ایک اور این آر او کی ضرورت

محمد سعید آرائیں  پير 9 جنوری 2023
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومت میں مسلسل کہتے رہے کہ’’ اپوزیشن رہنماؤں کو این آر او نہیں دوں گا، نہیں دوں گا خواہ مجھے اقتدار ہی کیوں نہ چھوڑنا پڑے۔‘‘ اپوزیشن رہنما ان سے پوچھتے رہے کہ ہم میں سے این آر او کس نے مانگا ہے یہ تو بتا دیں؟

کسی ایک کا ہی نام سامنے لائیں جس نے آپ سے این آر او کے لیے رابطہ کیا ہو مگر عمران خان نے اپوزیشن کو جواب ہی نہیں دیا بلکہ اپنی این آر او نہ دینے کی رٹ برقرار رکھی اور اب اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان مسلسل کہہ رہے ہیں کہ میاں شہباز شریف کو این آر او دے کر وزیر اعظم بنوایا گیا ہے۔

ملک میں پہلا این آر او اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے دیا تھا جو ان کی سیاسی ضرورت تھا ، انھوں نے نواز شریف پر بے نظیر بھٹو کو ترجیح دی تھی۔

2008 میں جنرل پرویز مشرف اقتدار کی محرومی سے قبل مزید صدر رہنا چاہتے تھے جس کی پلاننگ کے لیے ہی انھوں نے یو اے ای جا کر بے نظیر سے مذاکرات کیے تھے جس کے بعد این آر او کا اعلان کیا تھا جس سے بے نظیر بھٹو، پی پی اور متحدہ کے رہنماؤں سمیت بڑی تعداد میں مقدمات ختم کیے گئے تھے اور دوسروں کو بھی فائدہ ہوا تھا۔

اس وقت جنرل پرویز مشرف ملک کے مطلق العنان حکمران تھے عمران خان جیسے کمزور وزیر اعظم نہیں تھے اور این آر او دینے کا اختیار رکھتے تھے جو ان کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے غیر قانونی قرار دیا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان کو تو کسی کو این آر او دینے کا قانونی اختیار ہی نہیں تھا وہ تو خود این آر او لے کر وزیر اعظم بنے تھے اور ان کی حکومت میں جنرل پرویز مشرف سے این آر او لینے والے بھی شامل تھے۔

جنرل پرویز مشرف نے سیاسی مفاد کے لیے نیب بنوایا تھا جس کے ذریعے اپنے تمام سیاسی مخالفین پر مقدمات بنوائے تھے اور جنرل پرویز مشرف کی نیب کا عمران خان نے اپنے اقتدار میں خوب استعمال کیا اپنے تمام مخالفین گرفتار کرائے جو طویل اسیری کے بعد عدالتوں سے پہلے ضمانتوں پر بری اور بعد میں باعزت رہا ہوئے جب کہ جنرل پرویز مشرف کو اپنے سیاسی مخالفین کو این آر او دے کر رہا کرنا پڑا تھا کیونکہ وہ سب جھوٹے تھے۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مخالفین پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے ،ایسے ہی الزامات عمران خان نے لگائے مگر دونوں ہی کے الزامات بغیر ثبوت اور صرف سیاسی انتقامی کارروائی کے لیے تھے۔

عمران خان نے جنھیں کرپٹ قرار دے کر ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کے بڑے بڑے دعوے کیے تھے مگر کسی سے ایک پیسہ وصول کرسکے نہ ان کی مبینہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جاسکی مگر عمران خان کہتے رہے کہ کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔

پرویز مشرف اور عمران خان میں یہ فرق تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مخالفین کو بغیر مانگے این آر او دیا اور عمران خان سے بھی کسی نے این آر او نہیں مانگا تھا اور نہ ہی مہربانوں کے ذریعے اقتدار میں آنے والے وزیر اعظم عمران خان کو کسی کو این آر او دینے کا اختیار حاصل تھا مگر این آر او نہیں دوں گا کی رٹ مسلسل جاری رہی اور اب وہ دوسروں پر الزام لگا رہے ہیں مگر یہ تسلیم نہیں کر رہے کہ وہ خود 2017 میں مہربانوں کے این آر او سے فیض یاب ہوچکے ہیں۔

ملک میں قیام کے بعد سے ہی سیاسی انتقامی کارروائیاں جاری ہیں۔ غلام محمد اور اسکندر مرزا کی گورنر جنرلی میں انتقامی طور پر وزرائے اعظم برطرف ہوتے رہے۔

جنرل ایوب خان کے دور میں ایبڈو کے تحت مخالف سیاستدانوں پر پابندیاں لگائی گئیں۔ جنرل ضیا الحق حکومت سے قبل وزیر اعظم بھٹو نے بھی اپنے تمام مخالف سیاستدانوں کو گرفتار کرکے تشدد کرایا تاکہ ان کی نظام مصطفیٰ تحریک ناکام ہو اور ان کا اقتدار بچا رہے۔

اسی بنیاد پر جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانے کا موقعہ ملا اور انھوں نے پی پی جیالوں کو غیر سول عدالتوں سے سزائیں دیں اور خود بھٹو کو پھانسی چڑھنا پڑا جس کے بعد جنرل پرویز مشرف کے آنے تک بے نظیر بھٹو اور نواز شریف حکومتوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنوائے گئے جنھیں جنرل پرویز مشرف نے (ق) لیگ حکومت بنوانے کے لیے این آر او دے کر ان کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔

سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں میں بنتے اور ختم کرائے جاتے رہے جو این آر او کی ہی شکل تھی مگر مشہور جنرل مشرف کا این آر او ہوا۔

اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان اشتعال میں الزام تراشی کرتے رہے اور ان پر ممنوعہ فنڈنگ اور توشہ خانہ کے حقیقی مقدمات بنتے رہے جو الیکشن کمیشن نے بنائے مگر اتحادی حکومت پھر بھی عمران خان کو رعایت دیتی رہی جس کا اعتراف خود اتحادی بھی کر رہے ہیں مگر عمران خان سے خوفزدہ اتحادی حکومت ان پر بڑے مقدمات بنوا سکی نہ ان کے لیڈر سیاسی بنیاد پر گرفتار ہوئے اور حکومت مخالف سیاستدانوں کے  بیانات تک نہیں روک سکی۔

عمران خان اپنی قومی نشست سے الیکشن کمیشن کے ہاتھوں نااہل ہوچکے اب عدالتوں میں مقدمات بھی شروع ہو چکے ہیں ، عمران خان عدالتی سزاؤں سے بچنے کے لیے جلد انتخابات چاہتے ہیں جو حکومت کبھی نہیں کرائے گی۔

پی ٹی آئی اس آڑ میں دوبارہ احتجاجی تحریک شروع کر رہی ہے تاکہ عمران خان کو بھی حکومت این آر او دینے پر مجبور ہو جائے اور عمران خان کو مانگے بغیر تحفظ کے لیے ایک اور این آر او مل جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔