قحط کی صورتحال سے ذرا پہلے

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 12 جنوری 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ملک میں قحط سے پہلے کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ سندھ میں دو افراد آٹے کی تلاش میں جانوں سے چلے گئے۔ ہر شہر میں سستا آٹا فراہم کرنے والی دکانوں اور ٹرکوں کے سامنے لمبی لمبی لائنیں لگی ہیں۔

بلوچستان کے محکمہ خوراک کے وزیر زیرک خان پیرن زئی نے وفاقی حکومت سے اپیل کی ہے کہ صوبہ میں گندم کی شدید قلت پر قابو پانے کے لیے گندم کے 60 ہزار تھیلے فوری طور پر فراہم کیے جائیں۔ زیرک خان کا کہنا ہے کہ صوبائی محکمہ خوراک کے پاس صرف چند دن کا اسٹاک رہ گیا ہے۔

انھوں نے وزیر اعظم شہباز شریف اور نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی وزارت کے نام ایک ہنگامی خط میں لکھا ہے کہ بلوچستان کی حکومت نے دو ماہ قبل پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی سے استدعا کی تھی کہ بلوچستان میں گندم کی صورتحال کو بگڑنے سے بچانے کے لیے گندم کے 60 ہزار تھیلیاں فراہم کی جائیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے گندم کی فراہمی پر اتفاق کا اظہار کیا تھا مگر پنجاب کی حکومت گندم فراہم نہ کرسکی۔ حکومت بلوچستان کو امید تھی کہ پنجا ب سے 20 ہزار تھیلے بلوچستان کے دکانداروں کو مل جائیں گے مگر حکومت پنجاب نے گندم کی صوبہ سے باہر جانے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔

اس بناء پر یہ ممکن نہیں ہوا۔ کوئٹہ میں آٹا پیسنے کے 18 کارخانے کام کر رہے ہیں مگر صرف کوئٹہ میں روزانہ صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 25 ہزار تھیلوں کی ضرورت ہے۔

آٹے کے کارخانوں کی انجمن کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کی منڈی میں گندم کے 100تھیلے 11 ہزار روپے میں دستیاب ہیں۔ اس رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ کوئٹہ میں 20 کلو گرام کے تھیلے کی قیمت 2600 روپے تک پہنچ گئی ہے اور قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ گندم کی قیمتوں میں اضافہ کی صورتحال صرف بلوچستان میں ہی نہیں ہے بلکہ باقی صوبوں میں بھی صورتحال اسی طرح خراب ہے۔

فوڈ سیکیورٹی کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کا بیانیہ ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد مہنگائی صوبائی حکومتوں کا مسئلہ ہے۔

سندھ حکومت نے گندم کی سپورٹ پرائس 4000 روپے مقررکی ہے۔ گندم کی سپورٹ پرائس مقرر کرتے وقت کسانوں کے حالات کو مد نظر رکھا جاتا ہے مگر ایک غریب آدمی 4000 روپے سپورٹ پرائس پر آٹا کیسے خریدے گا۔

سندھ میں سیلاب کی وجہ سے گندم کی بوائی بہت کم ہوئی ہے۔ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ سندھ کی حکومت بڑے جاگیرداروں کے فائدہ کے لیے گندم کی سپورٹ پرائس کم نہیں کر رہی۔ ملک کی معیشت سے متعلق اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ نومبر میں افراط زر 23.8 فیصد تھا جو دسمبر کے مہینہ میں 24.5 فیصد سے کم نہیں تھی۔

ماہرین اعداد وشمار کے تجزیہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دیہی علاقوں میں افراط زر کی شرح 28 فیصد کو چھو رہی ہے۔ ملک کی آبادی کا اکثریتی حصہ دیہی علاقوں میں آباد ہے۔ افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح کے نتیجہ میں اشیاء کی قیمتوں میں 35.5 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔

اسی طرح گزشتہ مہینوں کے دوران روزمرہ استعمال ہونے والی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 51 فیصد تک ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے پھر پٹرول پر عائد لیوی میں اضافہ کا فیصلہ کیا ہے۔ پورے ملک میں گندم کی عدم دستیابی اور قیمتیں بڑھنے سے روٹی کی قیمت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

عمران خان کے دور حکومت میں روٹی اور نان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا اور چپاتی 15اور نان کی قیمت 20 روپے ہوگئی تھی مگر اب چپاتی 20 روپے اور نان 25 روپے میں دستیاب ہے۔ کچھ علاقوں میں تو نان کی قیمت 30 روپے کو عبور کررہی ہے۔ ملک میں صرف گندم کا ہی بحران نہیں ہے بلکہ سبزیوں، دالوں، گوشت اور مرغی کے گوشت کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔

70ء کی دہائی میں گوشت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پولٹری مرغی کی پیداوار شروع کی گئی تھی جس کی بناء پر مارکیٹ میں مرغی کم قیمت پر دستیاب ہونے لگی تھی، متوسط اورنچلے طبقہ کے دسترخوان پر مرغی کی کئی ڈشیں نظر آنے لگیں، مگر اکتوبر کے آخری ہفتہ سے مرغی کی قیمتیں پورے ملک میں بڑھ گئیں اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کسٹم کے عملہ نے سویابین کے کنٹینرز کو پورٹ قاسم کی بندرگاہ پر روکا ہوا ہے جس کی بناء پر مرغیوں کی غذا کی کمی ہوگئی ہے اور اس صورتحال کے نتیجہ میں مرغیوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔

طارق بشیر چیمہ نے انکشاف کیا ہے کہ جی ایم او سویابین کینسر پیدا کرنے کا باعث ہے۔ ملک میں گیس کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔

میاں نواز شریف کے دور میں پٹرولیم کے وزیر شاہد خاقان عباسی نے قطر سے ایل این جی کی درآمد کے معاہدے کیے تھے۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور شیخ رشید نے شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایک مہم چلائی۔ خاقان عباسی اور ان کے ساتھیوں کو نیب نے کئی مہینوں تک جیلوں میں مقید رکھا مگر ان کے خلاف بدعنوانی کا الزام ثابت نہ ہوا مگر اس صورتحال کا نقصان یہ ہوا کہ قطر کے ساتھ ایل این جی گیس کی فراہمی کے معاہدہ کی تجدید نہ ہوئی اور قطر نے اپنی گیس یورپی ممالک کو فروخت کردی ۔

گیس کے بحران کی بناء پر عام آدمی کے علاوہ صنعتی شعبہ بھی متاثر ہے۔ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے خاندان سلنڈر خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں مگر سلنڈر سوئی گیس کے مقابلہ میں خاصا مہنگا اور غیر محفوظ ہے۔ بجلی اور گیس کے بحران سے ملک بھر میں سیکڑوں کارخانے یا تو بند ہوگئے ہیں یا کم لاگت سے پیداوار کررہے ہیں۔ یوں ہزاروں مزدوروں کا روزگار چھن گیا ہے۔

وفاقی حکومت نے سوچ بچار کے بعد توانائی بجٹ پلان تیار کیا۔ اس پلان کے تحت وفاقی اداروں میں بجلی کے استعمال میں 30 فیصد کمی، 50 فیصد اسٹریٹ لائنیں بند، غیر مؤثر بلب اور پنکھوں کی پیداوار ختم، الیکٹرونک موٹر سائیکلیں فروخت کرنے، مارکیٹیں رات 8:30 بجے اور شادی ہال اور ہوٹل 10 بجے بند کرنے کے فیصلے کیے ہیں۔

مگر پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں نے حکومت کے اس فیصلہ کو مسترد کردیا ہے۔ یوں 92 ارب روپے کی بچت کا منصوبہ محض اخبارات کی فائلوں میں محفوظ رہے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف اقرار کرچکے ہیں کہ کوئی شک نہیں مہنگائی عروج پر ہے۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ قحط سے پہلے کی جیسی صورتحال ہے۔ مخلوط حکومت کو عام آدمی کو سستی روٹی فراہم کرنے کے لیے ریاستی ڈھانچہ میں بنیادی تبدیلیوں، بے زمین کسانوں کو زمین کی فراہمی، توانائی بچانے کے لیے تمام منصوبوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہونگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔