ترکی میں بلدیاتی انتخابات میں شاندارکامیابی سے اسلام پسند اردگان کی پوزیشن مزید مستحکم

عبید اللہ عابد  اتوار 6 اپريل 2014
وزیراعظم طیب اردگان نے اپنے دورمیں کردوں کو ملکی سیاست میں شامل کرکے ترک قوم کو طویل عرصہ سے لاحق سردرد کا خاتمہ کیا۔  فوٹو : فائل

وزیراعظم طیب اردگان نے اپنے دورمیں کردوں کو ملکی سیاست میں شامل کرکے ترک قوم کو طویل عرصہ سے لاحق سردرد کا خاتمہ کیا۔ فوٹو : فائل

ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان کی جماعت جسٹس اینڈڈویلپمنٹ پارٹی نے ملک میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پہلے سے کہیں بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے۔

ترکی میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ہمیشہ حکومتی کارکردگی کے بارے میں قوم کا فیڈبیک ہوتے ہیں۔ وزیراعظم اردگان اس صدی کے اوائل سے ملک پر حکمرانی کررہے ہیں۔ ان کی جماعت نے سن 2002ء میں، ایسے حالات میں حکومت بنائی جب سابقہ حکومتیں کرپشن اور نااہلی کے ذریعے ملکی معیشت کا دیوالیہ نکال چکی تھیں۔ تاہم طیب اردگان نے ملک وقوم کو مشکلات سے نکالا اور دنیا کی تیزرفتارمعیشتوں کی صف میں لا کھڑا کردیا۔ اسلام پسنداردگان کے دورحکمرانی میں سیکولرسیاسی قوتیں انتخابی میدان میں ان کا مقابلہ نہ کرپائے، پارلیمانی ہو یا پارلیمانی ہرقسم کے انتخاب میں شکست سے دوچار ہوئے لیکن گزشتہ چند برسوں سے ان مخالفین نے مختلف ایشوز پر اردگان حکومت کے خلاف طوفان کھڑا کرنے کی کوشش ضرور کی۔ مثلاً استنبول کے ایک پارک میں توسیع اور اس کے ڈیزائن میں بہتری لانے کی کوشش کی گئی تو اس پر ہنگامہ کھڑا کیاگیا، کئی دنوں تک حکومتی اقدام کے خلاف دھرنا دیاگیا،ان دنوں مغربی میڈیا کا مطالعہ کیاجاتا تو ایسا محسوس ہورہاتھا جیسے یہ دھرنا طیب اردگان کو لے ڈوبے گا۔تاہم یہ احتجاج اپنی موت آپ مرگیا۔

گزشتہ مہینوں کے دوران اردگان حکومت کے خلاف کرپشن سکینڈلز کا شورمچا۔ ان کی حکومت کے خلاف گذشتہ سال جون کے بعد سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری تھا۔ان کے اور ان کے بعض قریبی ساتھیوں کے بارے میں آن لائن ویڈیو ٹیپس جاری کی گئی تھیں جن میں ان کی حکومت پر بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں اور اس کرپشن سکینڈل کو ان کی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جارہا تھا۔ حزب اختلاف نے ان ٹیپس کے منظرعام پر آنے کے بعد حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا تاہم طیب اردگان نے ان آڈیو ٹیپس کو جعلی قراردے کر مسترد کردیا تھا اور اسے اپنے سیاسی حریفوں کی جانب سے رکیک حملہ قراردیا تھا۔ وزیراعظم نے اس سارے کھیل کو اپنی حکومت کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش قراردیا تھا۔ انھوں نے کہاکہ اْن کے خلاف کرپشن کیسز سے متعلق ریکارڈنگ لیک کرنے میں گولن اور امریکا کا ہاتھ ہے۔ ان ریکارڈنگز کی تصدیق آزاد ذرائع سے نہیں کی جا سکتی۔

بعض عالمی طاقتیں جن میں سے کچھ اسی خطے سے بھی تعلق رکھتی ہیں، طیب اردگان کو پسند نہیں کرتیں، اس لئے وہ ان کے خلاف کسی بھی مہم پر کم ازکم تالیاں ضرور بجاتی ہیں۔امریکہ بظاہر ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے میں کوشاں نظرآتاہے لیکن وہ طیب اردگان اور اسرائیل کے درمیان کشمکش میں اسرائیل کے پلڑے میں وزن ڈالتاہے۔ تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کو رسوائی کا سامنا ہے، جس طرح پہلے پوری دنیا کسی نہ کسی طرح اس کے ساتھ تھی، اب نہیں ہے۔ اسرائیل کے معاملے میں اقوام عالم منقسم نظرآتی ہیں۔ اسرائیل کو ان حالات سے دوچارکرنے میں واحد کردار طیب اردگان کا ہے۔ فلسطینیوں کی حمایت، اسرائیل کی مخالفت، ایران ، عراق سے مختلف معاہدوں، شام کی بشارالاسدحکومت کو ہزیمت سے دوچارکرنے جیسے پہلوؤں کی وجہ سے طیب اردگان کی قیادت میں ترکی نے علاقائی اور عالمی سیاست میں خوب قدکاٹھ نکالا۔اس کے سبب بعض علاقائی طاقتوں کو بھی طیب اردگان ہضم نہیں ہورہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔

اگرچہ انتخابات سے پہلے رائے عامہ کے جائزے ظاہر کررہے تھے کہ حکمران جماعت کو موجودہ بلدیاتی الیکشن میں 40 سے 45 فی صد ووٹ ملیں گے۔ تاہم کرپشن سکینڈلزکے شور میں بعض تجزیہ نگاروں کاکہناتھا کہ اسکی وجہ سے اردگان حکومت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے، ان کا خیال تھا کہ لوگ اسی بنیادپر ان بلدیاتی انتخابات میں انھیں بدترین شکست سے دوچارکریں گے۔ رائے عامہ کے بعض جائزوں سے بھی تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ بدعنوانیوں کے ان سنگین الزامات سے جماعت کی مقبولیت پر فرق پڑا ہے۔ میٹروپول ریسرچ کمپنی کے جنوری میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق جسٹس پارٹی کو 36.3 فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل تھی۔ حمایت کی یہ شرح گزشتہ بلدیاتی انتخابات کی نسبت تین فیصد کم تھی۔

عدم مقبولیت پر مبنی رائے عامہ کے جائزوں کے تناظر میں تجزیہ نگار یہ دلیل بھی لارہے تھے کہ ترک معاشرے میں غیرمعمولی طورپر مقبول اسلامی سکالر فتح اللہ گولن بھی طیب اردگان سے سخت ناراض ہیں، گولن تحریک اور جسٹس پارٹی میں سخت مخالفت کا تبادلہ ہورہاہے، اس لئے ان کے حامی اردگان کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے، یوں طیب اردگان کو سخت جھٹکا لگے گا۔ تاہم ان تجزیہ نگاروں کا خیال خام ثابت ہوا۔

جب سطورلکھی جارہی تھیں ، اس وقت مجموعی طورپر 97.97فیصد ووٹوں کی گنتی ہوچکی تھی۔ حاصل شدہ نتائج کے مطابق مجموعی طورپر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے 43.31فیصد ووٹ حاصل کئے ۔ سن2009ء کے بلدیاتی انتخابات میں اسے 38.84 فیصد ووٹ حاصل کئے۔گزرے پانچ برسوں میں قریباً پانچ فیصد حمایت بڑھی۔ دوسرے نمبر پر ری پبلیکن پارٹی رہی، اسے 25.64 فیصدووٹ ملے، سن2009ء کے انتخابات میں ری پبلیکن پارٹی نے23.11 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس اعتبار سے اس کی حمایت میں محض دوفیصد کا اضافہ ہوسکا۔ تیسرے نمبر پر نیشنلسٹ اور قدامت پسند جماعت ’ملی حرکت پارٹی‘ رہی، جسے 17.67فیصد ووٹ ملے۔ 2009ء کے بلدیاتی انتخابات میں ملی حرکت پارٹی کو 16فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس بار اس کی حمایت میں محض ایک فیصد کااضافہ ہوا۔

اردگان کی جماعت 49شہروں، صوبوں جبکہ 560ضلعوں میں حکومت سازی کرے گی۔ جبکہ ری پبلکن پارٹی 13شہروں ، صوبوں جبکہ 162ضلعوں میں حکمران ہوگی۔ پیس اینڈ ڈیموکریسی (بی ڈی پی) 10شہروں، صوبوں اور 67اضلاع میں حکومتیں قائم کرے گی۔ یہ کردوں کی جماعت ہے، وزیراعظم طیب اردگان نے اپنے دورمیں کردوں کو ملکی سیاست میں شامل کرکے ترک قوم کو طویل عرصہ سے لاحق سردرد کا خاتمہ کیا۔ یہ جماعت ووٹ حاصل کرنے میں چوتھے نمبر پر رہی لیکن حکومتیں حاصل کرنے میں تیسرے نمبر پر رہی۔ سیکولرازم کی کھلی مخالف جماعت ملی حرکت پارٹی ووٹوں میں تیسرے نمبر رہی لیکن اس کی 8شہروں، صوبوں اور 101اضلاع میں حکومتیں قائم ہوں گی، اس اعتبار سے وہ چوتھے نمبر پر رہی۔ترکی کے اعلیٰ انتخابی بورڈ کے مطابق ملک بھر میں پانچ کروڑ سے زیادہ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل تھے اور انھوں نے میئروں اور مقامی اسمبلیوں کے چناؤ کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔ملک بھر میں دو لاکھ سے زیادہ پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔

ملکی تاریخ میں استنبول اور انقرہ کی حکمرانی کسی بھی جماعت کے لئے اہم ترین رہی ہے، ان دونوں شہروں کی حکومتیں گزشتہ کئی عشروں سے جسٹس پارٹی کے پاس ہیں، اب بھی طیب اردگان کی جماعت ہی جیتی ہے۔ اگر ان شہروں میں اپوزیشن کے امیدوار کامیاب ہو جاتے تو یہ وزیراعظم اردگان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو سکتاتھا۔ استنبول میں جسٹس پارٹی کو 47.85فیصد ووٹ ملے جبکہ انقرہ میں44.64فیصد۔

یقیناًیہ انتخابات طیب اردگان کے لئے ایک ریفرنڈم کا درجہ رکھتے تھے جس میں وہ ایسے کامیاب ثابت ہوئے کہ آئندہ صدارتی و پارلیمانی انتخابات میں ان کی جماعت کی بھرپور کامیابی کے بارے میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہا۔ ترک اپوزیشن میں کوئی ایسا کرشمہ نہیں تھا کہ جس سے قوم متاثر ہوتی اور نہ ہی اس کے پاس کوئی ایسے ایشوز ہیں کہ قوم اس کورہنمائی کی حق دار سمجھتی۔ دوسری طرف وزیراعظم اردگان صرف اپنی کارکردگی کی وجہ سے مسلسل کامیابی حاصل کررہے ہیں۔بلدیاتی انتخابات سے پہلے ماہرین جس فتح اللہ گولن فیکٹر کو اردگان کی شکست کا ممکنہ پہلو بتارہے تھے، وہ کام نہ آسکا۔ان ماہرین کو ایک سیدھی سی بات سمجھ نہ آسکی کہ گولن تحریک کے پاس طیب اردگان کی حمایت کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔ وہ ترکی کو دیوالیہ کرنے والی ری پبلیکن اور دوسری پارٹیوں کی حمایت کسی طورپر بھی نہیں کرسکتے۔

بلدیاتی انتخابات جیتنے کے بعد ترک وزیراعظم نے بلدیاتی انتخابات میں جسٹس پارٹی کی فتح کو شاندار قراردیا، انقرہ میں اپنی پارٹی کے ہیڈکواٹرز کی بالکونی سے فاتحانہ تقریر میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا:’’سب سے پہلے میں اپنی فتح کے لیے خدائے رب العزت کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘۔ انھوں نے اپنے ووٹروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’آپ سب نے ترکی کی آزادی کی نئی جدوجہد کو گلے لگایا ہے، ملک کے نظریات اور نصب العین کو اپنایا ہے، آپ نے خود اپنا مستقبل، اپنا لیڈر اپنی سیاست کا انتخاب کیا ہے اور اس کے لیے میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘۔ طیب اردگان نے اپنے مخالفین سے کہاکہ وہ اب آئینے(انتخابی نتائج) میں اپنے آپ کو دیکھ لیں۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ان کے حریفوں کو ان کے اقتدار کے خاتمے کی سازش کی قیمت چکانا پڑے گی۔

طیب اردگان نے بلدیاتی انتخابات کی مہم کے دوران اعلان کیاتھا کہ ان کی جماعت پہلے سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کرسکی تو وہ میدان سیاست سے رخصت ہوجائیں گے۔ پہلے سے زیادہ بڑی کامیابی کے بعد اب اپوزیشن کے پاس بھی ان سے استعفیٰ مانگنے کا جواز باقی نہیں رہا۔ البتہ سیکولر حلقے ری پبلیکن پارٹی کے سربراہ کمال قلیج دار اوغلوسے پارٹی قیادت چھوڑنے کا مطالبہ کررہے ہیں کیونکہ وہ گزشتہ بارہ برسوں کے دوران اسلام پسند حکمرانوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے، ان کی قیادت میں سیکولرووٹ میں قطعی طورپر اضافہ نہیں ہوسکا۔کمال اوغلو نے اس امرپر افسوس کا اظہار کیاکہ طیب اردگان کے حامیوں نے ان کی بات پر کان نہ دھرے۔ معروف ترک اخبار ’حریت‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا’’ یہ لوگ صرف ایک ہی شخص کی بات سنتے ہیں اور وہ ہے طیب اردگان‘‘۔ اپوزیشن رہنما کے اس جملے سے ان کی بے بسی کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔اب اپوزیشن لیڈر کہتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج وزیراعظم اردگان کے دامن سے کرپشن کے داغ نہیں دھو سکتے۔ وہ اب بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ اردگان قوم کو مسلسل تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

بلدیاتی انتخابات سے قبل ایسی خبریں بھی شائع ہورہی تھیں کہ وزیراعظم اردگان اور صدر عبداللہ گل کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوگئے ہیں ۔ تاہم آنے والے دنوں نے ثابت کردیا کہ یہ خبریں درست نہیں تھیں۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد صدر عبداللہ گل نے جس فوری ردعمل کا اظہارکیا، اس نے رہے سہے شکوک وشبہات بھی ختم کردئیے، انھوں نے کہا کہ’’ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ کیسے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔ انھوں نے ہر کسی پر زوردیا کہ وہ بالغ نظری کے ساتھ انتخابی نتائج کو تسلیم کرے اور ان کا احترام کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہماری قوم مضبوط ہے اور ہرکسی کو اس میں یقین ہونا چاہیے۔تمام چیلنجز کا قانون کے مطابق مقابلہ کیا جانا چاہیے اور ترکی مضبوط طریقے سے آگے بڑھے گا‘‘۔

بلدیاتی انتخابات کے بعد صدارتی و پارلیمانی انتخابات طیب اردگان کی جماعت کے لئے امتحان ثابت ہوں گے۔ پارلیمانی انتخابات میں ابھی کئی ماہ باقی ہیں تاہم صدارتی الیکشن اگست میں ہوں گے۔ خیال ہے کہ طیب اردگان صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے کیونکہ ترک آئین کے مطابق وہ اگلی باروزیراعظم نہیں بن سکیں گے۔ مخالفین وزیر اعظم اردگان پر الزام عائد کررہے ہیں کہ انھوں نے آئین میں ترمیم یا بغیر کسی آئینی ترمیم کے اگلے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ وزیر اعظم کے ایک مقرب خاص اور خصوصی معاون طہ کینٹچ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم اردگان ملک میں مکمل صدارتی نظام یا کم سے کم موجودہ اختیارات کے ساتھ سربراہ مملکت بننے کا قطعی ارادہ رکھتے ہیں۔اسی طرح طیب اردگان کے بارے میں یہ بھی کہاجارہاہے کہ وہ پارٹی قیادت سے بھی  الگ نہیں ہورہے ہیں۔ ذرائع کا کہناہے کہ ان پر کارکنان کا دباؤ ہے کہ وہ پارٹی قیادت اپنے پاس ہی رکھیں، پارٹی ممبرز اس کے لئے پارٹی دستور میں ترمیم کرنے کے لئے پرجوش ہیں۔اس سارے منظرنامے میں طیب اردگان اور ان کی جماعت ہی ترکی میں ہرطرف نظرآرہی ہے۔ اگست میں ہونے والے صدارتی انتخابات اور اس کے بعد پارلیمانی انتخابات میں اردگان ہی مرکز و محور ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔