- پاکستان سپر لیگ نے عالمی سطح پر اپنی شناخت بنالی ہے، نجم سیٹھی
- گلگت بلتستان میں 3 جدید سائنس لیبارٹریاں بنانے پر اتفاق
- سیالکوٹ میں شادی سے انکار پر پانچ بچوں کی ماں قتل
- حکومت اور اپوزیشن میں کوئی صلاحیت نہیں ہے، شاہد خاقان
- پیپلزپارٹی کا عمران خان کو قانونی نوٹس بھیجنے کا اعلان
- جعلی لیڈی ڈاکٹر بن کر ہراساں کرنے والا ملزم گرفتار
- ڈیرہ غازی خان میں سی ٹی ڈی کی کارروائی، دو دہشت گرد ہلاک
- کراچی میں اتوار کی صبح بوندا باندی کا امکان ہے، محکمہ موسمیات
- ای پاسپورٹ فیس میں اضافے کی خبریں بے بنیاد قرار
- متحدہ عرب امارات کے صدر پیر کو ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچیں گے
- اسلام آباد میں پیر کو چھٹی کا اعلان
- امریکی رکن کانگریس نے اے آئی سافٹ ویئر سے لکھی تقریر پڑھ ڈالی
- بسکٹ ہمارے وزن میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، تحقیق
- جرمنی نصب کی جانے والی آئی میکس اسکرین نے دو گینیز ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیے
- مری ڈسٹرکٹ اسپتال کی مسروقہ تینوں ڈائیلاسز مشین برآمد، ڈاکٹراور خریدار گرفتار
- پاکستانی زائرین نے درگاہ اجمیر شریف پر چادر چڑھائی
- عمران خان کے آصف زراری مخالف بیان پر وزیراعظم دفاع میں سامنے آگئے
- عمران خان جو بھی فیصلہ کریں ہم اُن کے ساتھ کھڑے ہیں، حبہ چوہدری
- الیکشن کمیشن دھمکی کیس، فواد چوہدری مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
- سونے کی فی تولہ قیمت میں مزید 6500 روپے کا اضافہ
لاہور ہائی کورٹ اور اعتماد کا ووٹ
وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اعتماد کا ووٹ نہیں لیا۔ شنید یہی ہے کہ اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے ووٹ پورے کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے لیکن ووٹ پورے نہیں ہو سکے ہیں۔
ویسے تو نو جنوری کے اجلاس کے لیے جو ایجنڈا جاری کیا گیا تھا، اس میں اعتمادکا ووٹ لینا شامل نہیں تھا، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اندازہ ہو گیا تھاکہ ووٹ پورے نہیں ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے جب گورنر پنجاب کا نوٹیفکیشن معطل کیا تھا، تب وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند نہیں کیا تھا۔کہا گیا تھا کہ اگر وہ خود چاہیں تو اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیںلہٰذا اعتماد کا ووٹ لینا کوئی قانونی ضرورت بھی نہیں تھی۔ لیکن اعتماد کا ووٹ نہ لیناظاہر کرتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے پاس پنجاب اسمبلی میں اکثریت نہیں ہے۔
اب تمام نظریں لاہور ہائی کورٹ پر لگ گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے ذرایع کے مطابق ان کی کوشش ہو گی کہ گیارہ جنوری کی سماعت پر التوا مل جائے۔ وکلا کو یہی ہدایت کی گئی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کیس کو لمبا کیا جائے، اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی کو بڑھا دیا جائے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا۔
ادھر گورنر کے وکیل کی کوشش ہو گی کہ ہائی کو رٹ وزیر اعلیٰ کو فوری اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کر دے۔ پی ڈی ایم کی بھی یہی کوشش ہو گی۔
تحریک انصاف کے رہنما بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ صدر مملکت کسی بھی وقت وزیر اعظم کو اعتما دکے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں۔
جب تحریک انصاف یہ مانتی ہے کہ صدر مملکت وزیر اعظم کو کہہ سکتے ہیںتو پھر گورنر وزیر اعلیٰ کو کیوں نہیں کہہ سکتا۔بہر حال امید یہی ہے کہ پرویزالٰہی کو التوا کی رعایت تو مل سکتی ہے۔
لیکن بالا آخر انھیں اعتماد کا ووٹ لینا ہی پڑے گا، سیاسی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے وکلاء کیس کوفروری تک التوا میں رکھنے کی کوشش کریں گے،بنچ ٹوٹنے کی بھی بازگشت ہے۔ پی ڈی ایم سپریم کورٹ جانے کا سوچ رہی تھی۔
لیکن پھر یہی فیصلہ ہوا کہ گیارہ جنوری کی تاریخ کو دیکھا جائے کہ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اگر گیارہ جنوری کو کیس ملتوی ہو گیا تو پھر سپریم کورٹ جانے کی بھی تیاری ہے۔ تا ہم پہلی کوشش یہی ہے کہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں ہی حل ہو جائے۔ لاہور ہائی کورٹ ہی پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند کر دے۔
تحریک انصاف اور ق لیگ کے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر فرض کر لیں پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ نہ لے سکیں تو پھر وزیر اعلیٰ کا دوبارہ انتخاب ہو گا اور تحریک انصاف اور ق لیگ دوبارہ انتخاب جیت جائے گی، اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ لیکن دوسری طرف بھی یہی کہا جارہا ہے کہ جس طرح ووٹ ہوتے ہوئے پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکتے۔
اسی طرح دوبارہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب جیتنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ (ن ) کے اندر سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ انھوں نے بھی دوبارہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی مکمل تیاری کر لی ہے۔ اس بار معرکہ مختلف ہو گا۔ اس لیے ایسا لگ رہا ہے کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے نئے انتخاب کی تیاری کی جا رہی ہے ، دونوں طر ف صف بندی ہو گئی ہے۔
بس عدالت کے فیصلے کا انتظار ہے،اس لیے سب نظریں لاہور ہائی کورٹ پر ہیں۔ تخت پنجاب کا فیصلہ وہیں ہوگا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔