میں نے یہ جانا …

رئیس فاطمہ  ہفتہ 5 اپريل 2014

اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بعض تصاویر، خبروں اور بریکنگ نیوز کو دیکھ اور پڑھ کر کچھ اشعار فوراً یاد آ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی کچھ بھولے بسرے گیت بھی حافظے کی قندیل میں جگمگانے لگتے ہیں۔ آج کیوں نہ ان کی بات کی جائے۔ کیونکہ آج کل کھرا سچ لکھنے اور کہنے والوں کے سروں کی فصل کاٹنے کا موسم ہے۔ موسم بہار میں جہاں موتیا، موگرہ، چنبیلی اور ہار سنگھار اپنی خوشبو سے صاحب ذوق لوگوں کو اپنا دیوانہ بناتے ہیں۔ وہیں گل مہر کا درخت بھی اپنے آتشیں پھولوں سے دہک اٹھتا ہے۔ سچ بولنے اور لکھنے والے بھی خون دل میں انگلیاں ڈبو کر جب اپنا فرض اور ذمے داری پوری کرنے سے معذور ہوتے ہیں تو پھر شاعری کا سہارا لیتے ہیں۔ علامتوں کے جنگل سے کچھ مانوس جڑی بوٹیاں چن کر جھوٹ کے زہر کا تریاق بناتے ہیں۔ ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے ہر زمانے میں لیکن انگریزوں کے زمانے میں نہیں بلکہ الحمد اللہ ایک آزاد مملکت میں۔ سول اور فوجی بیوروکریسی نے بھی ہمیشہ زمیندارانہ نظام کے رکھوالوں کا تحفظ کیا ہے۔ لکھنے والے اور تجزیہ کار اتنی سی بات کیوں نہیں سمجھتے کہ وڈیرہ شاہی کلچر میں حق بات کہنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ لیکن اگر سب ہی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر وڈیروں اور جاگیرداروں کے قدموں میں ’’عزت سادات‘‘ لٹا کر مرتبے پاتے ہیں تو تباہی ہمارا مقدر ہے۔ سقراط کو سچ کہنے کی سزا یوں ملی کہ اس نے زہر کا پیالہ پی کر خود کو امر کر دیا۔ لیاقت علی عاصم نے کیا خوب کہا ہے:

اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا

اکثر نیوز چینل اور اخبارات میں جب خطرناک مجرموں کی گرفتاری کے بعد ہتھکڑیاں پہنے ہوئے، موٹے موٹے مسٹنڈے مجرم قطار میں کھڑے، سروں پہ غلاف نما ٹوپیاں پہنے نظر آتے ہیں تو ہمیشہ میرے ذہن میں اقبال کا یہ شعر تازہ ہوجاتا ہے:

انوکھی وضع ہے‘ سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب‘ رہنے والے ہیں

اور اس ’’رونمائی‘‘ کے بعد دل ہی دل میں اس تھانے کا ایس ایچ او یا کوئی اور بڑا عہدیدار یقینا دل ہی دل میں یہ شعر گنگناتا ہو گا:
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ ’’بوٹے‘‘ میں نے پالے ہیں

اسی طرح جب صدر پاکستان ممنون حسین کے حوالے سے خبر پڑھی کہ 23 مارچ کی تقریبات میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انھیں سابقہ حکومت کے وفاداروں نے اپنی خدمات کا صلہ پانے کے لیے مٹکے میں سے سلوٹوں بھری شیروانی بنا استری کیے نکال کر پہنا دی تو انھیں دیکھنے والوں کو غالبؔ کا یہ مصرعہ ضرور یاد آیا ہو گا:
دیکھو مجھے جو دیدۂ عِبرت نگاہ ہو

وزیر اعظم نے اس حرکت کا فوری نوٹس لیا اور شاید اس کی تحقیق و جستجو کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہو گی۔ لیکن چند دن پہلے جب جناب ممنون حسین کا سابق صدر پرویز مشرف کی رہائی کے حوالے سے وہ بیان پڑھا جس میں انھوں نے پوری تابعداری سے فرمایا کہ ’’جو وزیر اعظم کہیں گے، میں وہی کروں گا‘‘ تو مجھے غالبؔ کا یہ شعر یاد آیا:
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے‘ ہم تم کو خبر ہونے تک

بہت سے لوگ خوش تو ضرور ہوئے، ہنسی بھی اڑائی دوبارہ سے کوتاہ بینوں اور متعصب لکھاریوں کو ان کا جائزہ کاروبار یاد آ گیا۔ ہاں اگر ممنون حسین ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک ہوتے، نہایت قیمتی نوادرات اور زیورات غیر ملکی بینکوں میں رکھے ہوتے، ناجائز کاروبار کا جعلی دواؤں اور جعلی ڈگریوں کا ٹھیکہ ہوتا تو انھیں عزت و توقیر کے حوالہ سے کسی اور نگاہ سے دیکھا جاتا ۔

جب تھر میں بیماری، بھوک اور قحط سے مرنے والوں کی خبر لینے سرکاری ٹیم پورے تزک و احتشام کے ساتھ ہیلی کاپٹروں میں وہاں پہنچی۔ تو ہر طرف بھوک سے مر جانے والے جانوروں کے پنجر بکھرے پڑے تھے۔ ننھے ننھے بچے پانی اور خوراک کو ترس رہے تھے۔ مر رہے تھے۔ سرکاری ٹیم اپنا ٹی اے۔ ڈی اے بنانے کے بعد ایک نگاہ غلط انداز ان نیم مردہ لوگوں پہ ڈال کر جب ٹھنڈے شامیانوں میں پہنچی تو ایسے ایسے انواع و اقسام کے کھانوں سے میزیں سجی تھیں جو کبھی ان لوگوں نے خواب میں بھی نہیں دیکھی ہوں گی۔ لیکن صوبائی حکومت نے ان کے ان دیکھے خواب جاگتی آنکھوں سے پورے کر دیے تھے کیونکہ ہر حکومت کو بابر کا یہ جملہ ازبر ہے:

’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ لیکن مجھے یہ مناظر دیکھ کر اقبالؔ کا ایک شعر یاد آ گیا۔ جو یقینا صوبائی سرکاری ٹیم کے ہر رکن کے دل کی آواز تھی۔ صرف یہی جتن مرگ نہیں۔ ابھی بہت لوگ بھوک سے مریں گے۔ اور بہت سی مغلیہ کھانوں کی ڈشیں آپ کی منتظر ہوں گی۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

مجموعی صورت حال ہم سب کی ایک جیسی ہے۔ جیسے گھر منہدم ہونے کو ہو، طوفان کا اندیشہ ہو، زمین پاؤں تلے سے ریت کی طرح سرکتی محسوس ہو، مایوسی، افسردگی، ڈپریشن، احساس تنہائی اور خوف ہماری رگوں میں اتر گیا ہو، بس یہ کیفیت ہے۔ جس سے فیضؔ صاحب بھی دوچار ہوئے تھے۔

گھر رہیے تو ویرانی دل کھانے کو آوے
رہ چلیے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے

اور جب بڑے بڑے نجی ٹی وی چینلز اداکاراؤں کے نکاح، طلاق اور فراڈ کی گھٹیا خبریں، ان کے بیہودہ جملے، اسکینڈلز، شادی اور ولیمے کی خبریں بریکنگ نیوز کے طور پر دکھائینگے تو ان کے ذمے داروں کی سوچ اور عقل پہ ماتم کرنے کے ساتھ ساتھ میری طرح بہت سے لوگ یقیناً غالبؔ کے اس شعر کی بلاغت کو محسوس کیے بنا نہیں رہتے ہوں گے:
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی

لیکن یہ بے چارے بھی کیا کریں ۔ کیا کسی ادیب، شاعر، عالم، موسیقار یا پروفیسر کی دانش سے بھرپور گفتگو سنوائیں گے۔ اتنی جوکھم کون اٹھائے۔ اس کے لیے تو پڑھنا پڑتا ہے۔ کاجو، بادام اور اخروٹ کھانے کے عادی لوگوں کو باسی چپس اور سڑے ہوئے قیمے کے سموسوں کا عادی بنانا بہت آسان ہوتا ہے اور پھر جب زباں پہ ان کی بھی مہر لگی ہو، چپ کا تالہ پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی کیمرے کی سرخ آنکھ کے ساتھ لگا نظر آ رہا ہو تو پھر اداکارائیں ہی باقی رہ جاتی ہیں جو بریکنگ نیوز کا پیٹ بھر سکیں۔ کئی کئی ماہ تنخواہیں نہ ملیں۔ پیٹ روٹی مانگتا ہے۔ ایسی سچائی کس کام کی جو رزق ہی چھین لے۔

سقراط کے پیروکاروں کو آج کل فیضؔ صاحب کے کچھ اشعار بہت یاد آنے لگے ہیں۔ ہماری تمام اردو شاعری علامتوں سے بھری پڑی ہے۔ جب قلم توڑ دینے کا حکم اس دور کے سلطانوں کی بارگاہوں سے صادر ہونے لگے۔ قصیدہ نگاروں کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیے جائیں تو کون کافر نہ بکے گا؟ سوائے ان کے جن کے سروں میں کھرا اور کھوٹا الگ کر کے دکھانے کا سودا سمایا ہو۔ آخر کچھ تو سقراط کے قبیلے کے لوگ ابھی زندہ ہیں جو بقول فیضؔ یہ کہہ سکتے ہیں:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول‘ جو کچھ کہنا ہے کہہ دے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔