- پاک فضائیہ کا سی 130 طیارہ امدادی سامان لے کر ترکیہ پہنچ گیا
- شہری اور پولیس اہلکار کے قتل میں ملوث تین ملزمان گرفتار، پولیس اہلکار بھی شامل
- گریس کے ڈرموں میں چھپائی گئی 254 کلوگرام منشیات پکڑی گئی
- پرویز الہٰی کے پرنسپل سیکرٹری کی بازیابی کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر
- گلگت میں مسافر بس کھائی میں گرنے سے 25 افراد جاں بحق
- پی ایس ایل 8 کیلیے نئی ٹرافی متعارف کرانے کا فیصلہ
- ایف آئی اے کا حوالہ ہنڈی کا کام کرنے والوں کیخلاف کریک ڈاؤن، 5 کروڑ سے زائد کی کرنسی برآمد
- انٹربینک میں ڈالر کی قیمت 276 روپے سے تجاوز کرگئی
- اسد شفیق نے بھی کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا
- شیخ رشید کا حلقہ این اے 60 سے ضمنی الیکشن لڑنے کا اعلان
- سونے کی قیمت میں ہزاروں روپے کی کمی ہوگئی
- برطانیہ؛ پولیس افسر کو 85 جنسی جرائم پر 36 سال قید
- حکومت کیخلاف مزاحمت کیلیے جیل بھرو تحریک میں لاکھوں کارکنان گرفتاریاں دیں گے، عمران خان
- پی ایس ایل 8؛ نیشنل اسٹیڈیم میں چار پریکٹس بچز تیار
- پُر کشش افراد ماسک کم پہنتے ہیں، تحقیق
- چاندوں کی دوڑ میں سیارہ مشتری پھر بازی لے گیا، کل تعداد 92 ہوگئی
- مصروف وُڈ پیکر پرندے نے گھرکی دیوار میں 300 سوکلوگرام پھل ذخیرہ کردیئے
- رہنما پی ٹی آئی شاندانہ گلزار نے بغاوت کے مقدمے کیخلاف عدالت سے رجوع کرلیا
- میچ فکسنگ؛ کرکٹر آصف آفریدی پر 2 سال کیلئے پابندی
- ترکیہ زلزلہ متاثرین کیلیے وزیر اعظم ریلیف فنڈ اکاؤنٹ قائم، کابینہ کا ایک ماہ کی تنخواہ دینے کا اعلان
مجبور و محکوم بھیڑیں

ان مجبور بھیڑوں کا کام اپنے مالک کو دودھ، اون اور گوشت کی فراہمی ہے۔ (فوٹو: فائل)
ہماری اس پیاری دنیا میں ننانوے فی صد سے زیادہ لوگ محکوم اور مجبور ہیں۔ ابھی تک کوئی معاشرہ، کوئی تہذیب، کوئی تمدن ان ننانوے فی صد بھیڑوں کو آزاد چراگاہ فراہم نہیں کرسکا جہاں یہ اپنی مرضی سے سوچیں اور اپنی زندگی گزار سکیں۔
کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوسکی کہ ان انسانی بھیڑوں کو کچھ ہی حقوق دے دیے جائیں۔ ہاں ایک حق ہر جگہ میسر ہے اور وہ ہے خدمت کرنے کا۔ یہ بھیڑیں جتنی چاہے خدمت کرسکتی ہیں، اس سے آپ کو کوئی معاشرہ نہیں روکے گا۔ حکمران ٹولے یہ خدمت ان مجبور و محکوم بھیڑوں کو انسان مان کر نہیں کرواتے، بلکہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ کمزور عوام ان کی خدمت کریں۔ ان کےلیے دودھ، گوشت اور اون پیدا ہوتے رہیں اور یہ ہر طرح سے اپنی عیش و عشرت کو دوام بخشتے رہیں۔
جتنا بڑا سیاسی یا مذہبی لیڈر ہوگا، اتنا ہی بڑا نوسر باز ہوگا۔ ایک عظیم فراڈیا اس میں چھپا ہوگا۔ اس لیڈر کا تعلق کسی بھی شعبۂ زندگی سے ہو، وہ آپ کو دھوکا ہی دے رہا ہوگا۔ وہ آپ کو مرنے کے بعد کی دنیا میں حوروں کے خواب دکھا رہا ہوگا مگر خود اسی فانی دنیا میں چار شادیوں کے علاوہ بھی بہت سی حوروں کا مالک و مسیحا ہوگا۔ بہت سی مظلوم و بے سہارا خوبصورت عورتوں کا سہارا بنتا رہا ہوگا اور انہیں سہانے خواب دکھا کر ان کی زندگیوں کی بے حرمتی کررہا ہوگا۔ سیاسی مداری آپ کو حکمرانی کے حق کا چارہ ڈال کر آپ کو اپنے پیچھے بھاگنے پر مجبور کررہا ہوگا۔ ہماری اس دنیا میں مغرب و مشرق اور مذہب کی تفریق کے بغیر یہ لوگ ہر جگہ اور ہمیشہ سے موجود پائے گئے ہیں۔ یونانیوں کے فلسفے کی بنیاد اور مغربی نظام ہائے معیشت کی اساس ان ہیں کی مرہونِ منت تھی۔
میرے خیال میں افلاطون اور ارسطو نے ان ہی سیاسی اور مذہبی بڑوں کی عیاشیوں کو دوام بخشنے پر اپنے فلسفے گھڑے۔ جدید معاشیات کے بانیوں نے بھی اسی ٹولے کے عیش و نشاط کو طول دینے کےلیے طلب و رسد کے قوانین پیش کیے۔ اگر کارل مارکس جیسے کسی انسان کے دل میں عام آدمی کا درد پیدا ہوا تو اس بھیڑیوں کے ٹولے نے اس سے اس کی بات چھین لی اور برابری پیدا کرنے کے بجائے اور وسائل کی مساوی تقسیم کے بجائے اسے بھی سوشل اور کمیونزم جیسے آمرانہ نظاموں میں ڈھال لیا کہ وہی حکمران طبقہ ہی مستفید ہوسکے۔
اس طبقے کے عالمگیر اجارہ دار ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ہی خیر خواہ ہیں۔ عدالتیں ان ہی کو ریلیف دیتی ہیں، انتظامیہ اسی طبقے کی فرمانبردار ہوتی ہیں۔ یہ بھیڑیا صفت استحصالی گروہ سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت عوام کو تقسیم کرتا ہے، کبھی مذہبی فرقوں میں تو کبھی سیاسی گروہوں میں۔ مریدین اپنے اس روحانی پیشوا کےلیے بھیڑ سے زیادہ حیثیت کے حامل نہیں۔ اور وہ ہمیشہ اپنی بھیڑوں کو اس طرح کی جادوئی گھاس ڈال کر بے وقوف بناتے ہیں کہ وہ اسی کے در کی ہو رہتی ہیں۔ ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفقود کرنا ہی اس روحانیت سے لبریز فراڈیے کا فرضِ اولین ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ زیادہ دودھ، گوشت اور اون کےلیے اپنی بھیڑوں میں اضافہ کرتا رہتا ہے اور انہیں سچ سے ددور رکھنے کی ہر ممکن تگ و دو کرتا ہے۔ اس نے حقیقت کو ایسا بھیڑیا بنا کر پیش کیا ہوا ہے کہ اگر اس کی بھیڑیں اس کے روحانی مندر کی حدود پھلانگیں گی تو وہ بھیڑیا انہیں کھا جائے گا۔
یہی طریق ہر ملک کے اس طبقے کا ہے کہ عوام کو شعور سے شعور کے نام پر ہی عاری رکھا جائے۔ اگر عوام کو شعور آگیا اور اپنی بھیڑ جیسی حیثیت کا اندازہ ہوگیا تو پوری دنیا میں انقلاب آجائے گا اور سچ کا بول بالا ہوجائے گا۔ اسی لیے سیاسی مرشد، روحانی پیشوا اور انتظامی پیش رو ان بھیڑوں کی جہالت کے علم سے پرورش میں مصروف عمل رہتے ہیں اور ہمیشہ انہیں صرف اپنے ہی مذہبی فرقے کے سچا ہونے کا یقین دلاتے رہتے ہیں کہ باقی سب جھوٹے اور گمراہ ہیں۔ یہی حال سیاست دانوں کا ہے، جو اپنے کالے کرتوتوں پر اپوزیشن کے عیبوں کا پردہ ڈال کر اپنی بھیڑوں کو اپنے سچا ہونے کا جھوٹا یقین دلاتے رہتے ہیں کہ یہ بھیڑیں کسی دوسرے راستے پر نہ چل دیں۔ انہیں وعدوں اور لاروں کی ہری ہری گھاس ہی کیا، پورے باغ کا مالک دکھاتے رہتے ہیں اور یہ بھیڑیں اپنے اپنے چرواہے کے ہاتھ میں دھوکے اور فریب کی ہریالی کے پیچھے اس کے گن گاتی بھاگتی رہتی ہیں۔
اس ٹولے کو عوام کی جسمانی، مالی یا روحانی حالت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ان کی روحانیت بھی ان کی ذات کی پوجا تک محدود ہے اور ان کی سیاست بھی انہی کے گرد گھومنے کا نام ہے۔ اگر کوئی مرید یا کارکن سرِمو بھی انحراف کرے گا تو وہ گمراہی کے راستے پر چلے گا۔ اس بات کا یقین یہ اپنے جھوٹے اور من گھڑت بیانیوں سے اور بیانوں سے ہمیشہ دلاتے رہتے ہیں۔ اور اگر کوئی بھیڑ بھٹک کر کسی دوسرے راستے پر جا نکلے تو وہاں بھی ایک ایسا ہی پیشوا یا لیڈر دام پھیلائے بیٹھا ہوگا۔ بھیڑ نے تو بس ریوڑ بدلا، کام وہی ہوگا، دودھ، اون اور گوشت فراہم کرنا اور اپنے مالک کے مفادات کا خیال رکھنا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔