ان ہی لوگوں نے…

سعد اللہ جان برق  جمعرات 12 جنوری 2023
barq@email.com

[email protected]

آدم خان بچپن میں ہی یتیم ہوگیا تھا لیکن اس کا باپ بہت کچھ چھوڑ گیا تھا، اس لیے اسے کوئی زیادہ تکلیف نہیں ہوئی تھی ،تکلیف اس وقت ہوئی جب اس کے چچا نے نہ صرف ان کی زمین اورجائیداد پر قبضہ کیا بلکہ اس کی ماں کو بھی زبردستی اپنی بیوی بنا لیا لیکن وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا کیوں کہ اس کاچچا نہ صرف اوباش تھا بلکہ ظالم اور بدمعاش تھا اورچار پانچ جوان بیٹے تھے۔

آدم خان کے ساتھ چچا اورچچا زادوں کا سلوک ظالمانہ اور سوتیلا نہ تھا اور اس کی ماں کچھ کہتی تو اسے بھی مارتے پیٹتے تھے، اس لیے آدم خان بھی سب کچھ برداشت کرتا،آخر آدم خان یہاں وہاں مزدوری کرتا ہوا جوان ہوا ، تو وہ ملک سے باہرچلاگیا ، ماں کو جو کچھ بھیجتا وہ بھی  ظالم چچا اورچچازاد چھین لیتے تھے۔

آخر کار اپنی عیاشیوں اور اوباشیوں سے چچا اور چچازاد سب کچھ بیچ باچ کر قلاش ہوگئے جو کچھ باقی بچا تھا اس پر بیٹوں نے قبضہ کرکے ’’باپ‘‘ کو بھی محروم کردیا جو اب بڈھا ہوکر اپنی دوسری بیوی یعنی آدم خان کی ماں کے گھر میں پڑ گیا تھا لیکن ظالم اب بھی تھا جو کچھ آدم خان اپنی ماں کو بھیجتا تھا وہ بھی اس سے چھین کر اڑایا کرتا تھا ،یہ کہانی اگر کہیے تو ابھی ابھی ہم نے بنائی ہے اورکہیے تو یہ کہانی حقیقی صورت میں ہمارے سامنے گزر رہی ہے ۔

اس وقت لاکھوں پاکستانی جن کو اپنے اس مادر وطن نے کچھ بھی نہیں دیا جو بہت ہی حسین اورخوش نما وعدوں اور امیدوں سے وجود میں لایاگیا، انگریزوں اورہندوؤں کے مظالم اورآزادی کے وعدے ،جنت الفردوس پہنچانے کے وعدے ،ایک خود کفیل آزاد خود مختار اور وطن میں ہرآزارسے بچاکر بسانے کے وعدے  لیکن جب حقیقت کھلی تو وہ تو شکاریوں کو ایک الگ  شکارگاہ دلانے کا منصوبہ ثابت ہوا ،سب کچھ پر سوتیلے پرکٹوں کا قبضہ ہوچکاتھا ،چچا اورچچازادوں نے سب کچھ چھین کر ’’آدم خان ‘‘ کو سوتیلا بنا دیا ۔

نوکریاں ،افسریاں ،کاروبار سب کچھ آپس میں بانٹا جاتا رہا، آدم کیاکرتا؟ جس وطن نے اسے کچھ نہیں دیا تھا بلکہ چھین لیاتھا سوائے بھاگنے کے اورکیاکرتا، سوتیلے اور بھگائے ہوئے بدنصیب مسافر پردیسی اس وقت ایک اندازے کے مطابق ’’پچیس ارب ڈالر‘‘ سے زیادہ زرمبادلہ اس ملک کو بھیج رہے ہیں اس امید میں کہ ان کے گھونسلے ان کے منہ کھولے ہوئے بچوں کو مل جائیں گے لیکن وہ بھی ’’سوتیلے‘‘ ہڑپ کرجاتے ہیں ۔

پچیس ارب سالانہ زرمبادلہ بھیجنے والوں کے ساتھ ہم کیا کرتے ہیں، کسی دن کسی ایئرپورٹ پر جاکر دیکھیے کہ سالوں طرح طرح کی محنتوں سے ہلکان ہو کر جب وہ وطن آتے ہیں تو سرکاری اہلکار کس طرح ان کو نوچتے کھسوٹتے ہیں ،کس طرح نچوڑتے کھکوڑتے اور لوٹتے ہیں اورکتنی ’’عزت‘‘ دیتے ہیں بلکہ سرکاری محکموں کے سوتیلے ان کے خاندانوں کے ساتھ کیاکرتے ر ہتے ہیں ۔

وہ پچیس ارب سالانہ زرمبادلہ ملک کے خزانے کو دینے والے صرف یہی نہیں دیتے بلکہ کسٹم والے، بینکوں والے، پولیس والے، ایئرپورٹ والے ان سے جو کچھ چھینتے ہیں وہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے، بلکہ اکثر حکومتیں کوئی خوشنما اور پرکشش ’’نعرہ‘‘ ایجاد کرکے ان سے چندے کے طور پر بھی بہت کچھ بٹورلیتی ہیں، قرض اتاروملک سنوارو ، ڈیم بناؤ بجلی بڑھاؤ ،سیلاب زدگان ،زلزلہ زدگان نہ جانے کون کون سے دام اور جال بچھائے جاتے ہیں۔

لیکن اگر نام سنا ہے تو ’’اوورسیزپاکستانیز‘‘ نام کا ایک اورسفید ہاتھی بھی ان کو پلوایا جاتا ہے، اس محکمے یا فاؤنڈیشن میں خاص خاص لوگ رکھے جاتے ہیں جو اوورسیزپاکستانیوں کی بہبود کے لیے ہوائی بیانات اورکاغذی پتنگ اڑاتے ہیں ، بیرون ملک آتے جاتے رہتے ہیں اور وہاں سے لدے پھدے آتے ہیں ۔

اور اگر یہ خدا مارے کئی سال جھلسنے کے بعد وطن آتے ہیں تو ان کا استقبال وہی ’’سگے‘‘ کرتے ہیں جن سگوں نے ان کو بھگایا ہوتا ہے یعنی ان ہی لوگوں ، ان ہی لوگوں نے ،بجروا میں چھینا دوپٹہ میرا۔ ہم سے نہ پوچھو۔اہل اقتدار سے پوچھو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔