- پاکستان سپر لیگ نے عالمی سطح پر اپنی شناخت بنالی ہے، نجم سیٹھی
- گلگت بلتستان میں 3 جدید سائنس لیبارٹریاں بنانے پر اتفاق
- سیالکوٹ میں شادی سے انکار پر پانچ بچوں کی ماں قتل
- حکومت اور اپوزیشن میں کوئی صلاحیت نہیں ہے، شاہد خاقان
- پیپلزپارٹی کا عمران خان کو قانونی نوٹس بھیجنے کا اعلان
- جعلی لیڈی ڈاکٹر بن کر ہراساں کرنے والا ملزم گرفتار
- ڈیرہ غازی خان میں سی ٹی ڈی کی کارروائی، دو دہشت گرد ہلاک
- کراچی میں اتوار کی صبح بوندا باندی کا امکان ہے، محکمہ موسمیات
- ای پاسپورٹ فیس میں اضافے کی خبریں بے بنیاد قرار
- متحدہ عرب امارات کے صدر پیر کو ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچیں گے
- اسلام آباد میں پیر کو چھٹی کا اعلان
- امریکی رکن کانگریس نے اے آئی سافٹ ویئر سے لکھی تقریر پڑھ ڈالی
- بسکٹ ہمارے وزن میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، تحقیق
- جرمنی نصب کی جانے والی آئی میکس اسکرین نے دو گینیز ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیے
- مری ڈسٹرکٹ اسپتال کی مسروقہ تینوں ڈائیلاسز مشین برآمد، ڈاکٹراور خریدار گرفتار
- پاکستانی زائرین نے درگاہ اجمیر شریف پر چادر چڑھائی
- عمران خان کے آصف زراری مخالف بیان پر وزیراعظم دفاع میں سامنے آگئے
- عمران خان جو بھی فیصلہ کریں ہم اُن کے ساتھ کھڑے ہیں، حبہ چوہدری
- الیکشن کمیشن دھمکی کیس، فواد چوہدری مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
- سونے کی فی تولہ قیمت میں مزید 6500 روپے کا اضافہ
تشویشناک صورت حال اور عالمی امداد
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کے سیلاب متاثرین کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور ان کے لیے عالمی امداد کم ہوتی جا رہی ہے۔سرد موسم میں متاثرین کی مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں اور متوقع بارشوں سے ان کے لیے جو پریشانیاں مزید پیدا ہوں گی۔
ان سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر عالمی امداد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس قومی آفت کی ذمے داری پاکستان پر نہیں عالمی دنیا پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمے داری محسوس کرے اور متاثرین سیلاب کی فوری اور زیادہ سے زیادہ مدد کرے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں سیلاب و بارشوں سے تیس ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا ہے۔
33 ملین افراد متاثر اور تقریباً دو ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ سیلاب سے یہ تباہی 2010 کے سیلاب کے مقابلے میں تین گنا زیادہ اور خطرناک ہے جس سے ہم تنہا نہیں نمٹ سکتے ، اس لیے ہمیں عالمی طور پر بھرپور معاونت کی اشد ضرورت ہے۔ سیلاب سے پاکستان کے 14 ارب ڈالر کے اثاثے مکمل تباہ اور 16 ارب ڈالر کا انفرا اسٹرکچر مکمل تباہ ہو چکا ہے۔
سیلاب کے بعد اتحادی حکومت نے ایک ماہ کے دوران ملک میں ریلوے، بجلی، سڑکوں اور مختلف انفرا اسٹرکچر کے ذرایع کو ترجیح دے کر بحال کرنے کا کام شروع کردیا تھا مگر نقصان اتنا زیادہ ہے کہ فوری عالمی امداد کے بغیر نقصانات کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا اور اسی وجہ سے جنیوا میں عالمی ڈونرز کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد نے دنیا کو تباہی کی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے بھی کہا ہے کہ سیلاب سے نوے لاکھ پاکستانیوں کے غربت میں چلے جانے کا خدشہ ہے۔ 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں ، اگلے سیزن کی فصلیں کاشت نہیں ہوسکیں جس سے زرعی اجناس کی قلت اور ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ، پاکستان میں سیلاب کے کئی ماہ بعد بھی 80لاکھ افراد اب تک بے گھر ہیں۔
تباہ کاریوں سے نمٹنے، بحالی اور تعمیر نو کے لیے 16 ارب ڈالر سے زائد امداد کی اشد ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق غذائی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا بلکہ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے متاثرین کی تعداد ستر لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ چالیس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں حالیہ سیلاب سے سندھ، بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور اس وقت سخت سردی میں متاثرین سخت پریشان ہیں۔ بعض متاثرین کے مطابق وہ جن کھلے علاقوں میں رہ رہے ہیں وہاں محفوظ خیموں میں زندگی مشکل سے گزاری جا رہی ہے اور بڑی تعداد میں متاثرین رہ رہے ہیں وہاں بوسیدہ خیمے بھی نہیں ہیں بلکہ اپنی رہائش کی جگہ وہ پلاسٹک کی چھتوں اور کپڑوں، دریوں کی دیواریں بنا کر سردی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پرانے عارضی خیمے پھٹ چکے ہیں، درختوں سے لکڑیاں توڑ کر وہ چھت اور دیواریں بناتے ہیں جو ٹھنڈی ہواؤں میں بار بار ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ پلاسٹک اور کپڑے کی چادریں تیز ٹھنڈی ہواؤں کے تھپیڑے برداشت نہیں کر سکتیں اور لمبی راتیں متاثرین سردی میں کانپتے ہوئے جاگ کر گزار رہے ہیں اور صبح ہونے اور دھوپ نکلنے کا انتظار کرتے ہیں۔
سخت سردی اور تیز ہواؤں میں کھلے آسمان تلے متاثرین لکڑیاں جلا کر کھانا بھی مشکل سے پکا پاتے ہیں اور اندرون ملک کے سماجی اداروں اور مخیر حضرات کی طرف خوراک کی فراہمی کم ہوگئی ہے۔ متاثرین کو خوراک سے زیادہ سردی سے بچانے والے کپڑوں کی ضرورت زیادہ ہے۔
وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق حکومت کی ترجیح لوگوں کی روزمرہ کی ضروریات کو دوبارہ شروع کرانا ہے جس کے لیے حکومتی وسائل محدود اور مسائل لامحدود ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، غیر ملکی سفیر اور عالمی شخصیات خود متاثرہ علاقوں میں جا کر صورت حال دیکھ چکی ہیں مگر موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان میں جو تباہی آئی ہے اس کے نقصانات کا مداوا تنہا حکومت نہیں کرسکتی بلکہ عالمی طور پر اتنا محسوس نہیں کیا گیا نہ اتنی غیر ملکی امداد ملی اس لیے عالمی طور پر پاکستان کو امداد اور سامان کی اشد ضرورت ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔