انتہا پسندی کا چیلنج

سلمان عابد  منگل 10 جنوری 2023
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

انتہا پسندی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشتگردی یا انتہا پسندانہ رجحانات ہماری قومی سلامتی، داخلی خودمحتاری اور قومی سیکیورٹی کا ایک بڑا چیلنج ہے ۔

یہ معمولی چیلنج نہیں ،ایسے غیر معمولی حالات سے نمٹنے کے لیے ہمیں غیر معمولی سیاسی ، سماجی ، انتظامی ، قانونی اور عسکری اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ہمارا المیہ قومی سطح پر جذباتی حکمت عملی سے جڑا ہے ۔

جب کوئی بھی حادثہ رونما ہوتا ہے تو ہمیں جذباتی طور پر سب کچھ یاد آتا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ ہم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن جب معاملات کی حکمت عملی کا لانگ ٹرم ، مڈٹرم یا شارٹ ٹرم تجزیہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سنجیدگی اور اس سے جڑے اقدامات کہاں کھڑے ہیں ۔ کیونکہ ہمارے اقدامات یا عملدرآمد کے نظام میں ایک بڑی سیاسی تنہائی غالب نظر آتی ہے ۔حالیہ دنوں میں قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا۔

سیاسی اور عسکری قیادت سرجوڑ کر حالیہ دہشت گردی یا سیکیورٹی سے جڑے مسائل پر سوچ بچار کرتی رہی۔ بیس نکاتی یہ نیشنل ایکشن پلان سیاسی اور عسکری قیادت کی باہمی رضامندی سے 2014کو جاری ہوا تھا۔

اس نیشنل ایکشن پلان کو ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک ’’ قومی نصاب‘‘ سے جوڑ کر پیش کیا تھا۔ کہا گیا تھا کہ یہ معاہدہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا ۔ اہم بات یہ تھی کہ اس بیس نکاتی معاہدہ کی ملکیت فوجی اور سیاسی سطح پر قومی و صوبائی قیادت یا حکومتوں نے لی تھی۔

اسی تناظر میں وفاقی، صوبائی اور ضلع سطح پر وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور ڈی سی او کی سربراہی سمیت سیاسی اور انتظامی و انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمایندوں کی شمولیت تھی ۔ ان اپیکس کمیٹیوں کا مقصد اپنے اپنے دائرہ کار میں انتہا پسندی سمیت دہشت گردی کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لیے بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، نگرانی اور جوابدہی کے نظام کو موثر بنانا تھا ۔

نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ہم نے پیغام پاکستان یعنی تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام پر مشتمل یا اتفاق رائے پر مبنی میثاق بھی ترتیب دیا ۔

اس کا مقصد ملک میں فرقہ وارانہ یا انتہاپسندی کے رجحانات کو روکنا تھا ۔اسی طرح خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے قومی سطح پر ’’ دختران پاکستان ‘‘ کے نام سے منصوبہ بھی شامل تھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی قیادت کی عدم ترجیحات، سیاسی محاذ آرائی ، ٹکراؤ اور ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی مقابلہ بازی کرنے کا رجحان ، حکومتوں کو بنانے اور بگاڑنے یا ختم کرنے کے کھیل نے ہمیں حساس نوعیت کے اہم معاملات جن میں سیکیورٹی ، انتہا پسندی یا دہشت گردی جیسے معاملات سے بھی پیچھے دھکیل دیا ۔

سوال یہ ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی یا سیکیورٹی معاملات میں کوتاہی اور اسی تناظر میں دہشت گردی کے واقعات میں ہم نے ایسی کیا غلطیاں کی ہیں جو ہمیں دوبارہ سیکیورٹی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے ۔

یہ مسائل داخلی نوعیت کے ہیں یا علاقائی یا عالمی معاملات سے جڑے ہوئے ہیں مگر ان کے سدباب کا نہ ہونا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔مقصد محض تنقید نہیں بلکہ اپنی اپنی سطح پر یا مختلف فریقوں کا ادارہ جاتی سطح پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیونکر قومی کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت کی موجودگی ، ان کی جانب سے اپنی سرزمین پاکستان مخالف سطح کی سرگرمیوں میں استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی ، تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ معاملات میں کامیابیوں کا نہ ہونا اور دیگر امور پر کہاں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں، اس کا تجزیہ ہونا چاہیے ۔ انتہا پسند یا دہشت گردی کا ایجنڈا رکھنے والے افراد ہماری کمزوریوں کی وجہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔

جب ہم داخلی سطح پر کمزور ہونگے اور جو کچھ ہمیں دہشت گردی کے خاتمہ میں کرنا ہے وہ نہیں کریں گے تو یقینی طو رپر ہمارے گھر میں یا گھر سے باہر موجود دشمن اس کا فائدہ اٹھائیں گے ۔ ہم عمومی طور پر الزامات کی ایک بڑی گردان دشمنوں پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے دشمن ممالک پر ضرور تنقید کریں لیکن پہلے اپنے گھر کے نظام کا جائزہ لیں کہ ہم سے کیا غلطی ہورہی ہے اور اس کے ذمے دار کون ہیں ان کا تعین سمیت جوابدہی ہونی چاہیے۔

یہ ایک جماعت یا کسی ایک ادارے کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی مسئلہ ہے جس کی سنگینی و حساسیت کی وجہ سے سب کو اس عمل کی ذمے داری میں حصہ دار بننا چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم خود زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان ، پیغام پاکستان ، دختران پاکستان ، نیکٹا یا قومی سیکیورٹی پالیسی کو بنیاد بنا کر اپنی حکمت عملی کو ترتیب دیں ۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سمجھوتوں کی سیاست اور سیاسی مصلحتوں سے باہر نکلیں۔ جو بھی ہمیں اقدامات کرنے ہیں ان میں بلاوجہ کی اگر مگرکے بجائے عملی اقدامات پر توجہ دیں۔

اصل مسئلہ ریاست کی رٹ کا ہے جو بھی اسے چیلنج کرتا ہے تو اس کے ساتھ کوئی بھی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے ۔ اہم بات یہ جنگ کسی کی نہیں ہے بلکہ ہماری قومی جنگ ہے ۔ ہم نے ماضی میں جو بھی اس میں کوتاہیاں کی ہیں یا سیاسی سمجھوتے کیے ہیں اس کو ختم کرنا ہوگا۔ سیاسی قیادت سمیت اس ملک کے پڑھے لکھے طبقوں، رائے عامہ بنانے والے افراد اور اداروں کو اس جنگ کی ذمے داری لینی ہوگی ۔کیونکہ یہ ہی حکمت عملی ملک کو محفوظ بناسکتی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔