علم بین الاقوامی تعلقات عامہ کیا ہے؟

جبار قریشی  اتوار 8 جنوری 2023
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

علم بین الاقوامی تعلقات عامہ ایک سیاسی اصطلاح ہے ، جس کا تعلق ریاستوں کے درمیان قائم کیے جانے والے تعلقات کے تمام سیاسی، ثقافتی، معاشی اور سماجی پہلوؤں سے ہے ، یعنی بین الاقوامی تعلقات عامہ مختلف ممالک کے بے شمار افراد ، تجارتی تنظیمیں ، ثقافتی اداروں اور سیاسی شخصیات کے درمیان رابطوں کا نام ہے۔

اس علم کو وسیع تناظر میں سمجھنے کے لیے ہمیں اس علم میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کو سمجھنا ہوگا۔ اس علم کی سب سے اہم اصطلاح خارجہ پالیسی ہے۔ خارجہ پالیسی ان اصولوں اور قواعد کا مجموعہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر کوئی آزاد ملک دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرتا ہے یعنی ریاستیں اپنے مخصوص میں اپنے قومی مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے دوسری ریاستوں سے تعلقات قائم کرنے کے لیے جو طرز عمل اور رویہ اختیار کرتی ہیں، انھیں ریاست کی خارجہ پالیسی کا نام دیا جاتا ہے یہ پالیسی ریاست کے ذمے دار افراد اور حکمران بناتے ہیں۔

دوسری اہم اصطلاح ڈپلومیسی ہے کسی ناپسندیدہ کام کو اس طرح کیا جائے کہ وہ پسندیدہ بن جائے اس مفہوم کو ڈپلومیسی کے معنی میں لیا جاتا ہے لیکن علم سیاست میں اس کا مطلب سفارت کاری کے ہیں۔ اصطلاح میں یہ وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت ریاستوں کے درمیان گفت و شنید کے ذریعے تعلقات کو قائم اور برقرار رکھا جاتا ہے۔ اس عمل کو ڈپلومیسی کا نام دیا جاتا ہے یعنی ڈپلومیسی وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے خارجہ پالیسی پر عمل درآمد کیا جاتا ہے جس کو سفارتی نمایندوں کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔

عالمی سیاست میں ایک اصطلاح قومی مفاد کی استعمال کی جاتی ہے ، قومی مفاد ایک ایسی حالت ہے جس کی قیمت فقط اس قوم کو پہنچنے والے فائدے پر لگی ہے۔ یعنی قومی مفاد ایک ایسا تصور ہے جسے اقوام عالمی ماحول کو اپنے فائدے کے مطابق متاثر کرنے کی کوشش میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ عالمی سیاست میں نہ کوئی دائمی دشمن ہوتا ہے اور نہ دائمی دوست اس میں قومی مفادات کو اولیت حاصل ہوتی ہے ہر ریاست اپنے قومی مفادات کو اولیت دیتی ہے۔ جس طرح ایک معاشرے میں اخلاقی قواعد و ضوابط مقرر ہیں۔ اسی طرح اقوام عالم کی برادری میں بھی اخلاقی قواعد و ضوابط طے شدہ ہیں ان قواعد و ضوابط کے مجموعے کو بین الاقوامی قانون کا نام دیا جاتا ہے یعنی بین الاقوامی ساری دنیا میں انسانی تعلقات سے متعلق ضابطوں کا احاطہ کرتا ہے جس پر عام طور پر انسانیت عمل کرتی ہے۔

عالمی سیاست میں ایک اصطلاح بین الاقوامیت کی استعمال ہوتی ہے ، یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کے تحت فرد اپنے آپ کو صرف اپنی مملکت کا شہری تصور نہیں کرتا بلکہ پوری دنیا کا شہری سمجھتا ہے اور وہ فکر عمل کا ایسا طریقہ اختیار کرتا ہے جس کا مقصد دنیا کی قوموں کے درمیان امن و اشتراک پیدا ہو سکے۔

لفظ ’’طاقت‘‘ سائنسی اصطلاح میں Power اور Energy معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن عالمی سیاست میں اس کا وسیع مفہوم ہے اس میں کسی ملک کی جغرافیائی حیثیت (محل وقوع) افرادی قوت، قدرتی وسائل، فوجی تنظیم، نظام حیات، معیار تعلیم، قومی اور اخلاقی کردار، آبادی، ٹیکنالوجی وغیرہ اس ملک کی طاقت کے مفہوم میں آتے ہیں۔

عالمی سیاست میں ایک اصطلاح سامراجیت Imperialism کی استعمال کی جاتی ہے۔ اس سے مراد کسی طاقتور ریاست کسی کمزور ریاست کے کسی علاقے یا علاقوں پر ناجائز تسلط ہے جس کے ذریعے اس علاقے یا علاقوں کے وسائل وہاں کے عوام کی مرضی کے بغیر استعمال میں لا کر اپنے باشندوں کا معیار زندگی بہتر بنانا ہے۔

یہ ایک ایسا نظام ہے جس کے تحت کئی وحدتیں ایک مرکزی اقتدار کے ماتحت ہوں سرمایہ داری نظام میں جب نظام معیشت میں اشیا کی پیداوار ملکی ضروریات سے بڑھ جاتی ہیں تو طاقت ور ریاستیں دور دراز علاقوں پر اپنا سیاسی اقتدار قائم کرتی ہیں تاکہ انھیں ان علاقوں کی محفوظ منڈیاں مل جائیں اسی کو سامراجیت کا نام دیا جاتا ہے۔

عالمی سیاست میں نو آبادیات Colonialism کی بھی استعمال ہوتی ہے یہ سامراجیت کا پیش کردہ ایسا نظام ہے جس کے تحت کچھ افراد کسی دوسرے ملک کے کسی خطہ اراضی پر غالب انداز سے قبضہ کرکے وہاں کی مقامی آبادی کی بڑی تعداد کو بنیادی شہری حقوق سے محروم کرکے سیاسی غلبہ حاصل کرتے ہیں۔ پھر سیاسی غلبے کے ذریعے وہاں کے عوام کا معاشی استحصال کرکے اپنے مقاصد کے حصول کی تکمیل کرتے ہیں۔

پروپیگنڈا کا لفظ ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ پروپیگنڈا سے مراد وہ مخصوص طریقہ کار ہے جس کے تحت مختلف ذرایع ابلاغ کی مدد سے لوگوں کو مخصوص نقطہ نظر قبول کرنے کی جانب مائل کیا جاتا ہے۔ یعنی پروپیگنڈا کسی مخصوص مفاد کے حصول کے لیے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کا نام ہے، اس میں نصف سچائی کو پوری صداقت بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور لفاظی اور مبالغہ آرائی کی مدد سے طے شدہ منطقی نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔

جنگ کا لفظی مفہوم لڑائی کے ہیں عالمی سیاست میں جب جنگ کا مفہوم آتا ہے تو اس کا مطلب دو یا دو سے زائد ممالک کے مابین فوجی لڑائی کے سمجھے جاتے ہیں جس کا مقصد فریقین ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرکے اپنی پسند اور ناپسند کے فیصلے مسلط کریں یعنی فتح پانیوالا فریق دوسرے فریق پر اپنی شرائط کے ذریعے امن و امان کا سلسلہ طے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

جب دو مخالف قوتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتی ہیں اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں اس جنگ کو انگریزی میں Cold War کہتے ہیں۔ اس جنگ میں اسلحہ استعمال نہیں ہوتا۔ اسے اردو میں سرد جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ ریاستوں کا وہ مخصوص طرز عمل جو وہ دو یا دو سے زیادہ ریاستوں کے درمیان جنگ کے موقع پر جنگ میں مداخلت نہ کرنا اپنے آپ کو الگ رکھنا اور کسی کا ساتھ نہ دینا اس طرز عمل کو سیاسی اصطلاح میں غیر جانب داری کا نام دیا جاتا ہے۔

عالمی سیاست میں ایک اصطلاح توازن طاقت کی استعمال ہوتی ہے۔ توازن طاقت سے مراد ریاستوں کے درمیان طاقت کی ایسی تقسیم ہے کہ ایک ریاست کو دوسری ریاست کے خلاف جارحیت کرنے کی ہمت نہ ہو ، یعنی عالمی اقوام کی برادری کے رکن کے درمیان طاقت کا ایک منصفانہ توازن ہے جو ان میں سے کسی رکن کو اتنا مضبوط ہونے سے روک سکے کہ وہ اپنی مرضی دوسرے پر مسلط نہ کرسکے۔

بعض پڑھے لکھے افراد علم عالمی سیاست اور علم بین الاقوامی تعلقات کو ہم معنی سمجھتے ہیں جوکہ غلط ہے علم عالمی سیاست میں ریاستوں کے مابین تعلقات میں صرف سیاسی امور کو ہی زیر بحث لایا جاتا ہے جب کہ علم بین الاقوامی تعلقات علم عالمی سیاست کے مقابلے میں ایک وسیع اصطلاح ہے اس میں ریاستوں کے مابین سیاسی اور غیر سیاسی مثلاً تجارت، ثقافت اور دیگر اکائیوں کے مابین تعلقات کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔