دہشت گردی کی کارروائیاں

ایڈیٹوریل  پير 16 جنوری 2023
ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں کا ٹارگٹ ڈی ایس پی سردار حسین تھے۔ فوٹو: فائل

ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں کا ٹارگٹ ڈی ایس پی سردار حسین تھے۔ فوٹو: فائل

پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا میںدہشت گردوں کی کارروائیاں جاری ہیں‘جمعہ کی رات پشاور کے تھانے سربندپر دہشت گردوں نے دستی بموں سے حملہ کیا ،دہشت گردی کی اس واردات میں ڈی ایس پی بڈھ بیر سردار حسین اور دو گن مین شہید ہو ئے تھے۔

اس دہشت گردی کی ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں کا ٹارگٹ ڈی ایس پی سردار حسین تھے۔

دہشت گردوں نے دو اطراف سے ڈی ایس پی اور ان کے 2 محافظوں کو نشانہ بنایا اور تھانے پر دستی بم گرائے۔دہشت گردی کے واقعے کے بعدپولیس افسر سردار حسین اپنے دو محافظوں کے ہمراہ تھانے آ رہے تھے کہ ان پرفائرنگ ہوئی ‘یہ فائرنگ ڈیڑھ کلو میٹر دور  بیٹھے ٹرینڈ اسنائپرز نے کی تھی۔

میڈیا نے ذرایع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ اسنائپرز نے دیگر پولیس اہلکاروں پر فائرنگ نہیں کی‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا ہدف صرف ڈی ایس پی سردار حسین اور ان کے محافظ ہی تھے۔

شہید ڈی ایس پی سردار حسین اور دومحافظوں کی نماز جنازہ پولیس لائنز پشاور میں ادا کی گئی،اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں خیبرپختونخوا کے آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری نے کہا ہے کہ تھانہ سربند پر حملے میںدہشت گردوں نے جدید اسلحہ استعمال کیا، یہی اسلحہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں بھی استعمال ہوا ہے۔

ادھر سربند میں ڈی ایس پی کو شہید کرنے والے دہشت گردوں کے دو سہولت کار خفیہ آپریشن میں ہلاک ہوگئے ہیں ، سی ٹی ڈی پشاور کے مطابق ان کی شناخت گل حئی سکنہ باڑہ اور حضرت عمر سکنہ مہمند کے ناموں سے ہوئی ہے۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ دہشت گرد اے این پی کے رہنما ہارون بلوراور اے آئی جی پولیس اشرف نورکیس میں بھی مطلوب تھے۔

خیبرپختونخوا میں دہشت گرد تقریباً ایک ڈیڑھ برس سے سرگرم ہیں ‘ ان کے سہولت کاروں اور کیرئیرز کا نیٹ ورک بھی خیبرپختونخوا کے شہروں اور قصبوں میں متحرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد بڑے تواتر کے ساتھ پولیس کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں‘ ان کے سرپرستوں ‘ ان کے ہینڈلرز اور سہولت کاروں کو ا س حقیقت کا بخوبی علم ہے کہ پورے پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا کے عوام دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے فکر و فلسفے کے سخت مخالف ہیں۔

اس کا مظاہرہ سوات میں عوامی احتجاج کی صورت میں نظر آیا ‘ اس کے بعد جنوبی وزیرستان میں وانا کے عوام بھی دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف سڑکوں پر آئے اور تین چار روز مسلسل احتجاج کرتے رہے۔

اس حقیقت کے باوجود کے پی کے کی صوبائی حکومت ‘پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کا اس حوالے سے موقف مبہم اور کمزور ہے۔ پنجاب میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئی ہیں اور ان کا زیادہ ٹارگٹ جنوبی پنجاب ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے علاقے تونسہ میں بھی پولیس ٹیموں پر حملے ہوئے ہیں ۔گزشتہ روز پنجاب پولیس کے سربراہ عامر ذوالفقار خان ڈیرہ غازی خان پہنچے ہیں۔

انھوں نے وہاں آر پی او آفس میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی اور امن و امان کے حوالے سے ہدایات جاری کیں۔انھیں تونسہ شریف میں پولیس چوکی پر دہشت گرد حملے کی ابتدائی تحقیقات بارے آگاہ کیا گیا۔

دہشت گرد خیبرپختون خوا اور بلوچستان میںزیادہ کارروائیاں کر رہے ہیں‘ اس کا مطلب ہے کہ ان دو صوبوں میں ان کا نیٹ ورک زیادہ متحرک اور فعال ہے۔ انھی علاقوں سے وہ پنجاب اور سندھ میں آ کر اپنے سہولت کاروں کی مدد سے دہشت گردی کرتے ہیں۔

یہ حقائق معمولی شدبد رکھنے والے افراد کو بھی معلوم ہیں لیکن ہماری ریاستی مشینری ‘ وفاقی ، صوبائی حکومتیںاور ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتیں اس حوالے سے چشم پوشی کا مظاہرہ کر رہی ہیں یا ان میں دہشت گردی سے نمٹنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے۔

اسی وجہ سے پاکستان انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا۔ ملک کی سیاسی قیادت باہم دست وگریباں ہے اور ملک کے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں مزید گہرا اور ناقابل حل بنا رہی ہے۔

پاکستان کے معاشی بحران کی اصل وجہ بھی سیاسی عدم استحکام ہے۔ اس عدم استحکام کو بڑھانے میں جہاں سیاسی قیادت کی کم عقلی اور کم فہمی کا عمل دخل ہے وہاں ریاستی اداروں میں بیٹھے افراد کے غلط فیصلے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

پاکستان کے پالیسی ساز اور اسٹیک ہولڈرز ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ بدلتی ہوئی عالمی صف بندی میں انھوں نے کہاں کھڑے ہونا ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی کے اس ابہام نے بھی پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔

افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجوں کے انخلا اوروہاں  طالبان حکومت کے قیام کے بعد کی صورت حال کے بارے میں ہمارے پالیسی ساز کوئی راہ عمل مرتب کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے‘ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے اس کی کبھی تیاری ہی نہیں کی اور نہ  افغانستان ‘وسط ایشیاء اور ایران کے حوالے ہی سے تھنک ٹینک قائم کیے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں اور پڑھے لکھے طبقے میں بھی ان ملکوں میں موجود نسلی ‘ثقافتی اور مذہبی تقسیم کے بارے میں آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

ہمارے پالیسی سازوں کو توقع یہ تھی کہ طالبان کی حکومت افغانستان میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کر دے گی اور پاکستان پر دہشت گردوں کے حملے رک جائیں گے لیکن یہ خواہش صرف خواہش ہی رہی‘ طالبان کی حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے انکار کر دیا بلکہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پہلے سے زیادہ آزادی مل گئی۔

یوں ٹی ٹی پی کے لوگوں نے پاکستان آنا شروع کر دیا ۔ پھر بلوچستان ، خیبر پختونخوا حتیٰ کہ پنجاب اور سندھ میں دہشت گردی کی وارداتیں شروع ہو گئیں ، یہی نہیں بلکہ افغان طالبان نے پاک افغان سرحد پر پاکستانی علاقے میں قائم کی گئی حفاظتی باڑ توڑی اورپاکستانی علاقے میں فائرنگ اور گولہ باری کر کے کئی شہریوں کو شہید اور زخمی کردیا۔

یہ سب ہو جانے کے بعد پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج نے تحمل اور برد باری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کابل حکومت کو اُس کی ذمے داریاں یاد دلائیں اور اشتعال انگیزی سے باز آنے پر زور دیا ، مگر اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ افغان قیادت ٹی ٹی پی کے حوالے سے کوئی دوٹوک فیصلہ نہیں کرپا رہی۔افغانستان میں ٹی ٹی پی کے لوگوں کی موجودگی پاکستان کے لیے مسائل پیدا کررہی ہے۔

افغانستان کی عبوری حکومت حقائق سے پوری طرح آگاہ ہے، دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان رابطہ کاری بھی موجود ہے، اس کے باوجود یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔

پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر دہشت گردوں کی کارروائیوں کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس لیے افغانستان کی حکومت کو ٹی ٹی پی اوراس جیسی دیگر تنظیموں سے لاتعلقی اختیار کرنے کا واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے تاکہ اس خطے میں وارلارڈ ازم اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکے۔

ملک میں انتہا پسندی اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں ہم آہنگی۔

تعاون اور باہمی افہام و تفہیم کا ماحول موجود ہو ، جس میں کم از کم قومی سلامتی کے معاملہ پر فریقین اپنے تمام تر سیاسی، نظریاتی اور شخصی اختلافات سے قطع نظر مل کر مقابلہ کرنے کے لے دل و جان سے تیار ہوں۔

پاکستان کی مسلح افواج نے ملک میں دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے جو آپریشن کیے اور ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت جو اقدامات اٹھائے ان کے نتیجے میں بہت حد تک دہشت گردی کی کارروائیاں رک گئی تھیں اور ملک میں امن و امان قائم ہو گیا تھا اور اہلِ پاکستان نے سکھ کا سانس لیا تھا۔

لیکن اب پھر دہشت گردی نے پر پرزے نکالنا شروع کر دیے ہیں۔ قومی سطح پرموجود نظریاتی اور سیاسی تقسیم ختم کیے بغیر یہ سوچ لینا کہ دہشت گردی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا ، خام خیالی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ جہاں تک اس معاملہ کی اسٹرٹیجک سطح کا تعلق ہے تو اس کے لیے پاکستان کو خارجہ تعلقات اور قومی سلامتی کے تمام پہلوؤں کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا۔

گزشتہ چار دہائیوں کے دوران کی جانے والی تمام غلطیوں کا اعتراف کر کے معاشرے کے تمام طبقوں اور اسٹیک ہولڈرز کے اشتراک سے کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی جسے عالمی برادری کی تائید بھی حاصل ہو اور اس پر عمل کرنے سے ملکی وقار میں بھی اضافہ ہو۔

اس کے علاوہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے طویل المدتی حکمت عملی کے تحت اسکولز ‘کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھائے جانے والے نصاب تعلیم میں تبدیلیاں کی جائیں تاکہ آنے والی نسل انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ناسور سے نجات پا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔