کتوں کا کھانا…

شیریں حیدر  اتوار 6 اپريل 2014
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ایک چھوٹے سے کام کے لیے کچھ کاغذات کی عدالتی attestation کی ضرورت تھی جس کے لیے مجھے عدالت میں خود پیش ہونا تھا، کام اگرچہ کسی اور کا تھا مگر اس کے لیے پاور آف اٹارنی مجھے بھیجا گیا تھا… مجھے کبھی کسی عدالت میں جانے کا کوئی تجربہ تھا نہ کوئی واقفیت اس لیے شش و پنج میں تھی۔ اس لیے اپنے ایک مہربان بزرگ سے رابطہ کیا کہ اگر وہ کسی وکیل کو جانتے ہوں تو… انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں کہاں اس طرح کے چھوٹے سے کام کے لیے خوار ہوتی پھروں گی، سو میں نے ان ہی کے کہنے پر پاور آف اٹارنی ایک حلف نامے کے ذریعے انھیں منتقل کر دی۔ یہ کام آسان ثابت ہوا اور یوں انھوں نے میرے کام کے لیے ایک وکیل کیا جس کی ابتدائی فیس وغیرہ ادا کر کے کیس پر کام شروع ہو گیا اور ایک ایک ماہ کے بعد کی تواریخ ملنے لگیں۔ ہر تاریخ پر کوئی نہ کوئی نئی پخ نکال دی جاتی اور ایک نہ ایک کاغذ کا مطالبہ کیا جاتا، جسے ہم حاصل کرتے اور اگلی پیشی پر عدالت میں وہ کاغذ پیش کر دیا جاتا۔

امید کا دامن تھامے ہوئے بیچ کا عرصہ گزرتا کہ چلو کم از کم اگلی تاریخ پر کوئی اور دستاویز درکار نہیں ہو گی۔ تین ماہ کا کوفت بھرا وقت یوں ہی گزر گیا، میرے کام کو میرے لیے آسان کرنے والے مجھے خود مشکل میں نظر آنے لگے۔ سوچتی کہ وہ بے چارے کیا کہتے ہوں گے کہ نیکی کرتا کرتا پھنس گیا، مگر ان کے ماتھے پر کوفت کے با وصف بھی بل نظر نہ آتے۔

کبھی سوچتی کہ کاغذات واپس لے کر کیس ختم کر دیا جائے… مگر مطلوبہ کاغذ بھی چاہیے تھا۔ نہ صرف اس ایک کام کے لیے بلکہ اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد کے ان کے مالی معاملات میں بھی کئی بار بے بسی نظر آتی ہے کہ برائی سے نفرت کرنے والا اور اس سے بچنے کی کوشش کرنے والا… کم از کم اس ملک میں نہیں رہ سکتا۔ بلاشبہ دنیا کے کئی ممالک میں یہی حالات ہوں گے مگر ہمارے ہاں تو جائز سے جائز کام کے لیے بھی نا جائز ذرائع اختیار کیے بنا چارہ نہیں۔

کیس داخل کیا تو بتایا گیا کہ دو تین تاریخوں میں کام ہو جائے گا مگر ہر بار کی تاریخ کے بعد صورت حال بالکل غیر واضح ہو جاتی کہ ایک نئے کاغذ کا حصول اس عمل کو اور بھی موخر کر دیتا تھا۔ ایک مقام ہر سفر میں آتا کہ جب انسان تھک جاتا ہے۔ چوتھی تاریخ کے بعد میں نے جانا کہ کچھ غلط ہے جو ایک سیدھا سادہ کیس یوں لٹکا ہوا ہے۔ان ہی مہربان سے کہا کہ اپنے وکیل سے پوچھیں کہ اندر کی بات کیا ہے۔ انھوں نے وکیل سے ملنے کا وقت لیا، اس کے دفتر گئے اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے، اس نے بتایا کہ کوئی مسئلہ نہیں، تاہم اس وکیل کا کلرک ان سے کہنے لگا کہ باہر آئیں، باہر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔

باہر آنے پر اس نے جو کچھ کہا ہو گا… وہ انھیں بھی پہلے سے معلوم تھا، مجھے بھی اور آپ کو بھی علم ہے۔ مجھے ان مہربان کی کال آئی، انھوں نے کہا کہ کچھ مطالبہ کیا گیا ہے مگر ممکن ہے کہ آپ کو قابل قبول نہ ہو۔ میں سوچ میں پڑ گئی، ہم میں سے ہر کوئی برائی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے مگر میں اس پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے بھی کوشاں ہوتی ہوں۔ جس صورت حال میں پھنس گئے تھے اس میں کوئی راہ فرار نظر نہ آئی تو مردار کھائے بنا چارہ نہ تھا۔ میں نے بے دلی سے ان سے کہا کہ دیکھ لیں … جو مطالبہ ہے اسے پورا کر دیں۔

جانتے ہوئے بھی کہ راشی اور مرتشی دونوں کو جہنمی کہا گیا ہے… کیا کریں؟

جس ملک میں جائز ترین کاموں کی فائل کو حرکت دینے کے لیے نوٹوں کے پہیے چلتے ہوں وہاں کون اپنا دامن بچا کر چلے؟

جہاں گھریلو کنکشن بھی اس طرح ملتا ہو کہ آپ درخواست کے ساتھ رقم جمع کروائیں تو اٹھارہ سے بیس مہینے میں کنکشن مل جاتا ہے… جب کہ سرکاری کنکشن فیس سے نصف رقم ایک کارندے کو ادا کر دیں تو آپ کے ہاں کنکشن اٹھارہ گھنٹوں سے بھی کم وقت میں مل جاتا ہے۔ سرکاری محکموں کے سامنے میت بھی رکھ دیں تو ’’death certificate جاری نہیں کرتے… پنشن اور بینک اکاؤنٹ کا انتقال… جانے والے کے انتقال سے بڑھ کر اذیت ناک مراحل ہو جاتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی کسی کیس کی، مطالبہ پورا کر دیا گیا، وعدہ کیا گیا کہ فلاں تاریخ کو مطلوبہ کاغذات مل جائیں گے، فکر کی کوئی بات نہیں۔ مطلوبہ تاریخ… اس کے بعد کی کئی تاریخیں گزر چکیں…

مجھے بہت کم عمری میں پڑھا گیا ایک مختصر افسانہ یاد آ گیا، اس کا نام اور مصنف تو مجھے یاد نہیں مگر اس کا ایک مضبوط image میرے ذہن میں ہمیشہ رہنے والا ہے، الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں… میں وہ افسانہ آپ کے سامنے بیان کرتی ہوں ۔

’’کتوں کا کھانا‘‘

رام چند اپنی دکان کے سامنے بیٹھا ہوا نہ صرف دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے لوگوں کو آوازے لگا لگا کر اپنی طرف متوجہ کر رہا ہوتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ دکان کے اندر کام کرنے والے لڑکوں کو ہدایات بھی دے رہا ہوتا ہے۔ اسی اثنا میں سرکاری کارندے (اس زمانے کے لحاظ سے ٹیکس جمع کرنے والے) آ کر دکان کے اندر رکھی کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ دکان کے حساب کے گوشوارے نکلواتے ہیں اور جانچ پڑتال شروع کر دیتے ہیں۔ ’’یہ ہر مہینے تم کتوں کے کھانے پر اتنا پیسہ کیوں صرف کرتے ہو؟‘‘ ایک سرکاری کارندے نے گوشواروں کی تفصیل پڑھتے ہوئے ایک بڑے خرچے کی باز پرس کی۔ رام چند اس کے جواب میں خاموش رہتا ہے۔

دکان کا مالک ایک لڑکے کو بلا کر اشارہ کرتا ہے اور وہ لڑکا بھاگ کر جاتا اور چند منٹوں میں  چائے کے ساتھ ڈھیروں لوازمات لے کر آتا اور سرکاری کارندوں کے سامنے رکھ دیتا ہے… وہ ان لوازمات کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں اور حساب کتاب بھول بھال کر ان سے دو دو ہاتھ کرنے لگتے ہیں…

رام چند انھیں کھاتے ہوئے دیکھ رہا ہوتا ہے، وہ پیٹ بھر کر کھاتے اور ڈکارتے ہوئے … حساب کتاب بھول بھال کر چل دیتے ہیں۔ ان کے جاتے ہی رام چند لڑکے سے چائے کے لوازمات کی رقم کا پوچھتا ہے… کھاتہ اٹھاتا ہے اور لکھتا ہے، ’’کتوں کا کھانا…‘‘

اتنا مختصر اور اتنا پراثر افسانہ شاید ہی کسی نے لکھا ہو، اس کے مندرجات میں بہت فرق آیا ہو گا کیونکہ میں نے اسے برسوں پہلے پڑھا تھا، مگر موجودہ صورت حال میں مجھے اس کی یاد آنا justified  ہے کہ جتنا چاہو کوشش کر لو مگر نظام کے اندر جن خامیوں نے اپنی جڑیں گاڑ لی ہیں ان کا خاتمہ کرنے کی کیا صورت ہو… کیا کریں وہ لوگ جو عمر بھر اپنے دامن کو بچا بچا کر چلنے کو کوشاں رہتے ہیں؟ کوئی صورت اس ملک میں ہے یا پھر اس ملک کو چھوڑ کر جانا ہی واحد صورت رہ گئی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔