آتش فشاں پہاڑ پر 6 گھنٹے میں بجلی کڑکنے کے 4 لاکھ واقعات ریکارڈ

ویب ڈیسک  پير 9 جنوری 2023
بحرالکاہل کے پاس ’ہونگا تونگا ہونگا ہاپائی‘ نامی آتش فشاں پہاڑ پر چھ گھنٹوں میں چار لاکھ مرتبہ آسمانی بجلی کڑکی جو ایک نیا ریکارڈ بھی ہے۔ فوٹو: فائل

بحرالکاہل کے پاس ’ہونگا تونگا ہونگا ہاپائی‘ نامی آتش فشاں پہاڑ پر چھ گھنٹوں میں چار لاکھ مرتبہ آسمانی بجلی کڑکی جو ایک نیا ریکارڈ بھی ہے۔ فوٹو: فائل

  واشنگٹن: جنوری 2022 میں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا جب مشہور ہونگا ٹونگا آتش فشاں پہاڑ کی سرگرمی سے پانچ منٹ میں 25500 اور چھ گھنٹے میں کل چار لاکھ مرتبہ بجلی کڑکنے کے واقعات ریکارڈ ہوئے۔ یعنی دنیا بھر میں اس وقت میں آسمانی بجلی کے جتنے واقعات ہوتے ہیں اس کا نصف صرف اس پہاڑ پر دیکھا گیا تھا!

جنوبی بحرالکاہل میں واقع ٹونگا جزائر کے سلسلے میں موجود ایک زیرِآب سرگرم آتش فشاں موجود ہے جس کا پورا نام ’ہونگا تونگا ہونگا ہاپائی‘ ہے۔

جنوری 2022 میں اس سے گرم راکھ خارج ہوئی جس نے بلندی کا نیا ریکارڈ بنایا تاہم اب ایک سال تک ڈیٹا پر غور کرنے سے انکشاف ہوا ہے کہ اس دوران بجلی کی کڑک کےایسے نئے ریکارڈ بنے جنہیں دیکھ کر ماہرین انگشت بدنداں ہیں۔ اس عمل سے قریب کا پانی گرم ہوکر بخارات میں ڈھلا اور زمین کی اہم پرت اسٹریٹوسفیئر تک پہنچا۔ دوسری جانب آتش فشاں کی دل دہلا دینے والی سرگرمی سے صدماتی امواج دور دراز تک محسوس کی گئی تھیں۔

اس طرح بجلی کڑکنے کے جو واقعات رونما ہوئے اس نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ دنیا بھر میں بجلی کڑکنے کے واقعات شمار کرنے والی عالمی تنظیم ’ویسالا‘ کے مطابق دنیا میں بجلی کڑکنے کے جتنے واقعات ہوتے ہیں اس کا نصف اس آتش فشاں کے پاس نوٹ کیا گیا۔ ماہرین نے اسے تباہ کن قرار دیا ہے۔

ویسالا کے ماہر ڈاکٹر کرس ویگاسی کہتے ہیں کہ وہ 40 برس سے آسمانی بجلی کڑکنے کے واقعات نوٹ کرر رہے ہیں لیکن یہ غیرمعمولی شدید واقعہ تھا۔ 15 جنوری 2022 کو پورا پہاڑ بجلی کی آڑھی ترچھی لکیروں میں گھرا تھا۔

ویسالا کے مطابق 2022 میں دنیا بھر میں بجلی کڑکنے کےواقعات بڑھے اور صرف امریکہ میں ہی 19 کروڑ 80 لاکھ سے زائد مرتبہ بجلی کڑکی جو گزشتہ برس کے مطابق 40 لاکھ زیادہ تھی۔ واضح رہے کہ بجلی کڑکنے کے عمل سے اطراف کی فضا شدید گرم ہوجاتی ہے اور یوں اس سے گرمی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

اب آتش فشانی سرگرمی میں بجلی کے اخراج کے اس سلسلے کو آب و ہوا میں تبدیلی قرار دینے والے ماہرین دو حصوں میں بٹ چکے ہیں۔ تاہم دونوں اطراف کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔