میئر آف کراچی کون ہوگا؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 13 جنوری 2023
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

خداخدا کر کے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا دن آیا ہے۔15 جنوری 2023! سچی بات یہ ہے کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات روکنے، ملتوی اور موخر کرانے کے لیے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے پورا زور لگایا۔عدالتوں میں گئے۔

الیکشن کمیشن کے دامن سے بھی بار بار لپٹنے کی کوشش کی گئی۔ کبھی سندھ میں سیلابوں کا بہانہ اور کبھی یہ کہا گیا کہ سندھ حکومت کے پاس سیکیورٹی کی اتنی نفری ہی نہیں ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی نگرانی اور تحفظ کر سکے۔کبھی انتخابی حد بندیوں کا تنازعہ اُٹھایا گیا اور کبھی دہری ووٹر لسٹوں بارے ہنگامہ برپا کیاگیا۔

یوں کراچی بلدیاتی انتخابات کئی بار ملتوی کیے گئے مگر پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی نے بلدیاتی انتخابات کرانے کا مطالبہ، مسلسل جاری رکھا۔ 12جنوری کو کراچی میں فاروق ستار، مصطفیٰ کمال اور خالد مقبول صدیقی نے ایک بار پھر حلقہ بندیوں کے خلاف کراچی الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے خطابات بھی کیے۔

کراچی میں15 جنوری کے یہ بلدیاتی انتخابات دراصل پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی کے مطالبے کی جیت ہے۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے ان گرما گرم ایام میں سوال اُٹھ رہا ہے : کراچی اور سندھ میں پچھلے ڈیڑھ عشرے سے پی پی پی اقتدار کے مزے اُڑاتی آ رہی ہے ، لیکن، سندھ کے عوام کو کیا ملا ہے؟

بالکل اسی طرح جیسے یہ جینوئن سوال کیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی پچھلے ایک عشرے سے کے پی کے میں برسراقتدار ہے، لیکن، خیبر پختونخوا کے عوام کو اس طویل اقتدار سے کیا ملا ہے؟آج کے پی کے بد امنی اور دہشت گردی کے شکنجے میں جکڑا ہے،یہاں کی سرکاری یونیورسٹیاں تنخواہیں دینے سے قاصر ہیںاور یہاں کے اسپتال مریضوں کی بروقت دستگیری کرنے میں ناکام ۔ دعویٰ یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس فنڈز ہی نہیں ہیں ۔

کراچی آبادی،وسائل،پھیلاؤ اور صنعتوں کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔کراچی کا دعویٰ ہے کہ یہ شہر ٹیکسوں کی شکل میں ملک کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرتا ہے لیکن بدلے میں کراچی کے شہریوں کو بجلی ملتی ہے نہ گیس، پانی ملتا ہے نہ امن، سیکیورٹی میسر ہے نہ میڈیکل کی سہولیات۔یوں سوال یہ ہے کہ 15 جنوری کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے عوام پی پی پی کو ووٹ دے کر اسے فاتح کیوں بنائیں؟ اس کا میئر کیوں منتخب کریں؟

پی پی پی کا اصراری دعویٰ ہے کہ کراچی کے مذکورہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں اسی کا میئر منتخب ہوگا۔پی پی کے چیئرمین، بلاول بھٹو زرداری، کراچی کے ایک بڑے جلسے میں ایسا دعویٰ بلند آہنگی سے کر چکے ہیں۔

سندھ میں پی پی کے صوبائی وزیر، سعید غنی، بھی اپنی ہر تقریر میں تسلسل کے ساتھ یہ دعوے کرتے آ رہے ہیں کہ 15 جنوری کے بعد کراچی میں پی پی کے میئر کا آفتاب طلوع ہوگا۔

دیکھا جائے تو میئر کا تصور مغربی ہے۔آج لندن،نیویارک اور ٹورانٹو ایسے بڑے مغربی شہروں کے جملہ انتظامی اور مالی معا لات کا ذمے دار منتخب میئر ہی ہوتاہے۔

اصل طاقت کا مالک۔مغربی ممالک اور شمالی امریکا میں میئر کی طاقت اور تاریخ کا اندازہ کرنا ہو توہمیں معروف مغربی ناولسٹ، تھامس ہارڈی، کا معروفِ عالم ناول The Mayor of Casterbridge پڑھنا چاہیے۔ہمارے ہاں میئر نے ناظمِ اعلیٰ کی شکل بھی اختیار کیے رکھی، جنرل صدر پرویز مشرف کے دس سالہ آمرانہ دَور میں، جب  اس سلسلے میں اُن کی معاونت جنرل تنویر نقوی بھی کر رہے تھے اور دانیال عزیز بھی۔ویسے دیکھا جائے تو کوئی بھی منتخب حکومت خوشدلی سے بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتی۔

وفاقی اور صوبائی منتخب حکومتوں کا خیال ہے کہ بلدیاتی انتخابی نمائندے اُن کے اختیارات اور  مالی مفادات ’’چھین‘‘ لے جاتے ہیں۔ شائد یہی خدشات ہیں کہ جن کہ بنیاد پر آج کی وفاقی اتحادی حکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے پر راضی ہے نہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت۔ اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرانے کی راہ میں یونین کونسلوں کی تعداد (101سے125تک) بڑھانے کے نام پر تنازع کھڑا کررکھا ہے۔

اور یہ مقدمہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے مسئلے پر مبینہ طور پر وفاقی حکومت اور صدرِ مملکت کے درمیان خاصی کشیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ پنجاب میں صوبائی الیکشن کمشنر، سعید گل مہمند، نے اگلے روز بیان دیا ہے کہ ’’ مختلف تاخیری حربے بروئے کار لاتے ہُوئے پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات نہیں چاہتی۔‘‘

جناب آصف علی زرداری اورجناب بلاول بھٹو زرداری کراچی کی میئر شپ جیتنا تو چاہتے ہیں لیکن پی پی کو اس میدان میں کئی سوالات کا سامنا ہے۔

15جنوری کے بلدیاتی انتخابات کے اِسی پیش منظر میں جرمنی کے مشہور میڈیا DWنے بھی پی پی قیادت سے کئی استفسارات کیے ہیں۔سب سے بڑا سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ کراچی کے عوام پی پی کے کسی اُمیدوار کو کیوں اپنا میئر منتخب کریں؟1979ء کے بعد کراچی میں تین بار جماعتِ اسلامی کے میئرز (2بارعبدالستار افغانی اور ایک مرتبہ نعمت اللہ خان) منتخب ہو چکے ہیں اور تین بار ایم کیو ایم کے میئرز آ چکے ہیں:ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفی کمال اور وسیم اختر کی صورت میں۔لاریب جماعتِ اسلامی کے میئر نعمت اللہ خان صاحب اور ایم کیو ایم کے مصطفی کمال صاحب نے اپنے اپنے ادوار میں کراچی کی بڑی خدمت کی اور بلدیاتی اداروں کو مضبوط اور مستحکم کیا۔ کئی یادگار پروجیکٹس پروان چڑھائے۔

دونوں میں سے بھی نعمت اللہ خان کی بطور میئر شخصیت آج بھی اساطیری حیثیت رکھتی ہے۔اب کراچی کے امیرِ جماعتِ اسلامی،حافظ نعیم الرحمن، کامیاب ہو کر نعمت اللہ خان کی جگہ اور حیثیت لینے کے آرزُو مند ہیں۔لیکن اُن کی راہ میں لاتعداد رکاوٹیں اور مسائل ہیں۔ عوامی خدمت گزارحافظ نعیم الرحمن کو حکمت و تدبر اور تحمل وصبر کے ساتھ ان سبھی رکاوٹوں کو دُور کرنا ہوگا۔

صاف نظر آتا ہے کہ کراچی کی میئر شپ کے لیے ایم کیو ایم پاکستان،پیپلزپارٹی، تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی میں سخت مقابلہ ہے( جے یو آئی ایف، اے این پی ، جی ڈی اے اور ٹی ایل پی کا بھی اپنا وجود ہے)کراچی کی میئر شپ کی یہ’’ جنگ‘‘ ایسے حالات میں برپا ہے جب ملک میں ایک نئی پی ٹی آئی اور ایک نئی ایم کیو ایم کی تشکیل کا ڈول بھی ڈالے جانے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے:ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو یکجا کر ۔اور پی ٹی آئی کے باغی اور ’’مسترد‘‘ کردہ معروف عناصر کو باہم ملا کر!دونوں مبینہ نئی جماعتوں کی تشکیل و تخلیق بارے عمران خان اور پی ٹی آئی کا غصہ اور ناراضی دیدنی شنیدنی ہے۔مثال کے طور پر فواد چوہدری کا طیش بھرا بیان جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے مخالف دھڑوں (ایم کیو ایم پاکستان، پاک سر زمین پارٹی،ایم کیو ایم حقیقی) کو جوڑ کر پھر ایک نئی ایم کیو ایم بنانا دراصل ’’شہدا کے خون سے بے وفائی ہے‘‘۔ دوتین دن رہ گئے ۔ اگر ایم کیو ایم پاکستان کے مختلف دھڑوں نے بائیکاٹ نہ کیا تو دیکھتے ہیں کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں کیا ’’چاند ‘‘ چڑھتے ہیں !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔