ڈیڑھ سال گزر جانے کے باوجود سانحہ بلدیہ فیکٹری کا معمہ حل نہ ہو سکا

راحیل سلمان  ہفتہ 5 اپريل 2014
ذمے داروں کاتعین ہوانہ ہی آگ لگنے کی وجہ پتہ چل سکی،فیکٹریوں میں تاحال حفاظتی اقدامات نہیں ہیں،سانحہ ذہنوں پرانمٹ نقوش چھوڑگیا  فوٹو: اے ایف پی / فائل

ذمے داروں کاتعین ہوانہ ہی آگ لگنے کی وجہ پتہ چل سکی،فیکٹریوں میں تاحال حفاظتی اقدامات نہیں ہیں،سانحہ ذہنوں پرانمٹ نقوش چھوڑگیا فوٹو: اے ایف پی / فائل

کراچی: سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو پاکستان کانائن الیون کہاجائے توبے جا نہ ہوگا ۔11 ستمبر 2012 کوبلدیہ ٹاؤن میں قائم گارمنٹس فیکٹری’’علی انٹرپرائزز‘‘میں لگنے والی خوفناک آگ 259افراد کو نگل گئی جن میں خواتین اوربچے بھی شامل تھے۔

آگ حادثاتی طور پرلگی یا کسی نے جان بوجھ کر لگائی یہ معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا،11 ستمبرکی شام لگنے والی آگ نے آناًفاناً پوری عمارت کولپیٹ میں لے لیا اور عمارت کے بیسمنٹ سے اوپرکے فلورزتک پہنچ گئی ،عمارت بیسمنٹ ، گراؤنڈ ، فرسٹ اور سیکنڈ فلور پر مشتمل ہے ،کئی افراد نے آگ سے بچنے کے لیے عمارت کی کھڑکیوں اورچھت سے چھلانگ لگائی لیکن ان کی یہ کوششیں بھی انھیں موت کے منہ میں جانے سے نہ بچاسکیں،دنیاکی دستیاب صنعتی تاریخ نے ایسی ہولناک آگ کبھی نہیں دیکھی گئی ،حادثے میں کسی کے سر سے باپ کا سایہ چھن گیااورکوئی ماں کے آنچل سے محروم ہوگیا ،کسی کا بھائی لقمہ اجل بنا تو کسی نے جوان بیٹے کوکاندھادیا،کئی سہاگنیں بیوہ ہوگئیں توکسی نے اپنے معصوم بچے کا آخری دیدار کیا،کسی نے اپنی بہن کولحد میں اتاراتوکسی نے اپنے عزیزکے یتیم ہوجانے والے بچوں کی کفالت کاذمے اٹھایا۔2روز تک فیکٹری میں سے لاشیں ہی نکالی جاتی رہیں ،امدادی کارروائیوں کے دوران عمارت کی بیسمنٹ میں اس حدتک پانی بھر گیا کہ عینی شاہدین نے بیسمنٹ میں کئی لاشیں پانی کی سطح پردیکھیں،مرنے والوں میں ہرایک کی اپنی ہی الگ داستان تھی،کئی تو اپنے کنبوں کے واحدکفیل تھے۔

کئی لاشیں اس حد تک مسخ ہوگئی تھیں کہ ان کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہوسکی، حکومت وقت نے دادرسی کے طورپرمرنے والوںکے لواحقین میں مالی امداد تقسیم کی اورحسب روایت واقعے کی تحقیقات کاحکم دیا، تحقیقاتی ٹریبونل بنا،تفتیشی افسران مقررکیے گئے،فیکٹری کے مالکان نے ضمانت قبل ازگرفتاری کرائی،بعدازاں وہ گرفتاربھی کیے گئے لیکن ڈیڑھ برس سے زائد کاعرصہ گزر جانے کے بعد بھی آج تک یہ ہی معلوم نہیں ہوسکاکہ فیکٹری میں آگ حادثاتی طور پرلگی تھی یا کسی نے جان بوجھ کرآگ لگائی،فیکٹری سے باہرجانے کے راستے بھی معدوم تھے جس کی وجہ سے حبس اورگھٹن کے باعث بھی کئی افرادنے دم توڑا۔ واقعے کے بعد حکومتی سطح پر بڑے بڑے دعوے کیے گئے کہ بلدیہ ٹاؤن حادثے کومدنظر رکھتے ہوئے انڈسٹریل ایریا میں ہر فیکٹری کے اندرحفاظتی انتظامات کی سخت جانچ پڑتال کی جائے گی،سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے بعد ہرفیکٹری میں آتشزدگی سے بچاؤ کے اقدامات اور دیگر انتظامات کا جائزہ لینے کے اعلانات بدقسمتی سے محض اعلانات تک ہی محدود رہے۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن تودہنوں پرانمٹ نقوش چھوڑ گیالیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اس سانحے سے کچھ نہیں سیکھا، تفتیش ڈیڑھ برس بعدایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔