کرپشن

غلام محی الدین  ہفتہ 14 جنوری 2023
gmohyuddin@express.com.pk

[email protected]

طویل غیر حاضری کے بعد کالم لکھنے کا دوبارہ آغاز کیا تو احباب کا اصرار تھا کہ دوستوں کی آسان رسائی کے لیے ایک ’واٹس ایپ‘ گروپ بناؤ کیونکہ آج کے دور میں کوئی تمہارے کالم کے لیے تمہارے دروازے پر نہیں آئے گا اپنا کالم تمہیں خود ہم تک پہنچانا ہے۔

لہٰذا اس تجویز پر عملدرآمد کرلیا۔ ایک مثبت بات یہ ہوئی کہ احباب کے ردعمل سے فوری آگاہی کا اہتمام ہوگیا۔ جس کالم سے ابتداء کی اس کا موضوع یورپی پارلیمنٹ کی ایک رُکن ’ایواکیلی‘ کی کرپشن کے خلاف اُس کے اپنے ملک یونان اور یورپی پارلیمنٹ کے تمام ارکان کے انتہائی سخت گیر رویے اور اس کا پاکستان میں کرپشن کی صورت حال سے تقابل تھا۔

اس کالم پر احباب اور دیگر کی آراء سے پہلی بات تو یہ ثابت ہوئی کہ پاکستان میں کرپشن، بدعنوانی اور اقربا پروری پر عمومی تبصرہ بھی پاکستان میں طویل عرصہ تک باہمی ساجھے داری کے ساتھ اقتدار پر قابض رہنے والی سیاسی جماعتوں کی قیادت پر حملہ تصور کیا جاتا ہے جو عمران خان کی غیر معمولی کامیابی ہے۔

میرے خیال میں کسی معاشرے میں پیدا ہو جانے والی برائیوں کی تباہ کاری کی مختلف سطحیں ہوتی ہیں اور ان سے نمٹنے کی ترجیحات بھی ان سے وابستہ خطرات کی شدت اور تباہ کاری کی وسعت کے لحاظ سے طے پاتی ہیں۔

پھر کسی برائی کو برائی قرار دینے کے پیمانے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی مذہبی اصول کے مطابق برائی قرار پانے والا عمل ممکن ہے ارتقاء پذیر معاشی اقدار یا کسی ریاست کے عمومی قوانین کے مطابق وہ برائی نہ سمجھی جاتی ہو۔ تو اس حوالے سے ایک پیمانہ بھی ضروری ہوتا، جیسے ہمارے ناپ تول کے پیمانے ہوتے ہیں۔

ملائیشیا کی مثال لے لیں‘ وہاں مخصوص معاملات میں مسلم اکثریت کے لیے الگ قوانین ہیں اور ان کے متوازی ایک عمومی قانون بھی روبہ عمل ہے۔

اس ضمن میں دور نبوت ﷺ کے ایک واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپﷺ کی مجلس میں ایک شخص آیا اور سرگوشی میں بدکاری کا اعتراف کر لیا۔ آپﷺ نے سُنی اَن سُنی کر دی کہ وہ شخص اُٹھ کے چلا جائے۔ اُس نے پھر کہا ، آپ نے پھر دھیان نہ دیا۔ تیسری بار اُس کی آواز باقیوں نے بھی سُن لی، تب آپﷺ نے سزا پر عملدرآمد کا حکم دیا۔

یہاں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ایسی انفرادی لغزشیں جن سے کسی دوسرے کے حقوق متاثر نہیں ہوتے اور ان کی مضرت رسانی مرتکب ہونے والوں تک ہی رہے، اس پر ہمارا دین نرمی اور در گذر سے کام لیتا ہے لیکن جہاں پر اس کا اثر معاشرتی سطح پر پھیلنے لگے، یہ ترغیب بننے لگے، ادارہ جاتی شکل لے لے، وہاں دین کوئی رو رعایت نہیں کرتا۔

کرپشن کی بہت سی اقسام ہیں۔ سب سے پہلے ہم کرپشن پر فلسفانہ زاویہ نظر سے ایک بیان دیکھتے ہیں۔ 19 ویں صدی کے ممتاز جرمن فلسفی آرتھور شوپن ہاور (Arthur Schopenhover) نے اپنے عہد کے علماء اور مفکرین کے بارے میں کہا تھا ’’ایک فلسفی دانش کا عاشق ہوتا ہے اور دانش سچ کے سوا کچھ نہیں (یہاں سچ کرپشن کی ضد کے طور پر استعمال ہو رہا ہے) اگر کسی فلسفی کے نزدیک سچائی وہی ہے جو اس کے ذاتی مقاصد سے ہم آہنگ ہے۔

حکام کی توقعات کے تابع ہے‘ چرچ کے مفادات اور اُس کے اپنے تعصبات سے مطابقت رکھتی ہے تو ایسا فلسفی اپنی ذات کا مُحب ہے، سچائی کا نہیں۔ سچائی کے ساتھ عشق پورے دل کے ساتھ، غیر مشروط اور اگر مگر کے بغیر ہوتا ہے‘‘۔

اس بحث میں اول الذکر قسم کو شوپین ہاور نے ’کرپٹ فلسفی‘ قرار دیا ہے۔بنیادی طور پر کرپشن کو دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے پہلی قسم Petty Corruption ہے۔ سڑک پر کھڑے ٹریفک پولیس کے سپاہی سے لے کر سرکاری اداروں میں عوامی خدمات اور تادیبی ذمے داریوں کی ادائیگی پر مامور انتظامی مشینری کے کل پُرزے جائز کاموں کے لیے بھی رشوت لیتے ہیں۔

’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ کے مطابق 90 فیصد سے زائد عام پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ان کا کام رشوت دیے بغیر نہیں ہوتا۔ لیکن یہ سرگرمی کسی ریاست کو ناکام کرنے کا باعث نہیں بنا کرتی۔ اس کے اثرات انفرادی سطح پر یقیناً تکلیف دہ ہوتے ہیں لیکن یہ معمولات کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس سے بڑا درجہ ناجائز کاموں کے لیے رشوت یا ذاتی مفاد کا حصول ہے۔

اس میں زیادہ بڑی رقوم کا لین دین ہوتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد بااختیار لوگ ایک دوسرے کے لیے اپنے اختیارات کا غیر منصفانہ استعمال کرتے ہیں۔ قصہ مختصر، کسی تخلیقی سرگرمی کی نقل بھی کرپشن ہوتی ہے۔

جو کرپشن کسی ریاست کو ناکام کر دینے کا باعث بنتی ہے اسے ماہرین Grand Corruption یعنی اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھی فیصلہ ساز ’ہستیوں‘ کی ذاتی مفاد کے لیے بڑے پیمانے پر منظم کرپشن قرار دیتے ہیں۔ اس کا سب سے تباہ کُن پہلو یہ ہے کہ اس کے اثرات انفرادی نہیں قومی سطح پر ظاہر ہوتے ہیں۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ Petty Correption کی مثال یوں ہے جیسے کسی نے پستول سے گولی چلا کر کسی کو ہلاک یا زخمی کردیا۔

اعلیٰ سطح کی منظم کرپشن اس طرح ہے جیسے آپ کہیں فضائی بمباری کردیں، ایٹم بم پھوڑ دیں۔ اس کی تباہی پوری ریاست میں پھیل جاتی ہے اور اپنے اثرات میںکثیر جہتی ہوتی ہے۔

ایک سرجن انفرادی سطح پر رشوت کے عوض کسی حق دار کی باری پر کسی دوسرے مریض کا پہلے آپریشن کرسکتا ہے۔ حکومتی سرپرستی میں ہونے والی قومی وسائل کی چوری اسپتال ہی نہیں بننے دیتی، اُن سہولیات کا راستہ روک لیتی ہے جو مریضوں کو میسر آسکتی تھیں، انفرادی سطح پر تعلیمی نتائج میں ہیر پھیر ممکن ہے، گرینڈ کرپشن تعلیمی ادارے ہی نہیں بننے دیتی، سرکاری تعلیمی ادارے نجی اداروں کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں۔

اساتذہ کو وہ معاشی آسودگی نہیں مل پاتی جو لوٹے جانے والے سرکاری وسائل سے ممکن تھی، طلباء کو درکار سہولیات خواب بن جاتی ہیں، ایسا سرمایہ جو ریاستی انفرااسٹرکچر پر صرف ہوسکتا تھا حکمرانوں اور ان کے سہولت کاروں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔

سڑکیں، پُل، ڈیم اور دیگر عوامی سہولیات کے منصوبے نہیں بن پاتے۔ ملک سے چوری ہونے والے سرمائے کی اندرون ملک قلت کو بیرونی قرضوں سے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی۔

مسلسل چوری قرضوں کی ادائیگی میں رکاوٹ بن جاتی۔ دوسری طرف قومی سرمایہ انفرادی دولت بن کر ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔ قرضے اور بیرون ملک سنبھالی گئی دولت ملک کی اپنی پالیسیوں پر بیرونی دھونس اور بلیک میلنگ کا باعث بن جاتی ہے۔ اس طرح کی کرپشن ملک کو قدرتی آفات کے حوالے کرنے کا بھی باعث بنتی ہے۔

مثال کے طور پر سیلابوں کی روک تھام کے لیے بہت بڑے پیمانے پر تعمیراتی سرگرمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کرپشن ان تعمیرات کے معیار اور بروقت تعمیر پر سمجھوتے کا باعث بنتی ہے اور وقت پڑنے پر سارا نظام بیٹھ جاتا ہے۔

پاکستان بارہا ایسی صورتحال سے گزرچکا ہے۔ اب اگر دیانت داری سے بات کی جائے تو کرپشن کی اس قسم کے تباہ کُن اثرات لامحدود ہوتے ہیں۔ اس کا کرپشن کی دیگر اقسام سے کوئی تقابل ہی نہیں بنتا کیونکہ درحقیقت Petty کرپشن بھی اعلٰی سطح پر ہونے والی کرپشن کی چھتری تلے ہی برگ و بار لاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔