بی جے پی سرکار پر تنقید کرنیوالے چینل ’’این ڈی ٹی وی‘‘ کو مودی کے دوست نے خرید لیا

ویب ڈیسک  اتوار 8 جنوری 2023
معروف صحافی رویش کمار نے اپنے آرٹیکل میں حکومت پر تنقید کے نشتر چلادیئے (فوٹو: ٹوئٹر)

معروف صحافی رویش کمار نے اپنے آرٹیکل میں حکومت پر تنقید کے نشتر چلادیئے (فوٹو: ٹوئٹر)

نئی دہلی: مودی حکومت پر کُھل کر تنقید کرنے والے بھارت کے معروف صحافی رویش کمار نے اپنے آرٹیکل میں انکشاف کیا ہے کہ نیو دہلی ٹیلی ویثرن نیٹ ورک (این ڈی ٹی وی) کو دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص گوتم اڈانی نے خرید لیا ہے۔

الجزیرہ کیلئے لکھے گئے آرٹیکل میں بھارتی صحافی رویش کمار نے کہا کہ بھارت میں مودی حکومت کے خلاف مضبوط آواز سمجھے جانے والے نیوز چینل کو خرید کر آزادی صحافت اور جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔

انہوں نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ دنیا کے تیسرے سب سے امیر شخص گوتم اڈانی کی دولت میں اضافہ سال 2014 کے بعد سے ہوا یعنی نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد جبکہ وہ انکے قریبی ساتھی بھی ہیں۔ گوتم اڈانی کی دولت 2014 میں 7 ارب ڈالر سے 110 ارب ڈالر تک جاپہنچی۔

مزید پڑھیں: بھارت میں ہزاروں مسلمانوں کی گھروں سے بے دخلی روکنے کا حکم

رویشن نے اپنے آرٹیکل میں مزید کہا کہ گوتم اڈانی کے ذریعے مودی سرکار نے بھارتی میڈیا کی آخری بڑی آزاد آواز پر بھی کنٹرول حاصل کرلیا ہے، جس سرمایہ دار کی کامیابی حکومتی کنٹریکٹس کے مرہون منت ہوں، وہ حکومت پر کیسے تنقید کرے گا؟۔ انہوں نے بھارت میں گودی میڈیا یعنی مودی کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کیلئے اصطلاح اپنائی تھی جو بہت مقبول ہوئی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے پاس پہلی ہی ملک کے کئی بڑے میڈیا چینلز ہیں، جہاں مودی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر زور و شور سے جاری رہتا ہے۔ مودی حکومت کے میڈیا پر غلبے سے دنیا بھر میں آزادی اظہار پر چند سرمایہ کاروں کے کنٹرول نے اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔

مزید پڑھیں: مودی سرکار کی مسلمانوں کے 5 گھر اور 3 مساجد کو مسمار کرنے کی تیاریاں مکمل

آرٹیکل میں مزید لکھا گیا ہے کہ امریکا، برطانیہ میں بھی میڈیا کا چند ارب پتیوں کے ہاتھ لگنا ماڈرن ڈیموکریسی کے لیے خطرہ سمجھا جارہا ہے تاہم اچھی صحافت کے لیے پیسہ بھی ضروری ہے مگر اسے آزادی بھی چاہیے۔

واضح رہے کہ 25 سال تک این ڈی ٹی وی سے وابستہ، حکمرانوں پر بے خوف تنقید سے معروف رویش کمار نے گوتم اڈانی کے مالک بننے پر مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔