کیا بائیکاٹ جیت گیا؟

رضوان احمد صدیقی  پير 16 جنوری 2023
بلدیاتی انتخابات میں ووٹنگ کی شرح افسوس ناک حد تک کم رہی۔ (فوٹو: فائل)

بلدیاتی انتخابات میں ووٹنگ کی شرح افسوس ناک حد تک کم رہی۔ (فوٹو: فائل)

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی بالآخر مکمل ہوگیا۔ ابھی تک تمام حلقوں کے حتمی نتائج سامنے نہیں آئے ہیں لیکن کل پولنگ اسٹیشنز کی صورتحال اور ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ ایک الگ ہی کہانی سنا رہا ہے۔ ٹویٹر پر بھی ’’بائیکاٹ جیت گیا‘‘ کا ہیش ٹیگ گردش کررہا ہے۔ اس وقت ٹویٹر کے پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈنگ ہیش ٹیگ کا جائزہ لیا جائے تو ’’الطاف حسین‘‘ پہلے اور ’’بائیکاٹ‘‘ تیسرے نمبر پر ہے، جبکہ ’’بھائی کا بائیکاٹ جیت گیا‘‘ ہیش ٹیگ بھی ٹاپ ٹین میں شامل ہے۔ لیکن کیا واقعی ان بلدیاتی انتخابات میں بھی ’’بائیکاٹ‘‘ جیت گیا؟

اتوار ایک چھٹی کا دن تھا، اس دن بلدیاتی انتخابات میں معمول سے زیادہ ووٹنگ ہونی چاہیے تھی کیونکہ ’’کام‘‘ یا ’’ڈیوٹی‘‘ کا بہانہ بھی نہیں تھا۔ لیکن آنکھوں دیکھا حال بیان کیا جائے تو کراچی کے بیشتر علاقوں میں پولنگ اسٹیشنز تقریباً خالی ہی دکھائی دے رہے تھے۔ جس طرح کا ہجوم متوقع تھا، ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ مخصوص پولنگ اسٹیشنوں میں اگر کہیں رش نظر بھی آیا تو اس حلقے کے پولنگ ایجنٹوں یا اثر رکھنے والی جماعتوں کے کارکنوں کا ہی رش تھا۔ اصل ووٹرز بہت کم نظر آرہے تھے۔

چونکہ اب تک حتمی نتائج سامنے نہیں آئے ہیں، اس لیے کسی کی بھی جیت یا ہار کا محض اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے لیکن ٹرن آؤٹ کے حوالے سے یہ اندازے قائم کیے جارہے ہیں کہ اس بار بلدیاتی انتخابات میں صرف ’’اٹھائیس فیصد‘‘ ہی ووٹ کاسٹ کیے گئے ہیں۔ اگر یہ اندازہ قریب قریب بھی درست ہو تو ووٹنگ کی یہ شرح افسوس ناک حد تک کم ہے اور اتنی کم شرح کی موجودگی میں کسی کی بھی جیت ’’حق بجانب‘‘ قرار نہیں دی جاسکتی، کیونکہ جیتنے والا امیدوار اٹھائیس فیصد سے بھی کم ووٹرز کا انتخاب ہوگا۔

انتخابات سے صرف ایک رات قبل ایم کیو ایم پاکستان نے کراچی کے تمام اضلاع سمیت حیدرآباد، ٹھٹہ، بدین، سجاول، جامشورو، مٹیاری، ٹنڈوالہیار اور دادو میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا تھا جبکہ ’’لندن گروپ‘‘ کی جانب سے تو پہلے ہی بائیکاٹ کا فیصلہ موجود تھا۔ اگر تعصب کی عینک ہٹا کر دیکھا جائے تو بہرحال ایم کیو ایم کی سندھ کی شہری سیاست میں اہمیت اور حیثیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایم کیو ایم کا ہمیشہ سے جنرل الیکشن اور بلدیاتی انتخابات میں فیصلہ کن کردار رہا ہے، چاہے وہ انتخابات میں شرکت کرکے ہو یا پھر بائیکاٹ کے ذریعے۔ ماضی میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں، جب ایم کیو ایم کے بائیکاٹ نے انتخابی نتائج اور ووٹنگ ٹرن آؤٹ کو یکسر تبدیل کردیا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے کوئی پہلی بار انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کیا گیا بلکہ ماضی میں بھی ایسا کئی بار ہوا ہے جب متحدہ نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انتخابات سے اپنے قدم پیچھے ہٹالیے۔ یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جماعت اسلامی کو 2001 میں جو جیت ملی تھی، اس کے پیچھے بھی ایم کیو ایم کا انتخابات سے بائیکاٹ ہی تھا۔ جماعت اسلامی کو تین بار کراچی کی میئرشپ ملی، جس میں ابتدائی دو ادوار وہ تھے جب ایم کیو ایم کا وجود ہی نہیں تھا، اور 2001 میں بھی اگر ایم کیو ایم بائیکاٹ نہیں کرتی تو جماعت اسلامی کو موقع ملنا مشکل تھا۔ اس وقت بھی مکمل رزلٹ سامنے نہیں آیا لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا یہی ہے کہ ایم کیو ایم کے اس بائیکاٹ کا فائدہ جماعت اسلامی کو حاصل ہوگا۔ بے شک جماعت اسلامی کے حافظ نعیم نے انتخابی مہم بہت اچھے طریقے سے چلائی اور جماعت کا ایک مثبت چہرہ عوام کے سامنے لائے لیکن ایم کیو ایم پر تمام تر پابندیوں اور منفی پروپیگنڈے کے باوجود متحدہ کی انتخابات میں موجودگی پر جماعت کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا۔

حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کم ووٹنگ ٹرن آؤٹ پر یہ خیال بھی کیا جارہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رویوں سے نالاں اور مایوس عوام اب انتخابی عمل میں دلچسپی نہیں لے رہے، اس وجہ سے بھی عوام ووٹ ڈالنے گھروں سے نہیں نکلے۔ عوام کی انتخابات سے بے زاری کی یہ وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اب تک کوئی بھی جماعت عوامی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکی۔

تادمِ تحریر خبروں کے مطابق کراچی اور حیدرآباد سمیت 16 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں پیپلزپارٹی نے 9 اضلاع میں کامیابی حاصل کی جبکہ کراچی کی 246 میں سے 22 یونین کونسلز کے مصدقہ نتائج میں پیپلزپارٹی 15، تحریک انصاف 6 اور جے یو آئی 1 نشست پر کامیاب ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی اپنی اپنی جیت کے دعوے پر قائم ہیں۔

حالانکہ پی ٹی آئی کے جلسوں کی مقبولیت کی بنا پر یہ خیال کیا جارہا تھا کہ ان بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف بھی بڑا ہاتھ مارنے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن انتخابی نتائج بالکل الٹ ظاہر کررہے ہیں جس سے اس بات پر مہر تصدیق ثبت ہوجاتی ہے کہ کسی بھی جلسے کی کامیابی اور عوام کا ہجوم اس پارٹی کی مقبولیت کی سند بالکل بھی نہیں ہے بلکہ اصل مقبولیت بیلٹ باکس سے نکلے ووٹ ہی طے کرتے ہیں۔

کراچی کے انتخابات بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن اکثر ڈویژن کے نتائج تاحال تاخیر کا شکار ہیں۔ رات گئے تک موصول ہونے والے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کی گنتی انتہائی محدود رہی تاہم تینوں جماعتیں اکثریت کا دعویٰ کرتی نظر آئیں۔ جماعت اسلامی نے 100 سے زائد یونین کونسلز کی نشستیں جیتنے اور اکثریت حاصل کرنے، پیپلز پارٹی نے 80 سے زائد یوسیز اور تحریک انصاف نے 50 یوسیز میں فتح حاصل کرنے کا دعویٰ کیا۔ تاہم اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق کوئی بھی جماعت میئر کےلیے واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی ہے۔

بہرحال بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں بے یقینی کے باعث روایتی انتخابی گہماگہمی نہ ہونے کے برابر رہی، عوام کے ساتھ امیدواروں کےلیے بھی الیکشن ہونے یا نہ ہونے کا موضوع مستقل زیر بحث رہا، خاص طور پر آخری تین دنوں میں بے یقینی کی فضا عروج پر تھی۔ اور ایم کیو ایم کے حتمی بائیکاٹ کے بعد انتخابات والے دن متحدہ کے ووٹر بھی منظر سے غائب رہے۔ بلدیاتی انتخابات میں متحدہ کا یہ بائیکاٹ جیتا ہو یا ہارا ہو، بحیثیت قوم ہم مستقل ہار کا شکار ہیں۔ اور بطور قوم ہمیں جیت کی اشد ضرورت ہے۔ کاش تمام سیاسی جماعتیں بھی اپنی جیت اور مخالف کی ہار سے زیادہ قوم کی جیت اور ملک کی ترقی کےلیے سامنے آئیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔