بجا کہتے ہیں

م ش خ  اتوار 8 جنوری 2023
meemsheenkhay@gmail.com

[email protected]

ہمارے سیاست دان ایک دوسرے پر مسلسل الزامات لگا رہے ہیں ، قوم کے کان پک گئے ہیں، ان کے فضول بیانات سن سن کر۔ ملک میں لاقانونیت ہے، لیکن انھیں اس کا احساس ہی نہیں بس انھیں اپنے سیاسی مفادات کی فکر ہے پچھلے دنوں ایک سینئر سیاسی رہنما کہہ رہے تھے کہ تمام نااہل ایک اہل کو نااہل کرانے میں لگے ہوئے ہیں۔

جناب ہمارے ملک میں اہلیت کا کوئی مقام نہیں ہے، ماضی میں جو نااہل تھے اب اہل ہوگئے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کی حکومت آجائے اور پھر بھی یہ حالات تو رہیں گے۔ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ حکومت نے معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے ، ارے جنازہ تو معیشت کا 25 سال سے نکل چکا وہ تو بھلا ہو آئی ایم ایف کا کہ بچے ہوئے ہیں مگر سیاسی طور پر کسی کو احساس نہیں ہے۔

مسلم لیگ (ن) کہتی ہے کہ جنوری میں پنجاب میں ہماری حکومت ہوگی بات پھر وہی بقا کی ہے کہ تخت و تاج ہمارے سروں پر رہیں، یہ سوال نہیں کیا گیا کہ پنجاب میں صادق آباد سے لے کر اسلام آباد تک عوامی مسائل کہاں تک حل کیے گئے ، اگر پی ٹی آئی پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑتی ہے تو پھر ہم الیکشن میں بھرپور حصہ لیں گے بات تو پھر بقا کی ہے۔

قوم کے مسائل حل کرنے کے بجائے کروڑوں روپے اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے لگا دیں گے اور قوم مسائل کی چکی میں پستی رہے گی یہ کسی المیے سے کم نہیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ اپوزیشن سے مذاکرات کرے تاکہ یہ روز روز کے سیاسی جھگڑے ختم ہوں، ادھر مسائل کے ٹوکرے سے مسائل نکال کر کیسے انھیں ختم کیا جائے قوم کو گلہ ہے کہ سندھ میں فلور ملز مالکان مہنگے داموں آٹا فروخت کرتے ہیں ، اس پر توجہ دینی چاہیے۔

اداروں کا برا حال ہے پراپرٹی ٹیکس دینے کے لیے قوم تیار ہے مگر ان کے فلیٹوں میں پراپر ٹیکس نہیں دیے جا رہے ، اس میں راقم شامل ہے اور جب آپ آفس کا رخ کرتے ہیں تو بڑے تکبر کے ساتھ آپ کا بل آپ کو ایکسٹرا چارجز کے ساتھ دے دیا جاتا ہے۔ اس میں صارفین کا کیا قصور ہے ؟ کوئی انھیں پوچھنے والا ہے ، جب ادارے نے بل بروقت نہیں دیا شریف شہری بل لینے کے لیے ٹیکس آفس جاتے ہیں تو انھیں بڑی مشکل سے بل دیا جاتا ہے ،کون سدباب کرے گا؟ سیاسی حضرات کو کوئی لینا دینا نہیں وہ اپنی بہتری کی جنگ زور و شور سے لڑ رہے ہیں۔

سود کے حوالے سے سیکڑوں مسائل ہیں قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اعلان کیا گیا آج تک اس پر عمل نہیں ہوا۔ بزرگ شہری سود کھا رہے ہیں اس پر ایک تفصیلی کالم عنقریب لکھوں گا اور ایک مسئلہ اردو زبان کے نفاذ میں تاخیر کا مسئلہ ہے، اس پر بھی روشنی ڈالوں گا کہ اردو کو نافذ نہ کرنے سے قوم کراچی سے لے کر خیبر تک ماہانہ لاکھوں روپے غیر ضروری خرچ کرتی ہے۔

المیہ تو یہ ہے کہ اہم افسران نے دوسرے ملکوں کی شہریت لے رکھی ہے تو سوچیں کہ ہم غیر ملکی شہری بھی ہیں جب تک پاکستان میں ہیں خیر ہے ملازمت پوری ہونے کے بعد ہم نے کون سا یہاں رہنا ہے ، ہاں پنشن باقاعدگی سے لیتے رہیں گے تو پھر ادارے تو کام کرنے سے رہے۔ دنیا میں اس وقت تقریباً 200 کے لگ بھگ ممالک ہیں ، ان میں ایک ملک ایسا بھی ہے جو روس سے کم ازکم 10 گنا چھوٹا ہے لیکن نہری نظام روس کے نہری نظام سے تقریباً 3 گنا بڑا ہے اور یہ ملک دنیا میں مٹرکی پیداوار کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔

خوبانی، کپاس اور گنے کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہے پیاز اور دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہے (قیمتوں کے حوالے سے پیاز اور دودھ کی قیمتوں سے عوام بہت دکھی ہے) آم کی پیداوار میں ساتویں، مالٹے اور کینو کے حوالے سے دسویں نمبر پر ہے۔ زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں 25 ویں نمبر پر ہے گندم کی پیداوار پورے براعظم افریقہ کی پیداوار سے زائد اور براعظم جنوبی امریکا کی پیداوار کے برابر کھڑے ہیں کوئلے کے ذخائر چوتھے تانبے کے ذخائر سے ساتویں نمبر پر ہیں، سی این جی کے حوالے سے اول نمبر پر ہیں۔

اس ملک کے گیس کے ذخائر ایشیا میں چھٹے نمبر پر ہیں (یہ بات دوسری ہے کہ گیس قوم کو گھنٹوں کے حساب سے ملتی ہے) یہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے جی اس خوش قسمت ملک کا نام پاکستان ہے۔ اب اس پر تفصیلی لکھنا بے کار ہے کہ ہمارے سیاسی جھگڑے ختم نہیں ہوتے تو پھر یہ بات کہہ کر بات ختم کی جائے کہ پاکستان زندہ باد ، کیا خوب اس موقع پر شاعر نے کہا ہے:

کرتے ہیں اہل زر ہی دسمبر پہ شاعری

کٹتی ہے رات کیسے یہ مفلس سے پوچھے

لارنس ڈال جنوبی سوڈان کے ارب پتی ہیں حکومت نے ان کی دولت کی تحقیقات شروع کی یہ اپنی دولت لے کر کینیڈا چلے گئے اور جاتے ہوئے ایک جملہ کہہ دیا ، حکومت کو چاہیے میرے ’’سورس آف غربت‘‘ کی بھی تحقیقات کرے جب میں جوبا شہر کے فٹ پاتھوں پر سوتا تھا ،کچرے سے چن کر روٹی کے ٹکڑے کھاتا تھا جو حکومت آپ کی غریبی کے ذرایع جاننے کی کوشش نہ کرے اسے کوئی حق نہیں کہ وہ آپ کی امیری کی تحقیقات کرے۔

سندھ اسمبلی کے اراکین کی تعداد 168 پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تعداد 371 خیبرپختونخوا کے اراکین کی تعداد 145 بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد 65 سینیٹ اراکین کی تعداد 104 ان سب کو آئین کے تحت مراعات ملتی ہیں۔ کیا قوم کے مسائل اتنی بڑی اسمبلی ہونے کے باوجود حل کیے جا رہے ہیں؟ گزشتہ 30 سال سے قوم مسائل کے بھنور میں ڈوبتی اور نکلتی ہے مگر مسائل اسی طرح قائم و دائم ہیں خدارا قوم پر توجہ دیں یہ قوم اب مایوسی کی کشتی میں سوار ہو چکی ہے۔

توجہ فرمائیں کہ آنے والا الیکشن ووٹ کے حوالے سے بہت سخت ہوگا ، ابھی سے کامیاب سیاسی پارٹیوں نے ہم جولی کا کھیل شروع کردیا جن کا ووٹ بینک ہارٹ کیک تھا وہ بھی صلح و صفائی کی باتیں کرکے یکجا ہو رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو تنقید کے میدان میں رکھنے والے اب اپنی بقا کے لیے اس میدان میں دوبارہ کامیابی کی امید لے کر یکجا ہو رہے ہیں کہ بس اسمبلی کی نشستیں ہمارا استقبال کریں کہ اس خودساختہ استقبال کے علاوہ ہمارا گزارا نہیں نئی حکومت کو بھی 11 ماہ ہونے والے ہیں عوامی مسائل کے لیے اپنے سلجھے ہوئے مسئلوں کے لیے ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے ہیں مگر قوم اب انٹرنیٹ پر ہے وہ آنے والے الیکشن میں حساب لے گی۔

گلاس پانی سے بھر چکا ہے اب باہر نکلنے والا ہے مگر ان سیاسی حضرات کی جوڑ توڑ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ،جنھوں نے ماضی میں کبھی اتحاد نہیں کیا وہ اپوزیشن کی وجہ سے اتحاد کر رہے ہیں اور یہ حال کراچی سے لے کر خیبر تک ہے ، اگر یہ مسائل پر توجہ دیتے تو کبھی اس امتحان میں نہ پڑتے۔ اب آنے والا الیکشن ایک بڑا سیاسی امتحان ہوگا کون کون اچھے نمبروں سے پاس ہوگا یہ وقت بتائے گا اب وقت ہے کہ سیاست دان قوم کے مسائل پر توجہ دیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔