سیاسی محاذ آرائی ملک کے مفاد میں نہیں

سلمان عابد  اتوار 15 جنوری 2023
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ملک میں فوری عام انتخابات کی بحث چھڑ گئی ہے البتہ ابھی تک وفاقی حکومت کا موقف یہ ہی ہے کہ صرف دو صوبوں میں ہی انتخاب ہونگے۔

عمران خان سندھ اسمبلی سے استعفوں کا آپشن اختیار کرکے مزید دباو بڑھانا چاہتے ہیں ۔ ان کے بقول جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے 65 فیصد نشستیں خالی ہوجائینگی تو عام انتخابات کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔حکمران اتحاد اور ان کے سیاسی دانشور کا بنیادی نقطہ یہ ہی تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی نہیں توڑینگے لیکن انھوں نے عمران خان کا ساتھ دینے کا وعدہ نبھایا اور وہی کچھ کیا جو عمران خان چاہتے تھے۔

اگرچہ ہمارا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد صوبائی انتخابات ہو سکتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سے سیاسی پنڈت یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ حکومت عام انتخابات کے بجائے صوبائی انتخابات کی حکمت عملی اختیار کریگی لیکن مسئلہ آئینی یا قانونی نہیں بلکہ سیاسی اورانتظامی نوعیت کے مسائل کا ہے۔

اول کیا قومی اسمبلی یا وفاقی حکومت کی موجودگی میں دو صوبائی اسمبلیوں کے شفاف انتخابات ہو سکتے ہیں؟ دوئم کیا ان دو صوبوں میں جو بھی نئی صوبائی حکومتیں بنیں گی، ان کے آٹھ ماہ کے بعد قومی اسمبلی کے انتخابات کی سیاسی حیثیت کیا ہوگی او رکیا اس وقت کی دو صوبائی حکومتوں کی موجودگی میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں شفافیت ممکن ہوسکے گی۔

سوئم ہمارے انتخابات پینل کی بنیاد پر ہوتے ہیں جن میں قومی اسمبلی کے ممبر کے نیچے دو ممبرصوبائی نشستوں کے ہوتے ہیں۔ کیا محض دو صوبائی نشستوں کے انتخابات کو قومی اسمبلی کا ممبر سیاسی سطح پر اس عمل کو قبول کرسکتا ہے۔ چہارم ایک ایسے موقع پر جب پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں عمران خان کی مقبولیت ہے تو حکومت ان دو صوبوں تک انتخابات کی حکمت عملی اختیار کرکے اپنے لیے زیادہ سیاسی و انتخابی مشکلات پیدا کریگی۔

پنجم کیا ہم انتظامی ، مالیاتی اور ریاستی سطح پر پہلے صوبائی اور پھر قومی انتخابات کے طور طریقے قابل قبول ہونگے ۔ششم اگر پہلے صوبائی انتخابات ہونگے تو وفاقی حکومت اور وزیر اعظم سمیت اہم وزراء کیسے دو صوبوں کی انتخابی مہم میں حصہ لے سکیں گے کیونکہ قانون کے مطابق وہ انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکیں گے ۔یہ تمام سوال اہم ہیں او راسی کو بنیاد بنا کر انتخابات کا حتمی فیصلہ ہوگا۔

مسلم لیگ ن میں موجودہ صورتحال میں زیادہ مایوسی پائی جاتی ہے ۔نواز شریف اور خاقان عباسی سمیت کچھ لوگ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فورا بعد عام انتخابات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا ۔ ان کے بقول انتخابات میں تاخیر کے فیصلے کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن کو ہوا ہے ۔ حکومت اور ان کے اتحادیوں میں فوری عام انتخابات یا محض صوبائی انتخابات کے معاملے پر تقسیم ہے۔

عمران خان کو بخوبی اندازہ ہے کہ فوری انتخاب کا فیصلہ حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی سے مشروط ہے ۔ عمران خان کا بنیادی مطالبہ بھی اسٹیبلشمنٹ سے ہی ہے۔

عمران خان کی ایک حکمت عملی یہ بھی ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو اس نقطہ پر لاسکیں کہ وفاقی حکومت کی حمایت سے دستبردار ہوں اور اسی بنیاد پر صدر مملکت وزیر اعظم سے اعتماد کا ووٹ لینے کی درخواست کرینگے اور اعتماد کے ووٹ کی ناکامی کے بعد قومی اسمبلی بھی تحلیل ہویا مسلم لیگ ن کے کچھ لوگ اعتماد کے ووٹ میں اپنا ووٹ وزیر اعظم کے حق میں نہیں دینگے اور کوشش کرینگے کہ اس کے صلہ میں ان کو اگلا ٹکٹ پی ٹی آئی کا ملے۔

یہ جو سیاسی پنڈت لمبے عرصہ کے عبوری حکومت یا معاشی ماہرین پر مشتمل ٹیکنوکریٹس حکومت یا معاشی ایمرجنسی کی بنیاد پر انتخابات میں تاخیر کی باتیں کررہے ہیں وہ بھی مسئلہ کا حل نہیں ۔جو لوگ بھی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کو مہم جوئی کے مشورے دے رہے ہیں وہ مسئلہ کا حل نہیں۔ اس کا حل نئی منتخب حکومت ہے ۔

بہتر حکمت عملی تو یہ ہی ہے کہ سیاسی قیادتیں بیٹھ کر منصفانہ انتخابات پر اتفاق رائے پیدا کریں ۔ یہ اتفاق بھی پیدا ہو کہ انتخابات کے نتائج کو قبول کیاجائیگا تاکہ ملک عملی طور پر بحرانوں کی کیفیت سے باہر نکل سکے۔

اگر ہم نے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے تو پھر کچھ معاملات کوOut of Box جاکر تلاش کرنا ہوگا، ٹکراو کی پالیسی قومی مفاد میں نہیں ۔ سیاسی فریقین کے سامنے ریاستی مفاد کم اوراپنے ذاتی، سیاسی مفادات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اسی بنیاد پر ہماری سیاسی قیادتیں وہ کچھ نہیں کرسکیں جو ان کو موجودہ حالات میں تدبر کے ساتھ فیصلے کرنے چاہیے تھے۔

اب بھی وقت ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں نے ذمے داری کا مظاہرہ نہ کیا اور آپس میں ٹکراو یا عدم اعتماد کی پالیسی کو جاری رکھا تو اس کا فائدہ پھر سیاسی اور جمہوری قوتوں کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتوں کو ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔