکاری سطح پر گندم خریداری کی منظوری دیدی
- ہتھیار کنٹرول کے دعویدارخود کئی ممالک کو ملٹری ٹیکنالوجی فراہمی میں استثنا دے چکے ہیں، پاکستان
- بشریٰ بی بی کا عدالتی حکم پر شفا انٹرنیشنل اسپتال میں طبی معائنہ
- ویمن ون ڈے سیریز؛ پاک ویسٹ انڈیز ٹیموں کا کراچی میں ٹریننگ سیشن
- محکمہ صحت پختونخوا نے بشریٰ بی بی کے طبی معائنے کی اجازت مانگ لی
- پختونخوا؛ طوفانی بارشوں میں 2 بچوں سمیت مزید 3 افراد جاں بحق، تعداد 46 ہوگئی
- امریکا کسی جارحانہ کارروائی میں ملوث نہیں، وزیر خارجہ
- پی آئی اے کا یورپی فلائٹ آپریشن کیلیے پیرس کو حب بنانے کا فیصلہ
- بیرون ملک ملازمت کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ گینگ سرغنہ سمیت 4 ملزمان گرفتار
- پاکستان کےمیزائل پروگرام میں معاونت کا الزام، امریکا نے4 کمپنیوں پرپابندی لگا دی
- جرائم کی شرح میں اضافہ اور اداروں کی کارکردگی؟
- ضمنی انتخابات میں عوام کی سہولت کیلیے مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم
- وزیرداخلہ سے ایرانی سفیر کی ملاقات، صدررئیسی کے دورے سے متعلق تبادلہ خیال
- پختونخوا؛ صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے پر معطل کیے گئے 15 ڈاکٹرز بحال
- لاہور؛ پولیس مقابلے میں 2 ڈاکو مارے گئے، ایک اہل کار شہید دوسرا زخمی
کمزوری کی طاقت اور طاقت کی کمزوری (دوسرا اور آخری حصہ)
ہماری روزمرہ زندگی اورمعاشرے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو بچے جسمانی طور پر کچھ عیب دار یا معذورہوتے ہیں، لنگڑے، اپاہج، اندھے، کانے وغیرہ ان کے بارے میں کہاجاتاہے کہ ان میں ایک ’’رگ‘‘ زیادہ ہوتی ہے بلکہ کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ان میں فالتو رگ شیطان کی ہوتی ہے لیکن یہ غلط ہے۔
ایسے بچوں یا لوگوں میں نہ تو کوئی رگ زیادہ ہوتی ہے اور نہ برے ہوتے ہیں بلکہ دوسرے بچوں کی طرح معصوم ہوتے ہیں لیکن ان کو اپنی کمی اورکمزوری کااحساس ہوجاتاہے تو وہ اس کمی اورکمزوری کو کسی صلاحیت، صفت سے چھپاتے ہیں تاکہ لوگوں کی نظر ان کے عیب پر پڑنے کے بجائے اس صفت پر پڑے یا لوگوں کو اپنی صفت سے اتنا متاثرکرے کہ ان کے عیب چھپ جائیں ۔
تاریخ میں بھی ہم دیکھیں تو زیادہ تر نامورلوگ کسی نہ کسی شکل میں عیب دار ہواکرتے تھے، دنیا کا سب سے پہلا بڑا فاتح اور بڑی سلطنت بنانے والا ہنچامنشی فاتح کورش اعظم جیسے یونانی سائرس اورعرب خسرو کہتے ہیں۔
ایک معمولی ہنچامنشی گھوڑے پالنے والا کا بیٹا تھا اس وقت میڈیا مغربی ایران کاحکمران اسیاگ تھا اسے وہم ہوگیا تھا یا اس نے ایک خواب دیکھا تھا کہ اس کا بھانجا اسے مارکر حکومت چھین لے گاچنانچہ اس نے اپنی بہن ایک کمزوراور بے بضاعت ہنچامنشی کمبائس سے بیاہ دی تھی اورپھر اس کے بیٹے کو مارنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کسی طرح بچ گیا اوردورایک گڈریے کے ہاں بڑا ہوا۔
ہند والوں نے اسی کہانی کو اپنے اساطیری دیوتاکرشن کی کہانی بنایا ہوا ہے اور پھر جب کورش بڑاہوا تو استیاگ کو مار کر نہ صرف میڈیا پر قبضہ کیا بلکہ یونان سے لے کر سندھ، بلوچستان تک ایک عظیم سلطنت کا بانی ہوا بلکہ بابل کی مضبوط سلطنت اورشہرکو بھی فتح کیا ۔
سکندر کے ساتھ دوعیب یاکمزوریاں تھیں، ایک تو یونانی ہونے کی وجہ سے ایرانیوں کا زخم خوردہ تھا، دوسرے اس کی ماں اولمپیا اس کے باپ فلپ کو قطعی پسند نہیں کرتی تھیں لیکن فلپ نے زبردستی اسے بیوی بنایاتھا چنانچہ فلپ کاکہناتھا کہ سکندر اس کابیٹا نہیں بلکہ ناجائز ہے جب کہ اولمپیا نے بھی مشہورکیاتھاکہ سکندر فلپ کا نہیں بلکہ دیوتا زیوس کابیٹا ہے جس کی مجھ سے خواب میں ملاقات ہوئی تھی چنانچہ فلپ سکندرکو جانشین نہیں بناناچاہتا تھا لیکن اولمپیا نے سازش کرکے فلپ کو قتل کروا کر سکندر کو حکمران بنایا جس نے نامور ہونے کے لیے ایک بڑے فاتح کی حیثیت حاصل کرلی اورخود کوہیروبنایا ۔تیمورلنگڑا تھا۔
بابرکمزورتھا لیکن بڑی مثال چنگیزخان کی ہے۔ وہ ایک چھوٹے سے قبیلے کا فرد تھا اور اتنا کمزور تھا کہ مخالف قبیلہ اس کی بیوی بورتہ تک کو زبردستی چھین کر لے گیاتھااورایک سال بعد جب اس نے اسے بازیاب کیا تو وہ دشمنوں سے حاملہ تھی یہاں اس بدنام ترین شخص کے کردار کا ایک اور مثالی رخ بھی سامنے آتاہے کہ اس نے بیوی کو دل وجان سے قبول کرتے ہوئے کہا کہ اغواہونے میں اس بیچاری کا کیا قصور ہے بلکہ اس کے اس بیٹے کو بھی قبول کیا جو دشمنوں سے تھا، اسے اپنے بیٹے کی طرح پالا اور اپنی زندگی میں ایک الگ بڑی سلطنت کاخودمختار حکمران بنایا۔
لیکن اس کے فاتح اعظم ہونے کی وجہ ایک اورکمزوری تھی کہ علاؤالدین خوارزم شاہ نے اسے اپنی طاقت کے نشے یاکمزوری میں حقیر جان کر اس کے سفیروں کو قتل کرڈالا تھا۔
دنیا کی تاریخ میں کمزوری کو طاقت بنانے کی مثالیں بے شمار ہیں، ہمارے سامنے بہت چھوٹے چھوٹے لوگ اپنی کمزوری کو طاقت بناکر علم وہنرمیں اونچے مقامات پر پہنچ جاتے ہیں اور ٹھیک اسی طرح وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو طاقت کی کمزوری کاشکار ہوجاتے ہیں ،کمزوری کی طاقت کو لے کر۔
کورش، سکندر، دارائے اول، چنگیز اوربابر و تیمور بن جاتے ہیں اور پھر ان ہی کی اولاد طاقت کی کمزوری کاشکار ہوکر دارا سوم اور محمد شاہ رنگیلا اور بہادر شاہ ظفر بن جاتے ہیں۔بہت سارے جاگیردار اور بڑے بڑے روسا اورخوانین کی اولادیں طاقت کی کمزوری کی وجہ سے نالائق نااہل اورعیاشی اور تماش بینی میں اپنی جائیدادیں بیچ پیچ کر قلاش ہوجاتے ہیں اوران ہی کے کمی کمین پڑھ لکھ کر علم و ہنر حاصل کرکے وہ جائیدادیں خرید لیتے ہیں۔
ہمارے اردگرد مثالیں تو بہت ہیں لیکن ایک بہت بڑی مثال ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی ہے ،کسی پہاڑی علاقے سے ایک شخص آکر ایک بہت بڑے جاگیردار کا مزارع بن گیا،مالک نے رہنے کے لیے گڑگانی کا ایک کھنڈردیا وہ محنت کرتا رہا، پہلے اپنے مکان کامالک ہوا پھر چاربیٹوں کو ادھر ادھر کے کاموں میں ڈال دیاجو مختلف ہنرسیکھ کر مستری ،معمار، لوہار وغیرہ بن گئے۔
باہرکے ممالک میں جاکر کماؤ ہوگئے اور جاگیردارکے بیٹے تماش بینی کرتے کرتے منشیات کے عادی ہوگئے،آج اس جاگیردار کی تقریباً ساری زمین اس مزارع کے بیٹے خرید چکے ہیں، پچاس کے لگ بھگ اینٹوں کے بھٹے ہیں اور بلوجستان میں کوئلے کی کان خرید کر بھٹوں کو کوئلہ سپلائی کرتے ہیں۔
جاگیردار کی اولادیں زمین سے ہاتھ دھوچکی ہیں اور کرائے کی گاڑیاں خرید کر چلا رہے ہیں۔ یہ عروج و زوال کا سلسلہ اصل میں کمزوری کی طاقت اورطاقت کی کمزوری سے عبارت ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔