گھر تباہ نہ ہونا چاہیے

زاہدہ حنا  بدھ 11 جنوری 2023
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ہمارے یہاں یہ ایک عجیب روش نکلی ہے کہ بڑے بڑے ادیب جب جہان سے گزر جاتے ہیں ، تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی وہ بیویاں جنھوں نے ان کی زندگی میں کبھی قلم نہیں اٹھایا تھا ، وہ کیسی سکہ بند لکھنے والیاں بن کر سامنے آئیں۔

اس کی سب سے بڑی مثال حمیدہ اختر حسین ہیں۔ ہمارے ایک جید ادیب اختر حسین رائے پوری کی بیگم ، وہ جیتے رہے توبیوی نے گھر والوں اور دوستوں کو خط لکھنے کے سوا کبھی قلم نہیں اٹھایا لیکن ان کے جانے کے بعد ڈاکٹر جمیل جالبی کی رائے پر قلم اٹھایااور ان کی کتابیں ’’ بیسٹ سیلر‘‘ ہوگئیں۔ کچھ ایسا ہی ہمارے ادیب اور نقاد ڈاکٹر نظیر صدیقی کی بیگم کے ساتھ ہوا۔

وہ شادی سے پہلے کچھ لکھتی تھیں لیکن شادی کے بعد نظیر صاحب نے کچھ ایسی ’’ قدر افزائی‘‘ کی کہ وہ قلم کو کہیں رکھ کر بھول گئیں۔

نظیر صاحب کے جانے کے بعد فرحت پروین ملک کی دوکتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ اس وقت ان کا خیال اس لیے آیا کہ اپنی تازہ کتاب میں بہت محبت سے میرا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ زاہدہ حنا کو قرۃ العین کی تحریروں سے اتنا عشق ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ وہ یہ وصیت نہ کر جائیں کہ قرۃ العین حیدر کی کتابوں کا پلندہ ان کے ساتھ دفن کر دیا جائے۔

پروین ملک کی یہ سطریں پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ قرۃ العین حیدرکوگزرے ہوئے سالہا سال ہوگئے اور میں نے بہت دنوں سے ان کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ان دنوں اپنی پرانی تحریریں دیکھ رہی ہوں تو ان کا ایک رپورتاژ ’’ستمبرکا چاند ‘‘ یاد آیا۔

کہنے کو یہ ایک رپورتاژ ہے لیکن اسے اوّل تا آخر پڑھ جائیے۔ ایک دانشور اس میں اپنی چھب دکھا رہا ہے۔ اس وقت تک ان کا معرکۃ آراء ناول ’’ آگ کا دریا ‘‘ شایع نہیں ہوا تھا اور لوگ ان کے افسانوں اور ناولوں کے حوالے سے انھیں پہچانتے تھے۔

اس رپورتاژ میں انھوں نے جاپان کی سر زمین میں دنیا کے درجنوں اہم ادیبوںکے درمیان رہ کر جنگ ، امن اور جمہوریت کی باتیں کی اور سنی ہیں۔

مشرقی یورپ کے بہت سے ادیب ہیں۔ انھیں جلاوطن ادیب کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ کن عذابوں میں گرفتار ہیں۔ گھر سے بے گھر، در بدر ہوئے۔ اپنے ملک میں جان کا خطرہ،مغرب کے ملکوں میں رہتے ہیں،روزی روٹی کا بندوبست ہے، لیکن دل اپنے زمین و آسمان کو ترستا ہے۔ آزادی عنقا کا پر ہے جس کا ذکر بے دریغ کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ سے پوچھتی ہیں کہ آزادی کیا ہے۔

ایک مابعدالطبیعاتی سوال۔ آزادی لکھنے والوں کی، سیاسی اور ذاتی آزادی۔ اسی طرح وہ ’’ امن ‘‘ کے بارے میں بھی سوال اٹھاتی ہیں۔ وہ چند برس پہلے ہندوستانی شہری تھیں ، پھر ہندوستان تقسیم ہوگیا اور وہ ہندوستانی سے پاکستانی شہری بن گئیں۔

اس رپورتاژ کو لکھتے ہوئے وہ پاکستانی شہری تھیں۔ ان کی لکھی ہوئی سطروں کے درمیان بہت سی ان کہی باتیں ہیں۔ ان کا ذہن دبدھا میں مبتلا ہے۔ کچھ دن جاتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کریں گی اور پاکستان سے واپس ’’ وطن‘‘ چلی جائیں گی۔

وہ آندرے شازوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ دوسری اور پہلی جنگ عظیم کی خبریں ہمارا مشترک ماضی ہیں اور ان کے سامنے جھکے ہوئے ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔ قرۃ العین کے اردگرد اسٹین بک ، اسٹیفن اسنیڈر، ایلمر رائس، پال ٹیسوری، اینگس ولسن ، الزبتھ ڈائننگ اور مختلف زبانوں کے درجنوں جید ادیب موجود ہیں۔

ان کے درمیان وقت گزارتے ہوئے وہ بے اختیار کہتی ہیں کہ یہ مغربی دانشور جو پچھلے دو سو برس سے دنیا کی تہذیب کے علمبردار بنے ہوئے ہیں ، اب وقت آگیا ہے کہ ان کو معلوم ہو کہ ان کا زمانہ رخصت ہوا۔ یہ مشرقی اقوام کے عروج کا زمانہ ہے ، وہ اس بات کا بطور خاص ذکر کرتی ہیں کہ جاپانی محل میں باضابطہ محکمہ شاعری قائم کیا جاچکا تھا۔

مشاعرے ہوتے تھے۔ امراء شہزادیاں اور بیگمات بھی شاعری کرتی تھیں۔ وہ چینی زبان کی اس خاتون ناول نگار کا ذکرکرنا نہیں بھولتیں جس کا ناول 4 ہزار صفحات پر مشتمل تھا اور سنہ 1000ء میں لکھا گیا۔

وہ ہیروشیما کا معاملہ بھی اٹھاتی ہیں اور کیسے نہ اٹھائیں کہ یہ صرف بارہ تیرہ برس پہلے کا معاملہ ہے۔ ایک ہندوستانی ادیب اس بات پر گریہ کناں ہیں کہ اردو جیسی پیاری اور دلوں کو جوڑنے والی زبان کو اس کے اپنے دیس سے نکالا جارہا ہے۔

ڈاکٹر آئینگر سے گفتگو کرتی ہیں جو اس بارے میں بہت دکھی ہیں اور کہتے ہیں کہ زبان کے معاملے میں لوگ دیوانے ہوگئے ہیں۔ آج برصغیر میں زبان کے معاملے میں جس قدر نفرت سے کام لیا جا رہا ہے اسے دیکھ کر دل لرزتا ہے۔

اس حالت سے ڈاکٹر آئینگر اداس ہیں۔ قرۃ العین حیدر خود بھی بے چین ہیں لیکن صرف دو برس بعد وہ ہندوستان چلی جاتی ہیں۔ وہ جو اوّل تا آخر اردو ادیب تھیں اور جنھوں نے 2007 تک اردو اور انگریزی میں لکھا۔ ان کی کتابوں کے ہندی ، مراٹھی ، گجراتی ، سندھی ، بنگلہ اور ہندوستان کی تمام اہم زبانوں میں تراجم ہوئے لیکن عصمت چغتائی یا بعض دوسرے اردو ادیبوں کی طرح انھوں نے دیونا گری لپی اختیار نہیں کی۔

انھیں اردو اور فارسی کے تخلیقی اور تہذیبی ورثے پر ناز تھا ، اسی طرح وہ ہندی، سنسکرت اور بنگلہ کے ادبی سرمائے پر بھی نثار تھیں۔

اس کانفرنس میں برٹش کونسل ہال کی ایک شبینہ محفل میں وہ شعری داستانوں کے ساتھ اپنے خاندان ( پاک و ہند) کے دکھ سکھ کی باتیں کرتی رہتی ہیں۔ پھر وہ سوچتی ہیں کہ مجھے کیا حق ہے کہ میں باہر کے ملکوں میں آکر لمبے لمبے سفید جھوٹ بولوں۔ کلچر ، امن اور زندگی کی اعلیٰ اقدار سچائی اور ایمانداری پر تقریریں کروں۔

اس کام کے لیے سفارتخانے اور امیروں، وزیروں کے وفد کیا کافی نہیں؟ کلچر اور زندگی کی اعلیٰ ابدی اقدار۔۔۔۔۔ میرے پس منظر میں نہ صرف روح کو ٹکڑے ٹکڑے کردینے والے دکھ ہیں۔

جھوٹ اور ریا کاری کی فصلیں میرے چاروں اور کھڑی ہیں۔ کانفرنس میں ایک موقع ایسا بھی آتا ہے جب قرۃ العین حیدر کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملتا ہے، تب وہ کہتی ہیں۔ ’’ برصغیر ہند و پاکستان کی ساری علاقائی زبانوں میں انسان پرستی کی زبردست بیک گراؤنڈ موجود ہے۔

پچھلی صدیوں میں شمالی ہند ، بنگال ، پنجاب ، سندھ ، مہاراشٹر اور جنوبی ہند کے شاعروں، صوفیوں اور سنتوں نے اپنی ہیومنزم کی بناء پر اعلیٰ ترین ادب کی تخلیق کی۔ لہٰذا یہ خیال بھی غلط ہے کہ مشرق انسان پرستی کے خیالات سے نابلد تھا۔

یورپ کی حالیہ خونریز جنگوں کے زمانے میں وہاں کے بیشتر فنکار انسان پرستی وغیرہ کو بھول چکے تھے، لیکن ہمارے ادیبوں نے زبردست ترین کرائسس کے موقع پر بھی توازن کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ہیروشیما کی لاشیں ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں اور وقت انھیں 1958 سے 1945میں کھینچ لے جاتا ہے۔

بے شمار لاشیں اب پانی میں تیر رہی تھیں۔ گیند کی طرح پھولی ہوئی اور سفید۔ بڑی عجیب بات تھی کہ مردوں کی لاشیں منہ کے بل تیر رہی تھیں اور عورتوں کے چہرے اوپر تھے۔ عرصہ ہوا میں نے ’’ ہیملٹ ‘‘ میں مری ہوئی اوفیلیا کو اس طرح تیرتے ہوئے دیکھا تھا ، وہ کس قدر صحیح تھا۔

پویلین میں گٹار زور و شور سے بجنا شروع ہوگیا۔ جس وقت بجلی کا کوندا لپکا ، دفعتاً گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا۔ میرے چہرے کی کھال جدا ہونے لگی اور دھجیاں بن کر چہرے سے لٹک گئی۔ سامنے اسپتال تھا۔ یکلخت اس کی ہر کھڑکی سے سفید دھواں باہر نکلنا شروع ہوا اور دوسری اور تیسری منزلوں سے مریض اور سفید پوش نرسیں کود کود کر دھوئیں میں گرنے لگیں۔ وہ سب نیچے سیمنٹ کی سڑک پر گرتے ہی ختم ہوگئے ہوں گے۔

ہم سب نے بے تحاشا دوڑنا شروع کیا اور دریا تک پہنچے۔ وہاں سیکڑوں آدمی زخمی اور جلے ہوئے پانی میں اپنے چیتھڑے بھگونے کی کوشش کر رہے تھے۔

ایک آدمی پانی پانی چلا رہا تھا۔ مجھے اور میرے ہم جماعتوں کو ایک ٹرک میں بھرکر اوجینا بھیج دیا گیا جہاں اسپتال میں پڑے پڑے ہم چیخا کرتے۔۔۔ میرے ساتھ کے طالب علم اس وقت تک ایک ایک کر کے مر چکے تھے لیکن میں زندہ رہا۔ اکثر ٹراموں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو جن کے چہرے بگڑ چکے ہیں، دوسرے لوگ گھورتے ہیں تو مجھے بڑی شرمندگی ہوتی ہے کیونکہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں خود ان لوگوں میں شامل ہوں۔ دنیا کو ابھی تک اس کا احساس نہیں ہوا کہ جنگ کی اور ایٹم بم کی تباہ کاری کے کیا معنی ہیں۔

اس رپورتاژ کے اختتام پر وہ بے ساختہ لکھتی ہیں ’’ ہر سفر کے بعد گھر موجود ہونا چاہیے اور گھر تباہ نہ ہونا چاہیے۔‘‘

قرۃ العین کے اس آخری جملے پر غورکیجیے کہ ’’گھر تباہ نہ ہونا چاہیے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔