تاریخ مخزن پاکستان

راؤ منظر حیات  ہفتہ 14 جنوری 2023
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

چند دن قبل‘ ایک ضخیم کتاب موصول ہوئی۔ خاکی لفافہ پر بھیجنے والے کا نام اور نمبر درج تھا۔ اس سے کوئی شناسائی نہ تھی۔ فون کیا تو عبدالستار عاصم صاحب نے اٹھایا۔ معلوم ہوا کہ قلم فاونڈیشن کے نام سے ایک ادارہ چلا رہے ہیں۔

پوچھا کہ جناب اس بھاری بھرکم نسخہ کے لکھاری کون ہیں۔ نام تو خیر کتاب پر بھی درج تھا۔ مگر وہ بھی مکمل نامانوس سا تھا۔ مہر محمد بخش نول۔ شکریہ ادا کرنے کے لیے نول صاحب کا نمبر لیا ۔ فون پر بات ہوئی تو جہان حیرت کھل گیا۔ اسی بیاسی برس کے بزرگ۔ کہنے لگے کہ تیرہ برس کی مسلسل تحقیق کے بعد یہ کتاب لکھی ہے۔

تین جلدوں پر مشتمل یہ تحریر دراصل نول صاحب کے تحقیقی مزاج کی معراج معلوم ہوئی۔ پہلی جلد آئی ہے۔ باقی دو بھی عنقریب چھپ جائیں گی۔ اب ‘ جناب جب یہ نسخہ پڑھنے کے لیے کھولا تو حیرت کی کیفیت رشک میں بدل گئی۔ ذہن میں سوال اٹھا کہ کیا ہمارے ملک میں ایسے بلند سطح کے محققین بھی موجود ہیں؟۔ صاحبان! یہ دراصل پاکستان کے دو ہزار شہروں اور قصبوں کی بھرپور تفصیل ہے۔ نول صاحب‘ ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں۔

اور کمال بات یہ ہے کہ پورے ملک میں پیدل‘ بس‘ ویگن اور جو بھی دستیاب سفر کے وسائل تھے۔ انھیں استعمال کیا۔ جہاں پنشن کے پیسے ختم ہوئے‘ وہیں سے واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ اتنا بے لوث جذبہ ‘ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ یہاں تو لوگ معمولی سا سفر کرتے ہیں تو ایک سفر نامہ لکھ ڈالتے ہیں۔ جس میں ذاتی تعریف کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا۔ پھر یہ بزرگ تو سب پر بازی لے گئے۔ کمال کر دیا۔

صاحبان زیست‘ کمال۔پہلی جلد الف سے شروع ہو کر ح پر ختم ہوتی ہے۔ یعنی شہروں اور قصبوں کی ترتیب حروف تہجی سے ہے۔ ایک کالم پر تو خیر اس انسائیکلوپیڈیا نما کتاب سے ہرگز ہرگز انصاف نہیںہو سکتا۔ مگر کوشش کرونگا کہ اس مرد درویش کے لکھے ہوئے نسخہ سے چند شہروں کی معمولی سی تفصیل آپ کے سامنے رکھ دوں۔

ایمن آباد:-پرانے زمانے میں راجہ سا لباہن کے دور میں ایمن آباد کا علاقہ بطور شکار گاہ تھا۔ 689 بمطابق 1290 میں سلطان فیروز شاہ خلجی ہندوستان کا بادشاہ بنا تو اس نے اپنی دایہ ایمنہ نامی کو یہ علاقہ بطور جاگیر عنایت کیا۔ ایمنہ دایہ نے یہاں پر قصبہ بنوایا اور اس کی پختہ فصیل تعمیر کی اور اپنے نام پر شہر کا نام ایمن آباد رکھا۔ بعد میںیہاں ایک اور گاؤں آباد ہو گیا۔

جس کا نام سید پور سلونہ رکھا گیا ۔ مسلمانوں کے عہد حکومت میں یہ قصبہ بطور پرگنہ تھا اس کا محاصل نو لاکھ روپے سالانہ تھا۔

جب شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دے کر بھگا دیا تو یہاں کا عامل ہمایوں کا مقرر کر دہ تھا‘ اس نے شیر شاہ سوری سے جنگ کی لیکن شکست کھائی تب شیر شاہ سوری نے اس قصبہ کو بے چراغ کر دیا‘ اس نے ایمن آباد کے نزدیک ہی ایک اور قصبہ شیر گڑھ کے نام سے آباد کیا۔

جب ہمایوں دوبارہ بادشاہ ہند بنا تو اس نے شیر گڑھ کو اجاڑ دیا (تاہم موجودہ دور میں شیر گڑھ کلاں اور شیر گڑھ خورد کے نام سے دو گاؤں موجود ہیں) اور محمد امین کروڑی کو حکم دیا کہ وہ جدید قصبہ اس مقام پر آباد کر کے اپنے نام پر اس کا نام رکھے۔محمد امین کروڑی نے موجودہ جگہ قصبہ آباد کر کے امین آباد نام رکھا اور کثرت استعمال کے سبب امین آباد کے بجائے پرانا نام ایمن آباد ہی مشہور ہوا اور آج تک یہی نام ہے۔

یہاں 1760 میں مغلوں کا اقتدار سردار چرٹ سنگھ نے ختم کر دیا‘ رنجیت سنگھ نے اپنے دور اقتدارمیں راجہ دھیان سنگھ کو ایمن آباد کی جاگیر سے نوازا جس نے سکھوں کو ایمن آبادمیں آباد کیا۔

بری کوٹ (سوات):-بری کوٹ کا پرانا نام بازیرہ ہے جسے سکندر یونانی نے 327قبل مسیح میں فتح کیا تھا۔ یہ مقام ہندو اور یونانی دور میں ایک مضبوط چھاؤنی تھا۔ بازیرہ کا ذکر یونانی مؤرخین کورشس ردفوس اور آریان کی کتابوں میں ملتاہے۔اطالوی آرکیالوجی مشن یہاں پر 1984 سے کھدائی میں مصروف رہا ہے انھوں نے ہما مشنی‘ یونانی‘ موریا‘ ہندو‘ یونانی‘ ساکاپاتھین‘ کشان‘ سفید ہن‘ ہندوشاہی اور اسلامی ادوارکے آثار یہاں دریافت کیے ہیں۔

اس شہر کے گرد قلعہ نما دیوار پتھروں اور لکڑی سے بنائی گئی تھی جگہ جگہ بڑے بڑے گول برج بھی دریافت ہوئے ہیں۔ یہ دیوار پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی تک قائم رہی۔ قدیم زمانے میں یہاں بدھ مت کے متعلق ایک درس گاہ قائم تھی جہاں مذہبی تعلیمات کے علاوہ سنگ تراشی کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔بری کوٹ سوات سے چند کلومیٹر کے فاصلے پرابوہا‘ کوٹہ ‘ اور لنڈا کی چیک پوسٹ پر واقع ہیں یہاں پر بھی بدھ مت کے آثار قدیمہ وسیع علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہی ابوہا کا گاؤں نیمبولا اور بیگم جان کے رومان کے لیے بہت مشہور ہے۔

روایات کے مطابق ابوہا کی ایک دوشیزہ پر نیمبولا نامی جن عاشق ہو گیا۔اس جن کو ملا بہادر نامی مولوی نے جلادیا تھا ۔بعد میں اس جن کے لواحقین نے ملا بہادر کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ باوضو رہتا تھا۔

ایک دن وہ باوضو نہیں تھا تو نیمبولا جن کے رشتہ داروں نے اس کومسجد میں پھانسی دے دی اور اس کی لاش کو ابوہا کی ایک پہاڑی پر لٹکا دیا تھا یہاں پر ریاستی دور میں ایک قلعہ تھا جس کو قومی ورثہ میں رکھنے کے بجائے حال ہی میں مسمار کر دیا گیا ہے۔

پشین:- پشین کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پشین کا قدیمی نام پشن ہنگ یا پشنگ تھا عربی زبان میں فش ہنج لکھا جاتا تھا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بادشاہ افراسیاب کے بیٹے کے نام پر پشین نام رکھا گیا ہے۔

(بحوالہ بلوچستان کے اضلاع از کامران اعظم سوہدروی)جب کہ لالہ ہتورام اپنی کتاب تاریخ بلوچستان میں لکھتا ہے کہ پشین کا نام دفتر قندھار میں فوشنج درج ہے‘ وجہ تسمیہ اس کی ایسے سنی جاتی ہے کہ بعد نوشیروان فوشنج نامی پہلوان تھا اس نے پہلے یہ ملک آباد کیا تھا اس لیے اس کے نام پر مشہور ہوا۔تاریخی اعتبار سے پشین پہلے صوبہ قندھار کا حصہ تھا۔ صفوی دور میں یہ علاقہ شیر خان ترین کے حوالے کیا گیا۔

اس نے لوٹ مار کر کے قلعے میں دولت جمع کر لی‘ قندھار کے گورنر کو جب اس کی ان حرکات کا علم ہوا تو اس نے قلعے پر حملہ کر کے ساری دولت پر خود قبضہ کر لیا‘ شیر خان شکست کھا کر دکی اور چوٹیالی کی طرف بھاگ گیا۔

شاہ جہاں کے دور میں ایرانیوں نے قندھار پر قبضہ کر لیا تو شاہ جہاں نے اپنے بیٹے داراشکوہ کو ایک لاکھ فوج دے کر بھیجا کہ وہ قندھار کو آزاد کرائے دارا شکوہ لمبی فوج لے کر قندھار پہنچا اور لمبے عرصے تک محاصرہ جاری رکھا لیکن نالائق شہزادے سے قندھار فتح نہ ہوسکا‘ آخر کار پشین کے راستے واپسی کا رخ اختیار کیا اور جاتے جاتے پشین کا قلعہ تباہ کر کے دہلی چلا گیا۔ 1690میں میر احمد خان‘ خان قلات نے پشین کے علاقے پر حملہ کر دیا اور لوٹ مار کر کے واپس قلات چلا گیا۔ 1775 میں میر عبداللہ خان آف قلات نے دوبارہ حملہ کر کے پشین پر قبضہ کر لیا اور ریاست قلات میں شامل کر دیا۔

انگریزوں نے جب کوئٹہ سے پشین کی طرف پیش قدمی کی تو بلا مزاحمت تمام علاقہ پشین کا بھی چارج سنبھال لیا‘ انگریزوں نے پشین میں فوجی چھاؤنی قائم کی۔ اچکزئی قبیلے نے چھاپہ مار جنگ کے ذریعے انگریزی کو ناکوں چنے چبوائے ۔

ٹھٹھہ:- ٹھٹھہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مرزا قلیج بیگ اپنی کتاب ’’قدیم سندھ اور اس کے مشہور شہر‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ٹھٹھہ یانگرٹھٹھہ قدیم شہر ہے کہتے ہیں کہ پہلے اس جگہ سمندر کا کھارا پانی تھا جو بعد میں خشک ہو کر میدان بن گیا‘ زمین نشیبی تھی یعنی لہہ ٹھہ جس کے معانی نشیبی ہیں۔ کچھ آدمیوںکے خیال میں ٹھٹ آدمیوں کے شور وغل کو کہا جاتا ہے۔

ٹھٹ خشک میدان کو بھی کہا جاتا ہے‘ شاید اس طرح ٹھٹ سے ٹھٹہ نام نکلا ہو‘ سندھ میں ٹھٹ نام کے کئی اور گاؤںبھی موجود ہیں‘‘۔ ٹھٹھہ جہاں علم و ادب اور حاکموں کا شہررہا وہیں کئی بار تباہ و برباد کیا گیا‘ علاؤ الدین خلجی ‘ محمد تغلق ‘ فیروز شاہ تغلق دہلی سے آ کر حملہ آور ہوئے جس سے مقامی آبادی کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ خوراک کی کمی سے قحط کی صورت میں عذاب نازل ہوا‘ دوتین بار شہر آگ سے تباہ ہو گیا۔

شاہ بیگ سبی کو فتح کرنے کے بعد ٹھٹھہ پہنچ گیا۔ گیارہ محرم 927 بمطابق 1520 کو ٹھٹھہ فتح کر کے لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔

محمد بخش نول جو بطور محقق جتنا عمدہ کام کر رہے ہیں اس کی پذیرائی اور ستائش ہر سطح پر ہونی چاہیے۔

نفسا نفسی کے اس سرکش دور میں یہ شخص اپنے گرد قریہ قریہ گھوم کر ہمارے لیے معلومات کا خزانہ محفوظ کرتا ہے۔ جو حد درجہ محترم بات ہے۔ قابل تقلید بھی۔ مگر اسی سال کا بزرگ ‘ دراصل ایک ایسا نوجوان ہے جس سے ہماری تاریخ زندہ لیکچر میں سامنے آ جاتی ہے۔ ذرا اس کی ورق گردانی کر کے تو دیکھیے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔