چین کے شہر ’ ووہان ‘ سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟

محمد خرم شہزاد  اتوار 15 جنوری 2023
زہر آلود پانی کی شرقی جھیل آج اس قدر صاف و شفاف ہے کہ وہاں تیراکی کے مقابلے ہوتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

زہر آلود پانی کی شرقی جھیل آج اس قدر صاف و شفاف ہے کہ وہاں تیراکی کے مقابلے ہوتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

’’ درویش نے بانسری بجائی ، زرد سارس دیوار سے رقص کرتا ہوا برآمد ہوا۔ درویش کو اپنے پروں پر بٹھایا اور اڑتا ہوا آسمانوں میں غائب ہو گیا ۔‘‘

ایک خوش نما احساس کے ساتھ کہانی کا یہ خوبصورت اختتام سنتے ہوئے ہم سب دور بہتے ’ دریا یانگتسی‘(Yangtze) کے نظارہ سے محظوظ ہونے لگے۔ دراصل ہم سات افراد کا ٹولہ چین کے شہر ’ ووہان ‘ میں واقع ’ ییلو کرین ٹاور ‘ ( زرد سارس منزل ) کا دورہ کر رہا تھا ۔

دراصل ہم چائنا یونیورسٹی آف جیو سائنسز، ووہان میں سیمینار میں شرکت کے لئے گئے تھے ۔’ ییلو کرین ٹاور ‘ (Yellow Crane Tower) چین کے چار قدیم ٹاورز میں سے ایک ہے۔ صدیوں پرانے اس ٹاور سے جڑی دیومالائی کہانی بھی آپ کو یہاں آنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یاد رہے کہ ’ ووہان ‘ ساڑھے تین ہزار سال پرانا شہر ہے۔

ویسے اس ٹاور سے جڑی کئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ سب سے مقبول کہانی کچھ یوں ہے کہ قدیم ’ ووہان‘ میں ’دریائے یانگتسی‘ کے کنارے سے کچھ دور پہاڑی پر ایک چھوٹا سا غریب خاندان رہتا تھا۔ اس خاندان کا سربراہ ’ شن‘ تھا۔ وہ کھانے پینے کا ڈھابہ چلاتا تھا۔

ایک دن ’ زیان‘ نامی ایک درویش وہاں آیا۔ وہ غریب بوڑھا تھا۔ ڈھابے والے خاندان نے درویش کی خوب خدمت کی۔ وہ چلا گیا۔

پھر ایک روز آیا تو ’ شن‘ اور اس کے گھر والوں نے پھر خوب خاطر تواضع کی۔ ’زیان‘ برسوں تک یونہی اس ڈھابے پر آتا، ڈھابے والے اس کی بہترین انداز میں مہمان نوازی کرتے۔ نتیجتاً درویش نے خوش ہوکر، ڈھابے کی دیوار پر ایک خوش نما زرد سارس کی کرشماتی تصویر بنا دی ۔ اس نے ’ شن ‘ سے کہا کہ تم جب بھی تالی بجاؤ گے ، یہ زرد سارس دیوار سے باہر نکل آئے گا اور تمھارے ساتھ رقص کرے گا ۔

یونہی ہوا ، ’ شن ‘ تالی بجاتا ، سارس دیوار سے باہر کود آتا اور اس کے ساتھ رقص میں شامل ہوتا ۔ یہ کرشمہ دیکھنے کے لئے دور دور سے لوگ ڈھابے پر آنے لگے ، یوں اس خاندان کا کاروبار چمک اٹھا ۔ دس سال بعد وہ درویش واپس آیا اور کہنے لگا کہ اب تمھیں اپنی خدمت کا صلہ مل چکا ہے ۔ لہذا اس نے بانسری بجائی ۔ سارس دیوار سے باہر آیا اور درویش اس پر بیٹھ کر اڑتے ہوئے غائب ہو گیا ۔ پھر ’ شن ‘ نے ’ زیان‘ اور سارس کی یاد میں یہ ٹاور تعمیر کیا ۔

یہ سن 223 عیسوی کا واقعہ ہے ۔ ’ ییلو کرین ٹاور ‘ نامی اس پانچ منزلہ ٹاور کی آخری منزل پر یہ کہانی تصویری انداز میں پینٹ کی گئی ہے۔

اس ٹاور سے ’ ووہان ‘ شہر اور دریائے ’ یانگتسی‘ کا نظارہ بہت لطف دیتا ہے۔ دریائے ’ یانگتسی ‘ دنیا کا تیسرا طویل ترین دریا ہے ۔ پہلا دریائے نیل ہے ، دوسرا دریائے امازون ۔ دریائے ’ یانگتسی ‘ کو ’ چانگ جیانگ ‘ بھی کہا جاتا ہے جس کے معنی ’ طویل دریا ‘ کے ہیں ۔

یہ چین کے شمال مغربی صوبہ ’ چنگھائی ‘ سے نکلتا ہے اور چھ ہزار دو سو گیارہ کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے بحیرہ شرقی چین سے ہم آغوش ہو جاتا ہے۔ سمندر میں گرنے سے پہلے آخری ایک ہزار میل دریا اس قدر گہرا ہے کہ وہاں جہاز رانی بھی ہو سکتی ہے ۔ چین کا مشہور شہر ’ شنگھائی ‘ بھی ’ ووہان ‘ کی طرح اسی دریا کے کنارے واقع ہے ۔

پرانے وقتوں میں ووہان شہر کے بازار اسی دریا کے کنارے آباد تھے جبکہ دریا کے آر پار جانے کے لئے کوئی پل نہیں تھا ۔ دریائے یانگتسی پر پہلا پل1957ء میں چینی رہنما ماؤزے تنگ اور چون این لائی کی خصوصی کاوشوں سے بنایا گیا ۔

یہ ’’ دریائے یانگتسی کا پہلا پل ‘‘ کے نام ہی سے مشہور ہے ۔ اب اس دریا پر صرف ووہان شہر میں تین پل اور ایک زیر آب سرنگ ہے جبکہ دریا کے کنارے پکنک منانے کے لئے مقامات بنا دیے گئے ہیں ۔ اس طرح شہر کی خوبصورتی میں اضافے کے ساتھ ہی ساتھ روز مرہ کی سفری سہولت بھی ہو گئی ہے۔

ووہان کی اس وقت آبادی سوا کروڑ ہے، اس کی خوبصورتی میں ایک بھلا نظارہ ایسٹ لیک یا شرقی جھیل بھی ہے۔ یہ تازہ پانی کی جھیل ہے جو کہ تیس سال پہلے تک آلودگی کی ایک بڑی مثال تھی ۔ تمام سیوریج اور صنعتی فضلہ بھی اس میں گرتا تھا ۔

مردہ مچھلیاں اور مردار آبی پرندے اکثر اس پر تیرتے ہوئے پائے جاتے تھے ۔ بالآخر حکومتی ارباب اختیار نے اس پر توجہ دی ۔ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگائے گئے ۔

جھیل کے اردگرد درخت اور پودے لگائے گئے ۔ ایک پارک بنایا گیا ۔ آلودگی ختم کرنے والے آبی جانوروں کو جھیل میں چھوڑا گیا ۔

اب یہ ایک پرفضا پکنک مقام کا نظارہ دیتا ہے۔ پرندے اس میں اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے ہیں ۔ اور پھولوں کی خوشبو سے مہکتا ماحول صحت پر مثبت تاثر چھوڑتا ہے ۔ جس جھیل کے کنارے سے، کسی دور میں بدبو کے باعث گزرنا مشکل تھا ، اب اس میں تیراکی کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں ۔ ترقی کی ایسی مثال ہمیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔

اس شہر کی ایسی ہی مثالوں میں سب سے زیادہ قابل توجہ کورونا وبا پر دنیا میں سب سے پہلے قابو پانا بھی ہے ۔ مغربی ماہرین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس اسی شہر سے پھوٹا تھا ۔

ہم لوگ اکتوبر 2019ء میں ووہان میں تھے اور نومبر 2019ء کے درمیانی عشرے میں واپس پاکستان آئے۔ تب اس شہر میں نزلہ و زکام ایک وبائی صورت میں موجود تھا مگر کوویڈ19 نامی وائرس دریافت نہ ہوا تھا۔

بہرحال بر وقت ایک وبا کی تشخیص اور پھر اسے زیادہ بڑے پیمانے پر پھیلنے سے روکنے کے لئے اقدامات کرکے ووہان نے ثابت کیا کہ اس شہر میں دنیا میںکسی بھی شعبہ زندگی میں قیادت کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

سب سے پہلے ووہان کے باسیوں نے یہاں کے طبی عملے کو خراج تحسین پیش کرنا شروع کیا۔ یہاں کے ہسپتالوں سے کورونا کے صحت یاب مریضوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ایسی خصوصی جیکٹس مہیا کیں ، جن پر چھپا ہوا تھا : ’’ میں ہوں بہادر ، کورونا سروائیور ‘‘ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہسپتالوں میں بھی ایسی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔

میں ووہان کے لوگوں کی زندگی کے کئی پہلوؤں سے بہت متاثر ہوا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان پہلوؤں سے ہم بھی بحیثیت قوم سیکھ سکتے ہیں۔ وہاں کے لوگ زیادہ تر نیم گرم پانی پیتے ہیں۔ ہرجگہ ٹھنڈے پانی کے ساتھ گرم پانی بھی دستیاب ہوتا ہے۔

اس کے نتیجے میں ان لوگوںکی صحت اچھی رہتی ہے اور وہ موٹاپے سے محفوظ رہتے ہیں۔’ ورلڈ اوبیسیٹی‘ کے اعدادوشمار کے مطابق چینی قوم موٹاپے کی شکار دنیا کی 200 اقوام میں 145 واں ہے۔ پاکستان کا ایک 144 واں نمبر ہے۔ نیم گرم پانی پینے سے ان کے جسم کی چربی پگھلتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں دل کے امراض کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔

ایک اور خوبصورت پہلو چینی قوم کا ڈسپلن پر سختی سے کاربند رہنا ہے۔ وہ بروقت صبح اٹھتے ہیں ، وقت پر کھانے کھاتے ہیں، ایک خاص وقت پر سوتے ہیں ۔

ووہان میں ساڑھے سات بجے شب کے بعد کہیں سے رات کا کھانا نہیں ملتا ۔ ہاں ! فاسٹ فوڈز وغیرہ مل جاتے ہیں ۔ وہاں میرا پہلا یا دوسرا دن تھا کہ ’ چائنا یونیورسٹی آف جیوسائنسز ، ووہان ‘ کے انٹرنیشنل ہاسٹل میں پاکستانی طلبہ کے ساتھ مصروف گفتگو تھا ۔

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہاں رات دیر گئے کھانا نہیں ملتا ۔ رات ساڑھے آٹھ یا نو بجے ہوں گے کہ طلبہ نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کھانا کھایا ہے؟ میں نے جواب دیا ’’ نہیں ، ابھی تک نہیں کھایا ۔ خیر ہے ، کہیں باہر سے کھالوں گا ‘‘۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت کہیں سے کھانا نہیں ملے گا ۔ بہرحال وہاں سے ایک طالب علم اور دو طالبات میرے ساتھ مارکیٹ میں گئے ۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ ہم بار بی کیو لیتے ہیں ۔ ان میں ایک پاکستانی طالب علم تھا ، راولپنڈی کا تھا اور مسلمان تھا ۔

ایک ہندو لڑکی تھی جس کا تعلق سندھ سے تھا ، جبکہ ایک بنگالی لڑکی تھی، وہ بدھ مت سے تعلق رکھتی تھی ۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں لڑکیوں کے لئے حلال و حرام کا مسئلہ نہیں تھا ، چنانچہ انھوں نے باربی کیو منگوا لیا ۔ ہم مسلمان وہاں کا گوشت نہیں کھا سکتے تھے ۔

ریسٹورنٹ میں آلو سے بنا ہوا بار بی کیو تھا اور اس کے علاوہ کوئی گھاس وغیرہ تھی جو فرائیڈ تھی ۔ وہ سبز پیاز کے سبز شاخوں جیسے تھی ۔ آلو قدرے کھانے کے قابل تھے لیکن گھاس تو بالکل بھی نہیں کھائی گئی ۔ بہرحال اگلے دن سے میں بھی سات بجے سے پہلے کھانا کھانے کی پابندی پر کاربند ہوگیا ۔

ووہان سے بہت سی یادیں لئے فلائیٹ میں واپسی کا سفر کرتے ہوئے یہی احساس ہو رہا تھا کہ میں بھی زرد سارس پر بیٹھا ایک مسافر ہوں جو ووہان کی فضاؤں میں افق کے اس پار غائب ہو رہا ہوں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔