جنت کے دوزخی

سعد اللہ جان برق  جمعـء 13 جنوری 2023
barq@email.com

[email protected]

آج ہم نہایت سنجیدہ سوالوں کی ایک زنجیر سے آپ کا تعارف کروانا چاہتے ہیں یا یوں کہیے کہ سوال و جواب کا ایک ایسا سلسلہ ہے جس میں ایک کے جواب میں ایک سوال ہوتا ہے، پھر اسی سوال کا جواب ایک اور سوال کو جنم دیتا ہے، یوں سوال کے اندر جواب اور جواب کے اندر سوال کا ایک لمبا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ آخر جنت نظیر علاقوں کے لوگ اپنا پیارا گھر چھوڑ کر دوردراز کے دوزخوں میں جلنے کیوں جاتے ہیں جبکہ ان کے اپنے علاقوں کی سیر کے لیے دوردراز سے سیاح آتے ہیں اور اسے جنت نظیر، پاکستان کا سوئیزرلینڈ اور حسن کانمونہ کہتے ہیں، یہ لوگ کہیں کارخانوں میں مرتے ہیں، کہیں کوئلے وغیرہ کی کانوں میں زندہ دفن ہوتے ہیں، کہیں کنٹینروں میں دم گھٹنے سے ہلاک ہوتے ہیں، کہیں لانچوں میں ڈوب کر مرجاتے ہیں، کہیں سرحدوں پر گولیوں کا شکار ہوتے ہیں اورکہیں جیلوں اور عقوبت خانوں میں فنا ہوجاتے ہیں۔

اس سوال کا آسان جواب تو یہ ہے کہ بیروزگاری کے ہاتھوں تلاش رزق کی وجہ سے ۔لیکن اس سوال کے پیٹ سے پھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر ان خطوں میں بیروزگاری کیوں ہے؟ اس کا بھی آسان جواب یہ ہے کہ ان علاقوں میں زمین زیادہ تر پہاڑوں نے گھیر رکھی ہے اور پھر موسم بھی ’’یک فصلی‘‘ یعنی آٹھ مہینے کاہوتا ہے ۔

لیکن اس جواب سے پھر سوال جنم لیتا ہے کہ کچھ لوگ تو یہاں خوب عیش وعشرت میں جیتے ہیں لیکن یہ کچھ لوگ کیوں جنت سے نکل کر دوزخوں میں سڑنے جاتے ہیں اور یہیں سے اس سوال وجواب کے سلسلے میں کئی شاخیں پھوٹ کر پھیلتی اور سوال وجواب کاچستان بناتی ہیں ۔

علمائے تاریخ بتاتے ہیں کہ جب نسل انسانی شعورکی منزل پر پہنچی تو کرہ ارض جنت نظیر تھا، ہرطرف ہریالی ہی ہریالی تھی، پھول تھے، پھل تھے اور باغ تھے، گھنے جنگل تھے ، رنگ رنگ کے پرندے اور چرندے تھے ، انسانوں کی آبادی کم اور خوراک بیسار تھی، انسان جہاںسے جی چاہتا ہاتھ بڑھا کرکچھ کھا لیتااور سائے یادھوپ میں پڑا رہتا، پیاس لگتی تو ہر طرف میٹھے پانی کے جھرنے تھے، چشمے تھے، آبشاریں تھیں ، دریا تھے، نہ کوئی رنج تھا نہ بیماری نہ بھوک نہ پیاس نہ حزن نہ ملال۔

بہشت آں جاکہ آزارے نہ باشد

کسے راباکسے کارے نہ باشد

پھر کچھ جغرافیائی، کچھ موسمی تبدیلیاں رونما ہوئیں تو آبادی کی کثرت اور خوراک کی قلت پڑ گئی ، اس موقع پر وضاحت کردوں کہ یہ بیان مختلف مذاہب وادیان کے نظریات کا ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن ارضیات،طبیعات آثاریات اور بشریات کایہی بیان ہے اورجب خوراک کی قلت پڑنے لگی تو انسان دو گروہوں میں بٹ گئے۔

ایک وہ جو صابر تھے، امن پسند تھے اوردوسرے وہ جو برتری، قبضے اور لالچ وہوس کا رحجان رکھتے تھے ۔ یہ زمین کبھی اپنے بچوں کے پالن پوسن سے انکار نہیں کرتی لیکن جب کچھ بیٹے اس کے ’’زیادہ‘‘ پر قبضہ کرلیتے ہیں تو کچھ کو محرومی کاشکار ہونا پڑتا ہے اورکمزوری، محرومی، مجبوری اوربھوک کاصرف ایک حل ہے اور وہ ہجرت، نقل مکانی اور فرار ، یہاں پر میں ایک بہت ہی مشہوراورمستند مورخ اورمحقق کاحوالہ لیتا ہوں ،فلپ کے حتی ،اس نے اپنی کتاب تاریخ شام میں لکھا ہے کہ علمائے ارضیات، طبیعات، بشریات اور آثاریات نے لکھا ہے کہ وسطی ایشیا اور یہ پہاڑی سلسلہ جو ہندوکش کہلاتا ہے۔

ہمیشہ سے انسانوں اور حیوانوں کا مخزن ومعدن رہا ہے اور اسے ’’جوف الارض‘‘ یا رحم مادر کانام دیاہے ۔جس طرح ماں کے پیٹ میں ایک بچہ نو مہینے پرورش پاتا ہے، خاموشی سے پلتاہے اور جب ماں کے پیٹ کی خوراک اس کے لیے ناکافی ہوجاتی ہے تو باہرنکل آتا ہے، اسی طرح اس جوف الارض نے بھی ایک ایک میلینم یعنی نو سویا ایک ہزار سال بعد خروج، ہجرت اور نقل مکانی کے ’’بچے‘‘ تیارکیے ہیں اور اگلے ہیں ۔فلپ حتی نے ایسے پانچ خروجوں کا ذکر کیا ہے۔

سمیریوں ،حتیوں ، یوچی اور ہن وغیرہ کے بعد آخری یلغار یاخروج چنگیزی منگولوں کا تھا۔فلپ حتی نے یہ نہیں لکھا ہے کہ آخری پانچویں یا چنگیزی منگولوں کی یلغار کو اتنا ہی عرصہ ہو چلاہے جتنا ایک خروج کے تیارہونے کے لیے درکار ہوتا ہے۔

لہذا اب چھٹی یلغار کی کچھ کچھ صورت بھی چینیوں کی شکل میں ابھر رہی ہے، طریقے اور ہتھیار مختلف ہوسکتے ہیں لیکن مسئلہ وہی کثرت آبادی اور قلت خوراک کا ہے ۔ حقیقت یہی ہے لیکن ایک اور بات جو حیران کن بھی ہے اورچشم کشابھی۔

جب کھیت تیار اورموسم سازگار نہیں ہوتا تو کسان کسی محفوظ جگہ ’’پنیری‘‘ اگاتا ہے اورجب کھیت تیار اورموسم سازگار ہوجاتا ہے تو وہ پنیری لے جاکر اپنے کھیت میں پھیلادیتاہے۔اس سارے عمل میں بھی ایک بہت ہی بڑے ذہن کاہاتھ نظر آتاہے، جب میدانی علاقے زیرآب اور رہائش کے قابل نہیں تھے تو اس کھیت میں جسے رحم مادر اورجوف الارض کہاجاتا تھا۔

پنیری تیار ہوتی رہی ،ادھر اونچائیوں پر لاکھوں سالوں کی برف پانی کا سیلاب بنا کر ’’ملبے‘‘ اترائی میں لیجانے اور زیرآب زمینوں میں بچھانے کاکام بھی جاری رہا، جتنا جتناکھیت تیارہوتا رہا، پنیری کے لٹھے لے جاکر اس میں پھیلائے جاتے رہے۔

دو انگریز محققین نے ایک کتاب انڈس ویلی سوئیلائزیشن میں لکھا ہے کہ ایسا لگتاہے جیسے ہندوکش میں کوئی بہت بڑا ڈیم رہا ہواوروہ ٹوٹ گیا ہو۔

ڈیم واقعی تھا لیکن انسانی ڈیموں کی طرح پانی کا نہیں بلکہ لاکھوں برس کے برفانی دورکی جمع شدہ برف کی صورت میں تھا اورآج سے لگ بھگ دس ہزار پہلے جب زمین کی حرارت بڑھی تو آخری طوفان کے بعد برفباری دورکا اختتام ہوا اورسیلابی بارانی دورکاآغاز ہوا، یہ سیلابی دور گویا اونچائیوں سے مٹی نیچے لانے اور بچھانے کا منصوبہ تھا ،سیلاب مٹی لاتے رہے، زیرآب علاقوں میں پھیلاتے رہے، میدانی علاقے بنتے گئے۔

پانی نے ندیوں نالوں اور دریاؤں کی صورت میں اپنے راستے بنالیے،پانی سمٹ کر سمندروں اور جھیلوں میں محدود ہو گیا تو بڑے بڑے صحرا اور ریگستان بھی ابھر آئے اور پھر اس انجینئرڈ کھیت میں ’’پنیری‘‘ منتقل کی جانے لگی۔

دنیا کے دوسرے مقامات پر ممکن ہے کچھ اور چھوٹی چھوٹی نسلیں بھی پیداہوئی ہوںگی لیکن اس سلسلہ کوہ میں جو برما سے ایران تک دراز ہے، دوسب سے بڑی نسلیں پیدا اورتیار ہوئی ہیں ، زرد نسل اور سفید کاکشی نسل،تیسری بڑی نسل سیاہ فام ہے لیکن وہ ان دونوں نسلوں سے کم عمر اورکم تعداد ہے۔

زرد نسل بھی اتنی زیادہ نہیں پھیلی ہے جتنی سفید کاکشی نسل ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے، اب اگرچہ یہ سفید نسل مختلف مقامات اور موسمی تغیرات کی بنا پر گندمی بلکہ استوائی خطوں میں سیاہ بھی ہوچکی ہے لیکن پھر بھی بڑی نسل یہی ہے جس کی پیدائش کا سرچشمہ یہی سلسلہ کوہ اور ملحقہ سطح مرتفع میں اور اسی جوف الارض سے وہ پانچ خروج یا ہجرتیں ہوئی ہیں کیوںکہ پنیری بہرحال محدود ہے۔

اس میں پنیری تو اگ سکتی ہے لیکن کھیت کی طرح پنپ نہیں سکتی، اس لیے اس عظیم ترین، ذہین تر اورماہر ترین کاشتکاراعظم نے اسے کھیت میں منتقل کرنے کے لیے انتظامات کیے،یہ خروج کسی منظم طریقے سے نہیں ہوئے تھے، کہیںقبیلوں کی شکل میں ہوتے تھے تو کہیں چند قبیلوں کے اشتراک سے بنے ہوئے گروہ ہوتے تھے اورکہیں کسی ایک قبیلے یا فرد کی سربراہی میں بڑے بڑے تباہ کار قسم کے خروج ہوتے تھے۔

یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ زراعت کار اور بستیوں والے لوگ بہت ہی کم تھے ، زیادہ خانہ بدوش صحرائی اورجانور پالنے والے گلہ بان یا چرواہے ہوتے تھے ۔ یہ خانہ بدوش چرواہے اور گلہ بان اپنی اور اپنے جانورکی خوراک کی تلاش میںایک علاقے سے دوسرے علاقوں میں چلے جاتے تھے ،آج کے نقطہ نظر سے یہ لوگ وحشی اور بربریت اپنے ساتھ لیے ہوئے چلتے تھے،لیکن اس کی وجوہات بھی ہوتی تھیں، ان کے پیچھے ’’بھوک‘‘ کی کمان تنی ہوئی ہوتی تھی۔

یہاں پر اشرافیہ یاحکمرانیہ کی ’اصطلاح ’’عروج وزوال‘‘ اور بہادی وشجاعت مباحث بھی آتے ہیں کیوں کہ حکمرانیہ کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ بہادری اور شجاعت کو ایک صفت بناکر بے دماغ عوامیہ کو اپنے لیے لڑائیں ورنہ اگر بہادری اور شجاعت کا تجزیہ کریں تو انسانی نقطہ نظر سے یہ کوئی صفت نہیں بلکہ بہت بڑا ’’عیب‘‘ ہے کہ اس میں کل ملا کر انسانوں کو ’’مارنا‘‘ ہوتا ہے اور انسانوں کو مارنا کسی بھی لحاظ سے کوئی صفت یا وصف نہیںہے۔

عروج و زوال کا بھی یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم یا نسل خونریزاور سفاک ہوتی ہے، لوگ اسے عروج کہتے ہیں اور جب وہ مہذب ہوکر قتل وقتال چھوڑ دیتی ہے، اسے زوال کہاجاتاہے ۔جیسے چنگیز وہلاکو کا دورمنگولوں کے عروج کادور تھا اور ان کی اولادوں محمد شاہ رنگیلے اور بہادرشاہ ظفرکا دور زوال کا دورتھا،اصل مسئلہ یہ واضح کرناہے کہ بھوک اورغربت کے ہاتھوں انسانوں کی نقل مکانی اور ہجرت زمانوں سے جاری ہے لیکن فرق یہ ہے کہ پرانے زمانے میں سرحدیں یا قوانین وغیرہ نہیں تھے۔

نقل مکانی، خروج اورہجرت کرنا آسان تھا لیکن آج خانہ بدوشوں کے پاس نہ کوئی ہتھیار رہا ہے نہ موطشی کے ریوڑ۔ ممالک کے سرحدی قوانین خروجوں کی اجازت نہیں دیتے۔تو انسان خود ’’جانور‘‘ بن کر نقل مکانی پر مجبورہے ،اب اشرافیہ ملکوں پر قابض ہے‘ ہم جیسے ملکوں کی اشرافیہ ہم پر قابض ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اور زیادہ قابض ہوتی جارہی ہے توعوامیہ کو یونہی اپنے ہاتھ پیر لے کر دنیا بھر میں ’’خوار‘‘ہونا پڑتاہے اور مرنا پڑتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔