سیاسی مقدمات کی بھرمار

محمد سعید آرائیں  منگل 17 جنوری 2023
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق پاکستانی عدلیہ نے 2022 میں ایک لاکھ 76 ہزار کیس مکمل کیے۔

مقدمات کی تفصیل کے مطابق گلگت بلتستان کے علاوہ چاروں صوبوں اور اسلام آباد کی عدالتوں میں 81 ہزار مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں اور ملک بھر کی عدالتوں سے 68 ہزار 641 مقدمات میں ملزمان بری بھی کیے گئے۔

یہ تفصیلات ملک کی نچلی عدالتوں کے مقدمات کی ہیں جب کہ سپریم کورٹ اور پانچوں ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیسز کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔

نچلی عدالتوں سے سزا پانے یا رہا کیے جانے والے ملزمان کے فیصلوں پر کوئی تبصرے نہیں کرتا، ہمارے ہاں صرف اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پر تبصرے سامنے آتے ہیں لیکن وہ بھی محتاط انداز میں، یہ ہلکے پھلکے تبصرے بھی سیاسی نوعیت کے مقدمات کے فیصلوں پر ہوتے ہیں۔ ممتاز وکلا سیاسی دھڑوں میں تقیسم ہیں اور سیاسی پارٹیوں کے وکلاء ونگ بھی قائم ہیں۔

بعض وکیلوں کو سیاسی پارٹیوں نے سینیٹر کے عہدے بھی دے رکھے ہیں اور کئی وزیر بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ ایسے جانبدار وکلا ٹی وی ٹاک شوز میں حقائق پر بات نہیں کرتے بلکہ آئین اور قانون کی اپنی اپنی مرضی کی تشریح کرکے اپنی سیاسی پارٹیوں کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔

سپریم کورٹ اور پانچوں ہائی کورٹس میں سیاسی مقدمات کی بھرمار ہے اور وہاں بھی سیاسی مقدمات کو ترجیح بھی ملتی ہے۔ سال 2022 میں عدالتیں رات کو بھی کھلیں اور فیصلے بھی آئے، جن پر من پسند سیاسی تبصرے بھی ہوئے۔ جن کو رات کے فیصلوں سے فائدہ یا نقصان ہوا سیاسی طور پر ان پر فیصلے بھی ہوئے۔

سیاسی مقدمات پر فیصلے جلد بھی آئے لیکن بعض فیصلوں پر اپیلیں مہینوں سے سماعت کی منتظر ہیں، متعلقہ چیف جسٹس صاحبان کا اختیار ہے کہ وہ کس اپیل پر فوری سماعت شروع کرا دیں اور کس اپیل کو غیر معینہ مدت تک التوا میں رکھیں۔

سندھ، کے پی اور بلوچستان ہائی کورٹس میں سیاسی مقدمات کی تعداد کم ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین سب سے زیادہ عدالتی ریلیف لینے والے سیاسی رہنما قرار دیے جاتے ہیں۔

انھیں ایک ٹرائل کورٹ سے شہباز شریف کے 2018 سے دائر ہتک عزت کی مقدمے میں 140 بار التوا ملا ہے، اس پر بھی عمران خان مطمئن نہ ہوئے اور ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ تک گئے جہاں سے بھی انھیں ناکامی ہوئی اور دو سینئر ججوں نے ان کا حق دفاع ختم کرنے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔

اس ہتک عزت کیس کو پانچ سال ہوچلے ہیں، ملک کے وکلاء اور عوام شہباز شریف یا عمران خان کے خلاف فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ملک کی سیاست میں جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگانے کے کلچرکو فروغ مل رہا ہے ۔ لوگ ہتک عزت کے کیس عدالتوں میں اس لیے لے کر نہیں جاتے کیونکہ ایک تاثر بن گیا ہے، ایسے مقدمات کا کچھ نہیں ہوتا۔ عام آدمی تو کیا طاقتور لوگوں کو بھی یہ شکایات ہیں کہ ان کی اپیلوں پر فیصلے نہیں ہورہے۔

سپریم اور ہائی کورٹس میں سیاسی مقدمات کی بھرمار کے باعث غیر سیاسی کیسز کا نمبر کم ہی آتا ہے ۔ مقدمات کی سماعت پہلے آئے ، پہلے پائے کے اصول پر ہی ہونی چاہیے تاکہ پرانے مقدمات کے فیصلے بھی پہلے ہوسکیں۔

اعلیٰ عدالتوں پر سیاسی مقدمات کے ساتھ آئین کی تشریح کے کیسز بھی سماعت کے منتظر ہیں کیونکہ آئین میں بعض معاملات پر سقم ہے جس کی تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے مگر سپریم کورٹ میں اتنے فیصلے نہیں ہوتے جتنے مزید مقدمات آ جاتے ہیں۔

پی ٹی آئی تو ہر معاملہ اعلیٰ عدالتوں میں لے جانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ اعلیٰ عدالتوں میں فیصلے سالوں نہیں ہوتے جن کا واحد حل ملک میں اعلیٰ عدالتوں سے سیاسی مقدمات کا بوجھ کم کرنا ہے ۔ آئینی مقدمات کی سماعت و فیصلوں کے لیے ایک الگ وفاقی عدالت ہونی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔