سیفی کی دروازہ توڑ انٹری

سلیم خالق  اتوار 8 جنوری 2023
کپتان کی انٹری ویسے ہی تھی جیسے شاہ رخ خان اور امیتابھ بچن اپنے مداحوں کو گھر سے ہی اپنا دیدار کراتے ہیں۔ فوٹو انٹرنیٹ

کپتان کی انٹری ویسے ہی تھی جیسے شاہ رخ خان اور امیتابھ بچن اپنے مداحوں کو گھر سے ہی اپنا دیدار کراتے ہیں۔ فوٹو انٹرنیٹ

اب تو 5 سال بیت چکے مگر بفرزون کے رہائشی وہ دن کبھی نہیں بھول سکتے جب علاقہ سرفراز سرفراز کے نعروں سے گونج رہا تھا، ایسا ماحول بنا ہوا تھا جیسے ایم کیو ایم کے عروج کا کوئی جلسہ جاری ہو، پارک کے ساتھ والی گلی میں کھڑے ہونے کی جگہ نہ تھی ہر طرف قومی پرچم تھامے لوگ جمع اور نعرے لگا رہے تھے، ایسے میں گھر کی بالکونی سے سرفراز احمد ہاتھ میں چیمپئنز ٹرافی لیے نمودار ہوئے اور پھر تو اتنا شور مچا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔

کپتان کی انٹری ویسے ہی تھی جیسے شاہ رخ خان اور امیتابھ بچن اپنے مداحوں کو گھر سے ہی اپنا دیدار کراتے ہیں، فرق یہ ہے کہ سرفراز اداکار نہیں بلکہ کرکٹر ہیں، کھلاڑیوں کے مداح کارکردگی کے لحاظ سے زیادہ کم ہوتے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب وہ ٹیم سے باہر ہوئے تو دوستی کا دم بھرنے والے لوگ اور دیگر موقع پرست آہستہ آہستہ دور ہوتے گئے، پیٹھ پیچھے یہ باتیں بھی ہونے لگیں کہ سرفراز اب ماضی بن چکا۔

بفرزون کی اس گلی میں اب پہلے جیسی رونق واپس نہیں آئے گی لیکن قدرت کا بھی ایک نظام ہے،اگر آپ محنت کرتے رہیں تو صلہ ضرور ملتا  ہے، سرفراز کی ایک بڑی خوبی فائٹر ہونا ہے، ایسے حالات کا کسی دوسرے کھلاڑی کو سامنا کرنا پڑتا تو گھر بیٹھ چکا ہوتا لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔

میڈیا کے دوست کئی بار انھیں جوش دلاتے رہے کہ آج تو سیفی بھائی چیئرمین پی سی بی کیخلاف کچھ بول دیں، بابر اعظم آپ کے ساتھ ناانصافی کر رہا ہے اس پر تنقید کریں مگر میں نے ہمیشہ دیکھا کہ سرفراز نے مسکرا کر یہی جواب دیا کہ ’’ اگر میرے نصیب میں لکھا ہے تو ضرور کم بیک ہو گا‘‘ چار سال ٹیسٹ ٹیم سے باہر رہنے کے باوجود ہم ان کا کوئی ایک ایسا انٹرویو تلاش نہیں کر سکتے جس میں انھوں نے کسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہو، وہ صرف اپنے کھیل پر ہی توجہ دیتے رہے، کلب کا کوئی میچ بھی نہیں چھوڑا،اس دوران ندیم عمر اور اعظم خان ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔

کرکٹ ٹیم میں بولرز اور بیٹرز تو کئی ہوتے ہیں لیکن وکٹ کیپر ایک ہی کھیل سکتا ہے، بعض اوقات آپ کو ایک ہی دور میں دو بہترین کیپرز مل جاتے ہیں،ماضی میں راشد لطیف اور معین خان کے ساتھ بھی ایسا ہی تھا، ایک کھیلتا دوسرا باہر رہتا پھر جب دوسرے کو چانس ملتا تو وہ پرفارم کر کے ٹیم میں جگہ مضبوط بنا لیتا، پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ہمیں سرفراز کے ساتھ محمد رضوان جیسا بہترین وکٹ کیپر بھی مل گیا، جب سرفراز کھیلتے رہے تو طویل عرصے رضوان کو بینچ پر بیٹھنا پڑا،پھر انھیں موقع ملا تو بہترین پرفارمنس سے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

درمیان میں کئی مواقع آئے جب انھیں ریسٹ دیا جا سکتا تھا لیکن ٹیم مینجمنٹ نے ایسا نہ کیا یوں ایسا تاثر سامنے آیا کہ شاید سرفراز کو جان بوجھ کر ٹیم سے باہر رکھا جا رہا ہے، کچھ لوگوں نے اسے الگ ہی رنگ دینے کی بھی کوشش کی،شاید سرفراز کی محنت رائیگاں رہ جاتی اور انھیں دوبارہ صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہ ملتا لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا کی وجہ سے وہ نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوئے، ایسے میں رمیز راجہ کی بھی حکومت نے چھٹی کر دی۔

جو شخص سرفراز کے بارے میں یہ کہہ رہا تھا کہ ’’اب اس کا کیریئر تقریبا ختم ہو چکا‘‘ خود ان کا کیریئر ختم ہو گیا اور اب وہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کہہ کر واویلا مچا رہے ہیں، نجم سیٹھی اس وقت پی سی بی میں ہی تھے جب پاکستان نے سرفراز کی زیرقیادت چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی، وہ ان کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہیں، پھر شاہد آفریدی جیسا تگڑا چیف سلیکٹر آ گیا، انھوں نیسرفراز کو نیوزی لینڈ سے ہوم ٹیسٹ سیریز میں کھلانے پر زور دیا،اس کے بعد جو ہوا وہ سب نے دیکھا۔

سلمان خان کے انداز میں ان کی دروازہ توڑ انٹری ہوئی، چاروں اننگز میں سرفراز کا اسکور 50 سے زائد رہا، وہ 335  رنز بنا کر دونوں ٹیموں میں ٹاپ اسکورر رہے، کراچی میں سنچری بنا کر ٹیسٹ میں شکست سے بچایا، نہ صرف میچ بلکہ سیریز کے بھی بہترین کھلاڑی قرار پائے، گوکہ وکٹ کیپنگ میں غلطیاں کیں لیکن بیٹنگ زبردست رہی، اتنی اچھی فارم کے ساتھ انھیں وائٹ بال ٹیم کا بھی حصہ ہونا چاہیے تھا لیکن سلیکٹرز کی سوچ کچھ اور ہی ہے۔

یہاں میں شائقین کرکٹ سے کہنا چاہوں گا کہ سرفراز ہو یا رضوان دونوں ہی پاکستانی اور ہمارے بھائی ہیں، جو بھی کھیلے اسے سپورٹ کریں دوسرے کو تنقید کا نشانہ نہ بنائیں، غلطیاں کسی سے بھی ہو سکتی ہیں اس کی تضحیک نہ کریں، ساتھ سرفراز کے سپورٹرز بھی انھیں دوبارہ کپتان بنانے جیسی باتوں سے گریز کریں اس سے ٹیم کا ماحول خراب ہوگا،بعض پلیئرز میں عدم تحفظ کا احساس سرفراز کو پھر مشکل میں ڈال سکتا ہے، بابر اعظم قیادت کر رہے ہیں تو انھیں کرنے دیں،وہ وقت کے ساتھ سیکھیں گے اور ایک دن بہترین بیٹر کی طرح زبردست کپتان بھی بن جائیں گے۔

ویسے بھی رضوان کی موجودگی میں شان مسعود کو نائب کپتان بنا کر پی سی بی نے ٹیم کے ارباب اختیار کو اچھا پیغام نہیں دیا،میں اس فیصلے کی وجہ جانتا ہوں لیکن ابھی بتانا نہیں چاہتا،شان نے جس طرح ٹیسٹ سیریز میں غیرذمہ داری سے کئی بار وکٹ گنوائی شاید ابھی انھیں یہ ذمہ داری نہیں سونپنی چاہیے تھی،فارم کی وجہ سے اسکواڈ میں ان کی جگہ پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں، خیر اب یہ بورڈ کا کام ہے کہ ٹیم کا ماحول خوشگوار رکھے۔

سب کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے تاکہ مثبت نتائج سامنے آ سکیں، یہ ورلڈکپ کا سال ہے اور نیوزی لینڈ سے ون ڈے میچز بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں، عہدے آتے جاتے رہتے ہیں مگر وقت بدلتے دیر نہیں لگتی یقین نہ آئے تو سرفراز کی حالیہ ویڈیو سرچ کر کے دیکھ لیں۔

بفرزون کی وہ سونی گلی پھر سے سرفراز سرفراز کے نعروں سے گونج اٹھی ہے،جسے ریٹائرمنٹ کے مشورے دیے جا رہے تھے آج وہ پھر لوگوں کی آنکھ کا تارہ ہے،یہی دنیا ہے،قدم زمین پر رکھیں،تکبر سے دور رہتے ہوئے محنت کرتے رہیں تو صلہ ضرور ملتا ہے،کامیابی کو دماغ پر سوار کر لیں، دوستوں کو بھی دشمن بنا لیں تو پھر وہ وقت آتے دیر نہیں لگتی جب فرسڑیشن میں کہتے پھرتے ہیں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔