بے خطر کود پڑے

زاہدہ حنا  اتوار 8 جنوری 2023
zahedahina@gmail.com

[email protected]

2021 اور 2022 کیسے کیسے عزیزدوست اور کتنے بے بہا ادیب اوردانشور سمیٹ کر لے گیا۔ ہر روز معلوم ہوتا ہے کہ فلاں بھی چلا گیا اور فلاں بھی۔

یقین نہیں آتا کہ یہ لوگ جو کل تک اہلے گہلے پھر رہے تھے، وہ اب تہ خاک سوتے ہیں۔ میں بھی فروری 2022 کے ابتدائی دنوں میں عدم آباد کو جانے والی نائو میں قدم رکھ ہی رہی تھی کہ پرما ، فینی (میری نواسی اور بیٹی) اور بیٹے زریون نے غدر مچا دیا اور مجھے سی ایم ایچ اور دوسرے اسپتالوں میں لیے پھرے ، وہ بھی کیا دن تھے۔ ہوش آیا تو اندازہ ہوا کہ کئی دن گزرچکے ہیں اور بچوں کی صورت نظر نہیں آئی ہے۔

میں نے ڈاکٹروں اور نرسوں سے پوچھا تو انھوں نے کچھ مبہم سی بات کی۔ میں نے اعلان کردیا کہ آپ لوگوں نے میرے بچوں کو قتل کردیا ہے اور مجھے خدا جانے کہاں بند کردیا ہے ، وہ آئسولیشن روم تھا۔ آخرکار انھوں نے موبائل پر بچوں سے بات کرائی۔ اسی دوران پاکستانی کشمیر سے عاطف حیات گو تم لوٹ آئے، ندیم اختر، عارف عباسی خیرخیریت پوچھتے رہے۔

فروری 2022 سے جنوری 2023 گیارہ مہینے۔ ایک لمبی بلکہ بہت طویل کہانی ہے۔ بچوں نے دوستوں نے بلکہ کچھ دشمنوں نے بھی کہا کہ اپنے گناہوں سے زیادہ بھاری آپ جو اپنے لکھے ہوئے کاغذوں کا انبار چھوڑے جا رہی ہیں، اس کا کچھ کرجائیے ورنہ آپ کا سوئم بعد میں ہوگا، کاغذوں کے اس انبار کی ہولی پہلے جلے گی۔ یہ مناظر میں دیکھ چکی ہوں۔ اس لیے گھبرا کر میں نے اپنے کچھ مضامین سمیٹنے شروع کر دیے۔ قرعۂ فال سب سے پہلے ان مضامین کے نام نکلا جو وقتاً فوقتاً میں اردو، ہندی، بنگلہ اور انگریزی کے ادیبوں کے لیے لکھ چکی ہوں۔

دریں اثناء صغریٰ مہدی کی ایک کتاب ’’ بے خطر کود پڑے ‘‘ نگاہوں کے سامنے آگئی۔ وہ ہندوستان کے ادبی حلقوں میں ایک جانا پہچانا نام تھیں۔ ہمارے یہاں میٹرک اور انٹر پاس طالب علم ہوسکتا ہے انھیں ’’مراۃ العروس‘‘ کی اصغری کے کھاتے میں ڈال دے۔ وہ آزادی سے پہلے کے ایک نامی گرامی ادبی اور سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، خود بھی وہ ایک افسانہ نگار، دانشور اور سماج سدھار کے کاموں میں مصروف رہیں۔

جو میرے وہ راجا کے نہیں، پابہ جولاں ، دھند ، جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو ، راگ بھوپالی، ان کی ادبی کاوشیں تھیں۔ اس کے علاوہ ماریشس اور امریکا کے سفرنامے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ۔ وہ جامعہ ملیہ میں پروفیسر رہیں۔ ادبی محفل میں آتیں تو اس کی رونق دوبالا ہوجاتی۔ ساہتیہ اکیڈمی کے اردو بورڈ میں ایڈوائزر رہیں۔ اسی طرح ہریانہ اکیڈمی اور دوسرے اہم علمی اور ادبی ا داروں سے وابستہ رہیں۔ امتیاز میر ایوارڈ ، دہلی اردو اکیڈمی ایوارڈ اورکئی دوسرے اعزازات ان کے حصے میں آئے۔

ان کے مزاحیہ مضامین کا ایک مجموعہ ’’ بے خطر کود پڑے‘‘ (میدان طنز و مزاح میں ہم) اس وقت نظر کے سامنے ہے۔ یہ انھوں نے مجھے 29 جنوری 2011 کو لکھ کر دیا تھا اس میں ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر اقبال مہدی کا ابتدائیہ بھی شامل ہے۔ اس کے چند جملے پڑھیے۔ ’’ ادھر ادھر گھوم کر آیا تو دیکھا پروفیسر ساڑیوں کے بنڈل لیے کھڑی ہیں اور لابی میں بیٹھے ایک حضرت سے کہہ رہی ہیں بھائی صاحب یہ 500 کی ساڑی ہے مگر آپ تین میں لے لیجیے ،آپ کی وائف کو پسند آئے گی اور وہ صاحب حیرت سے پروفیسر کو تک رہے ہیں۔

میرے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی، میں نے جھپٹا مارا اور پروفیسر کے ہاتھ سے بنڈل چھینا ، وہ ساڑی سمیٹی جو انھوں نے میز پرگاہک کو رجھانے کے لیے پھیلا رکھی تھی اور اپنے کمرے میں واپس آگیا۔ تھوڑی دیر میں پروفیسر سہمی ہوئی معصوم بچے کی طرح کمرے میں داخل ہوئیں۔ حد کرتی ہیں ، ذرا اپنی عزت کا خیال ہے نہ دوسرے کا ’’ اس میں حرج ہی کیا، میں ان سے بھیک تو نہیں مانگ رہی تھی ، بھئی اپنی چیز ہی تو بیچ رہی تھی۔‘‘ اتنی چیزیں خریدی ہی کیوں جائیں کہ ان کو بیچنے کی نوبت آئے۔

بھئی اب غلطی ہوگئی۔ بلکہ غلط فہمی ہے۔ سوچا تھا تم ضرور پیسے بچالو گے۔

اب مجھے ان پر رحم آگیا۔ اچھا اب کچھ نہ بیچنے نکلیے گا۔ میرے پاس تین سو روپے ہیں۔ یہ بتانا ضروری تھا کہ پروفیسر مطمئن ہوکر بار بار ڈنر لنچ اور کافی کا آرڈر نہ دیں اور اسٹیشن پر چیزیں بیچنے والوں کی بکری نہ ہونے پر فکرمند نہ ہوں ،کیونکہ یہ بھی تو ہوتا ہے دیکھو یہ بے چارے ہر گاڑی کے ساتھ دوڑتے ہیں یہاں سے وہاں۔

تھوڑی دیر پروفیسر سہمی رہیں مگر پھر حسب عادت بھول بھال کر چہک رہی تھیں اور سفرنامہ کے لیے جو نوٹس لیے تھے ان کو پڑھنے لگیں۔ ان کا ایک پرلطف مضمون ’’ مہمان ‘‘ ہے۔ ہندوستان میں ہر شخص فلمی شخصیات کا دیوانہ ہے۔ ایسے ہی ایک اسٹار ’’ یاسر خان ‘‘ بن بلائے مہمان کی طرح ان کے گھر آجاتے ہیں ، پھر جو ہوتا ہے وہ آپ صغریٰ مہدی کی زبانی سنیے۔

ہمارے گھر کے باہر باہر شور و غل کی آوازآئی اور ہم لوگ گھبرا کر گیلری میں کھڑے ہوئے تو دیکھا کہ ہمارے گھرکے باہر ایک بڑی سی کار کھڑی ہے اور لوگ یاسر خان زندہ باد کے نعرے لگارہے ہیں۔ رات کا وقت تھا۔ ’’ارے وہ تو آگیا ، اب کیا ہوگا۔‘‘ ہماری بھتیجی نے کہا۔ ’’ تو کیا ہوا ؟ جائو جا کر لے کر آئو‘‘ کہہ کر ہم نے اپنے ڈرائنگ روم پر ایک نظر ڈالی کہ اس طرح کہ وہ اس کے بیٹھنے کے قابل بھی ہے اور جلدی جلدی اسے ٹھیک کرنے لگے۔ پھر جھانک کر دیکھا کہ ہماری بھتیجی اور اس کے میاں مجمع کو چیڑ پھاڑ کر مہمان تک پہنچنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔

لوگ یاسر خاں زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے اور ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ اچھے بڑی عمر کے معزز لوگ جو بند شیشے کی کار سے گزرتے ہیں کہ لوگوںکے سلاموں کے جواب نہ دینے پڑیں۔ وہ نوجوان لوگوں کی اوٹ میں کھڑے تھے اور چند داڑھی والے حضرات بھی اپنے گھروں کی چھت پر کھڑے مہمان کا دیدار کر رہے تھے۔

ہم خوف زدہ تھے کہ کہیں مالک مکان آکر رنگ میں بھنگ نہ ڈال دیں کہ دیکھا ہمارے مالک مکان مٹھائی کا ڈبہ لیے کھڑے تھے اور ساتھ میں ان کے دونوں لڑکے تھے۔ بھئی یہ لوگ یاسر خان سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہم نے کہا بھئی کیوں نہیں تمہارا ہی گھر تو ہے۔ ابھی ہم ان کو اچھی طرح ویلکم بھی نہیں کرپائے تھے کہ سامنے کا دروازہ کھلا۔ ہمارے سامنے رہنے والے پڑوسی کہہ رہے تھے کہ آنٹی ہم آجائیں۔ ہم نے کہا ضرورآجائیے۔

غرض کہ تھوڑی دیر کے بعد ہمارا گھر لوگوںسے بھرا تھا۔ یاسر خان لوگوں میں گھرے نیچے کھڑے تھے۔ پولیس بلالی گئی تھی۔ اس کی مدد سے وہ اوپر آئے تو ہمارے گھر میں جمع لوگوں نے گھیرلیا۔ ہماری بھتیجی ہمارا ان سے تعارف کرانے کی کوشش کرتی رہیں مگر کامیاب نہیں ہوئیں۔ وہ دروازے سے سلام کر کے چلے گئے۔ بعد میں فون پر انھوں نے بہت معذرت کی۔ صبح اٹھتے ہی دروازے کی گھنٹیاں بجنی شروع ہوگئیں۔ آنٹی آپ کے یہاں رات کو یاسر خاں آئے تھے۔ ہم ان سے نہیں مل پائے۔ آنٹی ہمیں ان سے ملادیجیے اور تو اور ہمارے پڑوس میں ایک ڈاکٹر صاحب ہیں جن سے ہم علاج نہیں کراتے۔

کبھی ان سے بلڈپریشر لینے کی درخواست کرتے ہیں، تب وہ بہت جزبز ہوتے ہیں۔ اکثر کوئی بہانہ کر کے ہمیں ٹال بھی دیتے ہیں مگر اب وہ خود بلا کر ہمارا بلڈپریشر دیکھتے ہیں۔ مگر ساتھ میں یہ فرمائش بھی کہ ان کے بچے یاسر خان سے ملنے کو بے قرار ہیں۔ ہمیں یہ فکر لاحق ہے کہ ہر ایک سے جو ہم نہایت ہی شان سے سب کو یاسر خان سے ملوانے کا وعدہ کر رہے ہیں، اس کو کیسے پورا کریں گے۔

ان کے مزاحیہ مضامین کا یہ مجموعہ اتنا دلچسپ ہے کہ جی چاہتا ہے سناتے ہی چلے جائیں لیکن کالم کی اپنی محدودات ہوتی ہیں۔ اس لیے اس اقتباس پر بس کرتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ صغریٰ آپا اگر کاغذ و قلم ساتھ لے گئی ہوں گی تو وہ ہمارا ’’استقبال‘‘ کن جملوں سے کریں گی۔ اس لیے کہ جانا تو ہمیں بھی وہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔