زرعی پیداوار میں خود کفالت ضروری ہے

اطہر قادر حسن  بدھ 11 جنوری 2023
atharqhasan@gmail.com

[email protected]

ملک کی سیاست توجیسے چل رہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہیں، معیشت کا حال بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہم قرض کی مے پینے کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

شاید کچھ امداد مل جائے اور ہمارا دال دلیہ چلتا رہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا گزارا صرف دال دلیہ پر نہیں ہو سکتا، ہماری اشرافیہ کو سرکاری وسائل پر جس طرز زندگی کی لت لگ چکی ہے، وہ چھوٹے موٹے قرضے سے پوری نہیں ہو سکتی۔

اس کے لیے کوئی بڑا ہاتھ مارنا پڑے گا،میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اونچے لوگوں کی سرکاری مراعات میں ایک پائی کی کمی نہیں ہو سکتی اور ان کی شاہانہ زندگی میں چاندنی یونہی چمکتی رہے گی ۔

ہمارے ہاںسرمایہ داری نظام کی بد ترین شکل موجود ہے جس میں سے نیکی اور فلاح کی کوئی بات نہیں نکالی جا سکتی کہ کوئی گھوڑا گھاس سے دوستی کیسے کر سکتا ہے۔

صاف لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک طبقہ ملک بھر کے وسائل پر قابض ہے اور عوام محنت مشقت کر کے جو کچھ کماتے ہیں ، یہ طبقہ کسی نہ کسی چالاکی سے ان سے یہ چھین کر لے جاتا ہے۔

پاکستانی عوام ہر وقت کسی نہ کسی بحران کی زد میں رہتے ہیں، یہ تو ممکن نہیں کہ ان بحرانوں کو ختم کر دیا جائے کیونکہ جو لوگ ان بحرانوں کے ذمے دار ہیں ان کو یہ وارا نہیں کھاتا البتہ اگر یہ بڑے لوگ عوام پر رحم کی کسی صورت پر آمادہ ہو جائیں تو ان بحرانوں میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔

ملک میں حالیہ سیلاب کے بعد زرعی میدان میں جو صورتحال پیدا ہو چکی ہے، اس کا ہم سب کو پہلے سے اندازہ تھا ۔ روز مرہ کی خوراک جن میں سبزیاں وغیرہ شامل ہیں، بازار میںان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ آلو ،پیاز ، ٹماٹرجو ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے۔

ان کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔ خاتون خانہ ہر روز ایک نئی سبزی کی قیمتوں میں اضافے کا بتا کر پریشان کر دیتی ہیں۔

میں جو بنیادی طور پر ایک کاشتکار ہوں، یہ بات نہایت آسانی سے سمجھ سکتا ہوں کہ زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کیونکر ہورہا ہے ۔ ایک زرعی ملک میں اگر آپ اس کے کاشتکاروں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیں گے، ان کی آہ و بکا پر کان نہیں دھریں گے بلکہ ان کی بنیادی ضروریات جن میں ڈیزل ، بجلی ، کھاد، ادویات وغیرہ شامل ہیں۔

ان کی قیمتوں کے کنٹرول کو موثر نہیں بنایا جائے گا اور ایسے قوانین وضع نہیں کیے جائیں گے جو کاشتکاروں کو تحفظ دیں تو پھر زرعی ملک میں اجناس کی قیمتوں کو کنٹرول نہیں کیا جا سکے گا اور غذائی بحران مسلسل سر اٹھاتا رہے گا۔

ابھی تو اس بحران کی شروعات ہوئی ہے اگلے چند ماہ میں اس میں مزید شدت کا قوی امکان ہے کہ سندھ کی زمینیں سیلاب کی نذر ہو چکی ہیں، اب ان زمینوں پر کاشت آیندہ سال ہی ممکن ہو سکے گی۔ رواں برس گندم کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا امکان ہے جس کا آغاز ابھی سے ہو چکا ہے۔

ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ پاکستان دنیا کے چند بڑے زرعی ملکوں میں شامل ہے، ہمارا نہری نظام ایشیا کا سب سے بڑا ہے۔ ہماری زمینیں زرخیز ہیں لیکن یہ سب کچھ جھوٹ لگتا ہے، ہم اپنی بنیادی ضروریات کے لیے گندم کبھی امریکا سے تو کبھی روس سے منگواتے ہیں۔

سبزیوں کے لیے ہم بھارت کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن ہم نے کبھی وہ وجوہات تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ہماری سونا اگلتی زمینوں کو کس کی نظر کھا گئی ہے۔ گاؤں سے اطلاع آئی ہے کہ گزشتہ حکومت میں ٹیوب ویل کے لیے بجلی کے فی یونٹ سرکاری نرخ نو روپے تھے جو موجودہ حکومت نے بڑھا کر سولہ روپے کر دیے اور اب ان میں تین روپے کچھ پیسے کی کمی کر کے کاشتکاروں پراحسان کیا جا رہا ہے ۔

میرے ٹھیکیدار یہ شکوہ کرتے ہیں کہ سردیوں میں جب زمین کو پانی کی ضرورت نہیں ہوتی اور ٹیوب ویل نہیں چلتا تو پھر بھی چھ سے آٹھ ہزار تک ٹیکس کی مد میں بجلی کا بل آجاتا ہے۔ مجھے ارباب اختیار سے یہ گزارش کرنی ہے کہ وہ غریب کسانوں کو تو ان ٹیکسوں سے معاف رکھیں اور اپنی عیاشیوں کے لیے ہم شہروں میں رہنے والوں کے ٹیکسوں پر ہی گزارہ کریں۔

کسان تو پہلے ہی بحران کی زد میں ہیں۔ حکومت کو فوری طور پر زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے کسان نمایندوں کی مشاورت سے زرعی پالیسی کو ازسر نو مرتب کرنا ہو گا تا کہ زرعی پیداوار میں اضافے کی کوئی صورت نکالی جا سکے، پاکستان زرعی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتا ہے بشرطیکہ کوئی درد دل رکھنے والا اس جانب توجہ دے ورنہ ہم ہمیشہ کی طرح بحرانوں کی زد میں ہی رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔