بچے نہ اردو کے نہ انگریزی کے۔۔۔ماؤں کی ذمہ داری کیا ہے؟

مریم شہزاد  منگل 17 جنوری 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

’’میں کیا کروں؟

میری بالکل سمجھ میں نہیں آتا، ٹیچر ایک لفظ بھی اردو کا نہیں بولتیں، اور نہ ہی اردو میں سمجھاتی ہیں۔

انگلش میں ہی پڑھاتی ہیں اور انگلش میں ہی سمجھاتی ہیں ،عافیہ نے امی سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا، لیکن یہ صرف ایک بچے کی پریشانی نہیں ہے بلکہ  ہمارے نظام تعلیم میں اکثر اسکولوں میں یہ ہی صورت حال ہے جس کی وجہ سے بہت سے بچے صرف اور صرف پڑھ رہے ہیں اور سمجھ کچھ نہیں رہے۔

تو کیا بغیر سمجھے پڑھنا ٹھیک ہے۔۔۔؟

بغیر سمجھے پڑھنا ،یعنی رٹا!  سوال یہ پیدا ہوتا کہ رٹے کی کیا اہمیت ہے؟ ظاہر ہے کہ کچھ نہیں، اس طرح سے نہ ہی قابلیت میں کچھ اضافہ ہو رہا ہے اور نہ ہی بچوں میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع مل رہا ہے، جو کچھ کتاب میں ہے۔

وہی کاپی میں ہو بہو نقل کر کے اسی کو یاد کرکے امتحان دے دیا اور پوزیشن لے لی یا ٹیچرز نے بنے بنائے نوٹس دے دیے اور وہی مِن وعن نقل ہو گئے، یعنی ذہنوں کو ایک طرح سے سلا دیا اور جو لوگ خود بھی کچھ آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرنا چاہیں ان کو بھی مجبوراً اسی نظام تعلیم کا حصہ بننا پڑتا ہے۔

جب کہ تمام ترقی یافتہ قومیں اپنی مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دیتی ہیں، تاکہ ان کی قوم سمجھ کر پڑھے اور ملک اور قوم کی ترقی میں معاون ثابت ہو، مگرہمارے ملک کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انگریزی بولنے والے افراد کو ہی تعلیم یافتہ سمجھا جاتا ہے اور اسی کو عزت بھی دی جاتی ہے۔

اگر دو لوگ بیٹھے ہوئے ہوں جن میں سے ایک اردو اور ایک انگریزی میں بات کررہا ہو تو چاہے اردو بولنے والا کتنا ہی قابل اور پڑھا لکھا ہو اس کو اس انگریزی زبان بولنے والے سے کم تر ہی سمجھا جاتا ہے چاہے وہ غلط سلط ہی بول رہا ہو۔

اسکولوں کا بھی میعار انگلش میڈیم ہی ہے جہاں اردو بولنے پر پابندی اور جرمانہ عائد ہوتا ہے، جب کہ اگر اپنی زبان میں تمام مضامین پڑھائے یا صرف سمجھا بھی دیے جائیں، تو بھی ہمارا میعار تعلیم بہتر ہو سکتا ہے، مگر انگریزی زبان کی معنی بھی انگریزی میں ہی بتائے جاتے ہیں۔

انگریزی کو چوں کہ ایک معیار مان لیا گیا ہے، اس لیے وہی سب سے زیادہ ضروری سمجھی جاتی ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ وقت کی ضرورت ہے، مگر اپنی زبان کو بالکل ہی نظر انداز کردینا بھی عقل مندی نہیں۔

ایسی صورت حال میں ضروری ہے کہ مائیں  اپنی سطح پر اسکولوں کو مانیٹر کریں، ایک طرف اسکولوں کو اس جانب قائل کریں کہ وہ انگریزی بطور زبان ضرور پڑھائیں لیکن بنا انگریزی سکھائے نصاب کو رٹوانے سے گریز کریں۔ ساتھ ہی قومی زبان اردو سے اتنا سوتیلا سلوک نہ کریں کہ اردو بولنے پر جرمانہ عائد کریں اور غلط سلط اردو ہی کو کافی سمجھ لیں۔

ظاہر ہے ایک دو ماؤں کے کہنے  سے شاید اثر نہ پڑے، لیکن آپ کے اسکول کا معیار جو بھی ہے، آپ اسے فیس ادا کرتے ہیں، اس لیے آپ کی بات سنی ضرور جائے گی اور اگر آپ دیگر والدین کو بھی ہم خیال بنا لیں تو ممکن ہے کہ آپ اسکول کو قائل کرنے میں کام یاب بھی ہوجائیں۔ اس سے کم سے کم ترقی کی ضرورت انگریزی سکھائی جاسکے گی دوسرا اپنی قومی زبان کی عزت ووقار بھی بڑھے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ بطور ماں آپ اپنا کردار بھی ادا کرسکتی ہیں کہ اگر کوئی ایسا اسکول  آپ کی رسائی میں نہیں جو انگریزی رٹانے اور اردو بگاڑنے اور ملیامیٹ کرنے پر تُلا ہوا نہ ہو۔ تو کم سے کم گھر پر کچھ وقت دے کر آپ بچوں کی انگریزی اور اردو بہتر کرسکتی ہیں۔ چلیے اگر انگریزی آپ کی اتنی اچھی نہیں یا آپ انگریزی سے ناواقف ہیں تو کم سے کم ان کی اردو اچھی کر کے انھیں ’گونگا‘ ہونے سے بچا سکتی ہیں ۔

کیوں کہ جو بچے اپنی زبان ہی سے نابلد ہوں انھیں اکادمیاتی اور تخلیقی پیمانے پر بولنے سے قاصرہی قرار دیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔