ایک اور بحران

شکیل فاروقی  جمعـء 13 جنوری 2023
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور اْن کے رفقائے کار نے وطنِ عزیز پاکستان کو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک گوشہ عافیت کے طور پر بنایا تھا لیکن ہمارے نا اہل، خود غرض، بدعنوان اربابِ اختیار اور مفاد پرستوں نے اِسے مسائلستان اور بحرانستان بنا دیا ہے۔ ابھی ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ بقولِ شاعر :

ہرموڑنئی ایک الجھن ہے قدموں کا سنبھلنا مشکل ہے

رمضان المبارک کی آمد سے قبل یہ بْری خبر سننے کو مل رہی ہے کہ آٹے کے بحران کے بعد اب گھی اور خوردنی تیل کا بحران آنے والا ہے۔

اِس لیے دیگر اشیاء ضرورت کے طوفان سے نَبرد آزما صارفین اپنی کمر کَس لیں۔ خبر یہ ہے کہ بینکوں کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ نہ کھولنے اور زائدالمعیاد دستاویزات کی درخواستیں مسترد کیے جانے کی وجہ سے کسٹمز بانڈڈ گوداموں سے 3 لاکھ 58 ہزار ٹن خوردنی تیل کو اٹھانے سے منع کر دیا گیا ہے۔

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب تیل کی ریل پیل ہوا کرتی تھی لیکن اب عالم یہ ہے کہ تیل دیکھیں اور تیل کی دھار دیکھیں۔ تیل کے حوالہ سے دلاور فِگار کا یہ شعر سنیے اور اپنا سر دھنیے:

کھا کے خالص گھی اگر غالب جیے تو کیا جیے

ہم کو دیکھو جی رہے ہیں سونگھ کر سرسوں کا تیل

اسٹیٹ بینک کو بتایا گیا ہے کہ کمرشل بینکوں نے درآمد کنندگان اور مینو فیکچررز کو آگاہ کیا ہے کہ خوردنی تیل کو ضروری اشیا کی فہرست سے فوری طور پر خارج کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں غیر ملکی سپلائر کی حمایت میں لیٹر آف کریڈٹ کی معیاد میں غفلت یا کوتاہی کی وجہ سے تاخیر سے ادائیگی میں جرمانہ لگایا جائے گا جبکہ اسی دوران روپیہ ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کھو رہا ہے جس سے درآمدات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے گھی تیار کرنے والوں کی تنظیم ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ روغنی تیل کی قیمت13 ہزار فی ماؤنڈ سے بڑھ کر 14 ہزار فی ماؤنڈ تک پہنچ گئی ہے، جس کی وجہ سے فی کلو گرام / لیٹر گھی اور تیل کی قیمتوں میں 26 روپے اضافہ ہوا ہے جبکہ خاصی مقدارخام مال کی کلیئرنس ہونا ابھی باقی ہے جبکہ ہزاروں ٹن خام مال کراچی اور بن قاسم بندرگاہوں پر موجود ہے۔

اگر کلیئرنس میں تاخیر ہوتی ہے تو گھی اور تیل کی فی کلوگرام / لیٹر قیمتیں 15 سے 20 فیصد مزید بڑھ سکتی ہے۔ چھ ماہ میں خوردنی تیل اور گھی کی قیمتوں میں300 فیصد اضافہ ہوا ہے ، جبکہ ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں 30.36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بھگت کبیر داس تو بہت پہلے یہ نصیحت فرما چکے ہیں۔

دیکھ پرائی چْوپڑی مت للچائے جی

رْوکھی سْوکھی کھائے کے ٹھنڈا پانی پی

اب اگر کوئی اِس نصیحت پر عمل نہ کرے تو اْس کا سزا وار وہ خود ہوگا۔

روغنی تیل، سَن فلاور اور سویا بین تیل کو بیرون ملک سے پاکستان پہنچنے کے لیے کم از کم 60 روز لگتے ہیں۔ رمضان میں تیل اور گھی کی اشیا کی مانگ میں 25 سے 20 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔

ملک میں 90 فیصد خوردنی تیل درآمد شدہ ہے تاکہ سالانہ 4 کروڑ 50لاکھ ٹن سے زیادہ کی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔ کہا جارہا ہے کہ ہمارا موجودہ اسٹاک صرف تین سے چار ہفتوں کی طلب کو پورا کرسکتا ہے ۔

امپورٹرز تو کہتے ہیں کہ مرکزی بینک کمرشل بینکوں کو صنعتوں کی درخواست پر لیٹر آف کریڈٹ کو ترجیح دینے کی ہدایت کرے کیونکہ کہ صنعت کو مختلف مشکلات کا سامنا ہے، کئی ہفتوں سے جاری صورتحال نے اب مارکیٹ میں منفی اثرات مرتب کرنا شروع کر دیے ہیں۔

گھی اور تیل کے بغیر گزارا ناممکن ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر ہمارے سالن میں گھی یا تیل شامل نہ ہو تو کیا وہ مریض کا کھانا نہ ہوگا۔ اچھے سالن کا دارو مدار گھی اور تیل کی کوالٹی اور مقدار پر ہے۔ آپ نے یہ مثل تو ضرور سْنی ہوگی ’’ گھی تیل بنائے سالنا اور نام بہو رانی کا ‘‘ یعنی سالن کی شان گھی تیل پر منحصر ہے اور تعریف بہو رانی کی ہوتی ہے۔

رمضان المبارک میں تو گھی تیل کا استعمال مزید بڑھ جاتا ہے کیونکہ افطاری کا سامان تلی ہوئی اشیاء مثلاً پکوڑوں ، رول، سموسوں اور پوری کَچوری وغیرہ کے بغیر دسترخوان ادھورا رہ جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔