مشکل معاشی صورتحال اور سیاستداں

ڈاکٹر منصور نورانی  پير 16 جنوری 2023
mnoorani08@hotmail.com

[email protected]

ہم کب تک صرف تین ملکوں سے بھیک مانگتے رہیں گے۔ ہمارے پاس ادھار مانگنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی ہے۔ کہنے کو ہم ایک ایٹمی قوت بنے ہوئے ہیں مگر کیا دنیا کی دوسری ایٹمی قوتوں کا یہی حال ہے۔

ہم اپنے پیروں پر کب کھڑے ہونگے۔ کب تک دنیا کی بیساکھیوں کے آسرے پر پڑے رہیں گے۔ کیا ہمارے زمینی خزانے ختم ہوچکے ہیں۔ ہم کیوں اُن سے فیضیاب ہونا نہیں چاہتے ہیں۔

سعودی عرب بھی کبھی ہم سے زیادہ غریب ملک ہوا کرتا تھا ، لیکن جب سے انھیں اپنی زمینوں میں چھپی اللہ تعالیٰ کی نعمت کا پتا چلا انھوں نے لمحہ بھر کی دیر نہ کی اور بہت ہی کم عرصہ میں اپنے ملک کو تیل کا ایک بڑا ایکسپورٹر بنا دیا۔ ہم پچاس ساٹھ سالوں سے اپنی قوم کو بلوچستان کے معدنی خزانوں کے قصے سنا رہے ہیں کہ وہ اگر نکالے جائیں تو ہم مالا مال ہوسکتے ہیں۔

اربوں ڈالروں کی مالیت کی یہ خزانے پتا نہیں کونسی نسل نکالے گی۔ اس کے علاوہ جن غذائی اجناس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں خود کفیل بنایا ہوا تھا رفتہ رفتہ ہم اُن سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ کبھی سننے کو ملتا ہے کہ ہم نے زیتون کی کاشت کو اپنے یہاں کامیاب بنا لیا ہے ، اگر ایسا ہے تو ہم کب اُس سے استفادہ کر پائیںگے۔

ہماری ایکسپورٹ دن بدن کم ہوتی جا رہی ہیں جب کہ ضروری اشیاء کی درآمد کے لیے ہمارے پاس زرمبادلہ بھی موجود نہیں ہے۔ ایسے میں ایک خوفناک تصویر ہمیں اپنے مستقبل کی دکھائی دینے لگی ہے۔

دوسری جانب IMF ہم پر ایک ارب ڈالرکی قسط کے لیے ہر بار پہلے سے زیادہ کڑی شرائط لاگو کرتا جا رہا ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کو تو ضرورکہتا ہے لیکن کبھی ہمارے حکمرانوں سے اپنے خرچے کم کرنے کو نہیں کہتا، اتنی بڑی کابینہ کی اس کٹھن معاشی صورتحال میں کیا ضرورت ہے۔

ستر بہتر وزراء اور مشیروں کی اس لمبی فوج ظفر موج کس کفایت شعاری کی نشاندہی کرتی ہے۔ ملک کے کئی ادارے خسارے میں چل رہے ہیں۔ اسٹیل مل کئی سالوں سے بند پڑی ہے لیکن اُس کے ملازمین کو تنخواہیں مسلسل دی جا رہی ہیں۔

دس سالوں میں اس کی مشینوں کو بھی زنگ لگ چکا ہے مگر ہمارے کسی حکمراں کو یہ سجھائی بھی نہیں دے رہا کہ اسے فروخت کر کے کم از کم اس غیر ضروری مالی بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔ سیاستدانوں کی سیاسی مجبوریوں نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے۔

جب بھی کسی ادارے کے مالی حالات درست کرنے کی جستجو کی جاتی ہے کوئی نہ کوئی سیاسی پارٹی اپنے مفادات کی خاطر اس کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیتی ہے۔ IMF بھی ہم سے کبھی یہ نہیں کہتا کہ خسارے میں چلنے والے یہ ادارے یا تو ختم کیے جائیں یا پھر فروخت کر دیے جائیں ، وہ صرف نئے ٹیکس لگانے اور بجلی گیس مہنگی کرنے پر زور دیتا ہے۔

وہ اگر واقعی ہماری حالت بہتر بنانے کا خواہش مند ہوتا تو سب سے پہلے خسارے میں چلنے والے اداروں کو درست کرنے کا حکم صادر کرتا۔ یہ بات تو طے ہے کہ IMF کبھی ہمارے خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔

اس کی ساری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہم اسی طرح اس سے چند ٹکوں کے لیے اپنی آزادی اور خود مختاری کا سودا کرتے رہیں۔ جب کبھی ملک کے حالات کچھ بہتر ہونا شروع ہوتے ہیں کوئی نئی آفت ہم پر نازل کر دی جاتی ہے۔ اس میں سیاستدانوں کے علاوہ کچھ ہمارے اداروں کا بھی قصور ہے ۔

2017میں اس ملک کی معاشی صورتحال ہرگز ایسی دگرگوں نہ تھی اور محسوس کیا جانے لگا تھا کہ یہ ملک اب درست سمت میں آگے بڑھنے لگا ہے ، لیکن عدلیہ سمیت کچھ طاقتور حلقوں نے ساری صورتحال بدل کر رکھ دی اور صرف ایک سال کے عرصے میں ملک کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ اب ہم کوڑی کوڑی کو محتاج ہوچکے ہیں۔

ڈیفالٹ ہوجانے کا خطرہ ہمیں مزید پیچھے کی جانب دھکیل رہا ہے۔ ہمارے سرمایہ دار لوگ اپنا پیسہ تیزی سے باہر لے جا رہے ہیں۔ بیرون ملک مقیم جو پاکستانی اپنا پیسہ بینکوں کے ذریعے یہاں بھیجا کرتے تھے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں کرنسی ریٹ کے بڑے فرق نے انھیں بھی اپنا پیسہ ہنڈی کے ذریعے بھیجنے پر راغب اور مائل کردیا ہے۔ اس طرح یہ ملک گہری کھائی میں ہی گرتا دکھائی دینے لگا ہے۔

کرپشن کو ملکی مالی مسائل کی واحد بڑی وجہ بتانے والوں نے بھی جب انھیں موقع ملا تو اس کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیا ، بلکہ یہ کہا جائے تو ہرگز بے جا اور غلط نہ ہوگا کہ اُن کے دور میں تو کرپشن پہلے سے زیادہ بڑھی۔ زرداری صاحب کے دور حکومت میں بھی اس ملک کی یہ حالت ہرگز نہ تھی جیسی اب ہوچکی ہے۔ دنیا میں بہت سے ملک ایسے ہیں جہاں کرپشن ہمارے یہاں سے بھی زیادہ ہے لیکن کیا وہ ترقی نہیں کر پا رہے۔

چائنہ میں بھی بہت کرپشن ہے مگر وہ اس وقت ایک بڑی طاقت بنا ہوا ہے۔ تو یہ کہنا بالکل درست نہیں ہے کہ کرپشن ہی اس ملک کی مالی مشکلات کی بڑی وجہ ہے۔ مالی مشکلات اس وقت بڑھتی ہیں جب پیسہ کو منجمد کر دیا جائے۔ وہ سرکولیشن میں رہے گا تو حالات بہتر ہونگے۔ ہمارے یہاں اس کے بالکل برعکس ہو رہا ہے۔

ہمارے لوگ غیر ترقیاتی منصوبوں میں پیسہ لگا کے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ محفوظ ہوچکے ہیں۔ پراپرٹی اور رئیل اسٹیٹ میں پیسہ لگانا ہم جیسے ملکو ں کے لیے مزید نقصان دہ ہوا کرتا ہے۔

یہ پیسہ اگر کسی ترقیاتی منصوبوں پرصرف کیا جائے تو یقینا اس قوم کے زیادہ مفاد میں ہوگا ۔ عوام کے پاس سوائے پراپرٹیاں خریدنے کے کوئی اورآپشن نہیں رہا۔ دوسری جانب حکمرانوں کواپنے اور ملکی اخراجات پورے کرنے کے لیے سوائے قرضوں اور امداد کے کوئی دوسرا آپشن سمجھائی نہیں دے رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔