عالمی امداد ، بحالی اور تعمیر نوکا چیلنج

ایڈیٹوریل  بدھ 11 جنوری 2023
ملک کے معاشی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ایک جامع معاشی پروگرام تشکیل دیا جائے جس میں قرضوں سے نجات اولین ترجیح ہو (فوٹو : فائل)

ملک کے معاشی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ایک جامع معاشی پروگرام تشکیل دیا جائے جس میں قرضوں سے نجات اولین ترجیح ہو (فوٹو : فائل)

جنیوا میں منعقدہ عالمی کانفرنس کے دوران عالمی اداروں اور ممالک نے پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے 10 ارب 57 کروڑ ڈالر امداد دینے کا اعلان کیا ہے ۔ اس میں اسلامی ترقیاتی بینک کے 4.2 ارب ڈالر اور عالمی بینک کے دو ارب ڈالر بھی شامل ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے دوست ممالک کی جانب سے تعاون پر شکر گزار ہیں لیکن بحالی اور تعمیر نو کی سرگرمیاں ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں ، ہمیں مزید امداد درکار ہے۔

بلاشبہ اس امداد کے نتیجے میں تین کروڑ سے زائد سیلاب متاثرین کی بحالی ممکن ہوسکے گی ، اب یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بنیادی ذمے داری بنتی ہے کہ امدادی سامان اور رقوم کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنائیں اور دنیا کے سامنے ایک بہتر مثال قائم کرنے کی کوشش کرے۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ متاثرین کے لیے دستیاب وسائل کا بہترین استعمال کیا جائے ، ملک شدید سردی کی لپیٹ میں ہے، متاثرین کو گرم کپڑے ، رضائیاں اور اضافی کمبل وغیرہ فراہم کرنے کے اقدامات کیا جائیں ، شیلٹر ، خوراک اور ادویات کی فراہمی سے متاثرین سیلاب کی مشکلات میں کمی واقع ہوسکتی ہے ، آگے چل کر متاثرین کی آبادکاری اور بحالی کے لیے مزید نئے مکانات کی تعمیر بھی ضروری ہے۔

امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ میڈیا کی پوری توجہ سیاست دانوں پر ہے اور سیلاب متاثرین کو کوریج نہیں دی جا رہی ، جس سے خیراتی اداروں کو دیے جانے والے عطیات بھی رک گئے ہیں۔ سیلاب سے مجموعی طور پر تین کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے، مرنے والوں کی تعداد 1730اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد 80 لاکھ ہے، 12 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ سندھ ہے جس کا 70 فیصد علاقہ متاثرہ ہے۔

ابھی تک دادو، خیر پور، میرپور خاص کے اضلاع میں پانی کھڑا ہے جہاں گندم کی فصل کاشت نہیں ہو سکے گی۔ غربت کی شرح میں مزید چار فیصد اضافہ ہوا ہے اور مجموعی طور پر 91 لاکھ مزید لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ مجموعی قومی پیداوار بھی شدید متاثر ہوئی ہے اور اس میں 2.2 فیصد کمی کا اندیشہ ہے۔

ایک طرف پاکستان کو سیلاب سے براہ راست 16 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے تو دوسری جانب سے سیلاب سے مجموعی طور پر پاکستانی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا جھٹکا لگا ہے، کورونا وباء سے پہلے ہی معیشت خراب ہے اور عالمی سطح پر جاری کساد بازاری کی وجہ سے بھی پاکستان شدید معاشی ابتری کا شکار ہے، آئی ایم ایف نے پہلے ہی اس کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام پر 40 فیصد کٹوتی لگائی ہوئی ہے۔

ان حالات میں پاکستان کے لیے بحالی اور تعمیر نو کا چیلنج مشکل تر ہو چکا ہے۔ سیلا ب سے متاثرہ کچھ علاقوں میں اگرچہ پانی کم ہو رہا ہے لیکن وہاں عوام کو درپیش مشکلات میں کمی کے کوئی آثار نہیں۔ انھیں وبائی بیماریوں نے پریشان کر رکھا ہے۔

ایک غیر سرکاری امدادی کا اندازہ ہے کہ کم از کم پچاس لاکھ افراد کو مختلف بیماریوں کا خطرہ لاحق ہے ، جب کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کو خدشہ ہے کہ 30 لاکھ سے زائد بچوں کو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، غذائی قلت اور سیلابی پانی میں ڈوبنے کے خطرات کا سامنا ہے۔ یونیسیف کے بچوں کو درپیش ماحولیاتی خطرے کے انڈیکس میں پاکستان کا 163 ممالک میں سے 14واں نمبر ہے۔

یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جنیوا کانفرنس سے ملنے والی امداد کا ہمارے موجودہ معاشی بحران یا مہنگائی اور ڈالر کی قیمت بڑھنے یا کم ہونے سے بالکل نہیں ہے، ملک اس وقت متعدد مسائل سے دوچار ہے ، جس میں ایک ہمارے سیلاب سے متاثرہ عوام کی مدد ہے۔

یہ امداد سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ہے تاکہ حکومت پاکستان پر اس حوالے سے مالی بوجھ نہ پڑے۔ وطن عزیز میں اقتصادی شعبے کو درپیش چیلنجوں میں پیش ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 57 جب کہ تجارتی خسارے میں 26فیصد کمی نوٹ ہو رہی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ مشکل حالات میں بھی بیرونی ادائیگیاں بروقت یقینی بنائی گئیں اور یہ کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچا لیا گیا ، ذمے دار حکومتی دفاتر کے اعداد و شمار اپنی جگہ قابل اطمینان سہی جب کہ دوسری جانب گرانی کے حوالے سے صورتحال کسی صورت اطمینان بخش نہیں‘ سیاسی منظر نامے کی گرما گرمی ، سیاسی قیادت کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات، سیاسی رابطے ، ملاقاتیں سب اپنی جگہ اس وقت ایک اہم ضرورت عوام کے لیے ریلیف ہے۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کسی بھی ریاست میں سیاست کا محور عوام ہی کو رکھا جاتا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود ہی حکومتی ترجیحات کا مرکز رہتی ہے ایسے میں جب عوام ہی کو سہولیات اور آسانیاں نہ مل سکیں تو سب کچھ بے ثمر رہ جاتا ہے۔ اصل میں اکانومی کا شعبہ طویل عرصے سے مشکلات کا شکار چلا آرہا ہے ، قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔

اس صورتحال کا ذمے دار کون ہے کی بحث میں ہر کوئی دوسروں کو مورد الزام ہی ٹھہراتا چلا آیا ہے۔ اس وقت میں جب کہ صورتحال پریشان کن ہو چکی ہے خرابی کا ذمے دار کون ہے اور کون نہیں کی بحث میں پڑے بغیر ضروری ہے کہ اصلاح احوال کی جانب بڑھا جائے۔

اس میں ملک کی اقتصادیات کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنا ضروری ہے۔ عالمی بحران کے پیش نظر حکومت عالمی ادارہ (آئی ایم ایف) سے اگلی قسط حاصل کرنا چاہتی ہے، تاہم آئی ایم ایف نے نئی شرائط کا عندیہ دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرے گی، حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے مشکل فیصلے کر رہی ہے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ2018ء کے بعد سے پاکستان شدید مالی مشکلات کا شکار ہے، تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو انھوں نے مسلم لیگ ن کی سابق حکومت ملبہ ڈالنے کی کوشش کی اور مؤقف اپنایا کہ آئی ایم ایف سے مالی پیکیج حاصل کیے بغیر چارہ نہیں، سو کڑی شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کر لیا گیا، جس کے نتیجے میں عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا گیا، قرض دیتے ہوئے جو شرائط عائد کی تھیں انھیں پورا کرنا ضروری تھا۔

حکومت نے مگر مختلف اوقات میں سبسڈی دے کر کسی حد تک عوام کو ریلیف فراہم کیا جس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بھی شامل تھی، تاہم حکومت کا یہ عمل آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی قرار پائی، جب آئی ایم ایف کی طرف سے نئی قسط جاری نہ ہوئی تو پاکستان کا مالی بحران شدید ہو گیا۔

دوست ممالک سے چونکہ پہلے ہی ہم مالی تعاون حاصل کر چکے تھے سو ہمارے لیے آپشن کم ہوتے گئے، پچھلے سات برسوں کے دوران پاکستان پر بیرونی قرض65ارب ڈالر سے بڑھ کر130ارب ڈالر ہو گیا ہے، چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک قرض کی واپسی کو ری شیڈول کر دیتے ہیں، جس سے وقتی سہارا ملتا ہے ۔

ضروری یہ بھی ہے کہ قرضوں کے سلسلے کو فل اسٹاپ لگایا جائے، قرضوں کی ادائیگی کے ساتھ ملک میں صنعت و زراعت کے شعبوں میں آگے بڑھا جائے درآمدات پر انحصار کم سے کم کرتے ہوئے ایکسپورٹ پر توجہ مبذول کی جائے اس حوالے سے درپیش رکاوٹوں کو دورکیا جائے خصوصاً پیداواری لاگت کا والیوم کم سے کم رکھا جائے‘ سرمایہ کاری کو صنعت و زراعت تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ غیر روایتی شعبوں میں بھی انویسٹرز کی حوصلہ افزائی ہو۔

بلا شبہ جنیوا کانفرنس میں گزشتہ برس کے سیلاب کی تباہی کے تناظر میں دنیا کی توجہ پاکستان کی جانب مبذول کروائی ہے بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اور اس سلسلے میں ترقی یافتہ اقوام کی ذمے داریوں کو بھی اجاگر کیا ہے ۔

وہیں ضرورت اس امرکی ہے بھی ہم ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنی تیاری بھی کریں اور عوام میں شعور بھی بیدار کیا جائے ۔

ملک کے معاشی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ایک جامع معاشی پروگرام تشکیل دیا جائے جس میں قرضوں سے نجات اولین ترجیح ہو، کیونکہ جب حکومت کو بچت ہو گی تو وہ عوام پر خرچ کر سکے گی۔

اس وقت موجودہ حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج متاثرین سیلاب کی بحالی اور امداد کا ہے اب جب کہ عالمی امداد کا اعلان کیا جاچکا ہے تو ہمیں قومی امید ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر متاثرین کی بحالی میں اپنا اپنا کردار فعال انداز میں کریں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔